محمد دین پیشے کے لحا ظ سے کسان تھا، ایک چھوٹا سا زمیندار۔ اپنی زندگی میں ہر نعمت سے وہ لطف اندوز ہو چکا تھا ۔ اچھی بیوی، نیک اولاد ، ایک عزت کرنے والی بہو ، ایک پیارا سا پوتا ۔جب اسے اطلاع ملی کہ وہ دوبارہ دادا بننے والا ہے تو خوشی سے ناچ اٹھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک طوفان اس کا انتظار کر رہا ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب دور دراز کے دیہات میں ڈاکٹر بلانے کا تکلف نہیں کیا جا تا تھا۔ حسبِ معمول ایک دائی بلائی گئی، جس کے ہاتھ اس خاندان کے سب بچے پیدا ہوئے تھے ۔رات وہ زچہ کے پاس بیٹھی رہی ۔ صبح جب ننھے مہمان کے رونے کی آواز آئی تو اسے لے کر وہ روتی ہوئی باہر نکلی۔ محمد دین کے گھر ہیجڑا ہوا ہوا تھا۔
دو تین روز کے بعد محمد دین کے اوسان بحال ہوئے ۔ پہلی بار اس نے اپنے پوتے/پوتی کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ وہ اچھا خاصا خوبصورت تھا ۔وہ منہ بسورے لیٹا ہوا تھا ۔ محمد دین کو ایسا لگا ، جیسے اپنے دادا سے وہ ناراض ہے ۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ نئے مہمان کو اس نے خوش آمدید کیوں نہ کہا۔ اسے وہ چومنے لگا، گلے سے لگانے لگا ۔اس نے اس کا نام الماس رکھا۔ گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں ۔ آہستہ آہستہ وہ دادا کے دل میں اترتا گیا ۔ معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور یہ بات محمد دین کو اچھی طرح سے معلوم تھی۔ الماس کو اٹھا کر جب وہ باہر نکلتا تو جہاں کچھ لوگ اسے ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ، وہیں اکثر نگاہوں میں اسے تمسخر نظر آتا ۔اسے اندازہ تھا کہ یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہے گا ۔ وہ یہ تکلیف برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا ۔
الماس اس وقت تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا ، جب پہلی بار محمد دین نے یہ بات نوٹ کی۔ وہ کسی بھی بات کے جواب میں خاموش رہتا تھا، چند لمحے سوچتا اور پھر جواب دیتا ۔ وہ بے حد ذہین اور سنجیدہ بچہ تھا۔ ہر سال امتیازی نمبروں سے وہ پاس ہورہا تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں تھا ، جب بڑی حویلی والوں نے پہلی بار محمد دین کو تنگ کیا۔ بڑی جیپوں پر وہ شکار کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ محمد دین الماس کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے بیٹھا تھا۔ دونوں دادا پوتا چپ چاپ گھنٹوں ساتھ بیٹھے رہتے ۔ بڑی حویلی والوں کی جیپ رکی، چوہدری احتشام الحق نے شیشے سے منہ نکال کر یہ کہا '' محمد دین رات حویلی میں جشن ہوگا ،ناچنے کے لیے ہیجڑے منگوائے ہیں ، الماس کو بھی بھیج دینا۔‘‘ اس کی اس بات پہ قہقہہ لگا۔ محمد دین نے محسوس کیا کہ اسے کسی نے کھولتے ہوئے پانی میں پھینک دیا ہے۔ سراپا وہ کانپ اٹھا ۔ اس نے کہا : خدا سے ڈر چوہدری ، خدا سے ڈر ۔ وہ ہنستے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔
بڑی حویلی والوں کا مسئلہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر وقت انہیں تماشے کے لیے کوئی کھلونا درکار تھا ۔اب اکثر آتے جاتے وہ محمد دین سے کہا کرتے ، ذرا اپنے پوتے کو نچا کے تو دکھا ۔ وہ بلک اٹھتا ، انہیں بددعائیں دیتا۔ الماس چپ چاپ انہیں دیکھتا رہتا ۔ اب وہ ساتویں جماعت میں تھا۔ اپنے دادا سے ایک دن اس نے یہ کہا : دادا میں ایک بار انہیں ناچ کے دکھا دیتا ہوں ، اس طرح وہ ہمیں تنگ کرنا چھوڑ دیں گے ۔ محمد دین نے یہ کہا کہ وہ مرتا مر جائے گا ، ایسا کبھی نہ ہونے دے گا۔
اس رو ز محمد دین کی طبیعت کچھ خراب تھی ۔ صبح وہ اٹھ نہ سکا، دیر تک سوتا رہ گیا۔ الماس سکول سے آیا تھا، جب چوہدری وہاں سے گزرے ۔ احتشام الحق نے اسے کہا ، الماس ذرا ناچ کے تو دکھا ۔ الماس نے سکول بیگ ایک طرف رکھا اور ناچنے لگا۔ناچنا اس نے سیکھا تو نہ تھا۔ وہ بس ہاتھ پائوں ہلا رہا تھا کہ یوں چوہدری سے مستقل طور پر اپنی جان چھڑا لے۔ محمد دین گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ الماس ناچ رہا ہے ۔ چوہدری احتشام الحق خوب ہنس رہا تھا۔ اپنی گاڑی میں اس نے تیز میوزک لگا رکھا تھا اور اس کے دروازے کھول دئیے تھے ۔ محمد دین کو دل کا دورہ پڑا ۔ گرتے گرتے اس نے بددعا دی ، میرے پوتے کو نچانے والے ، تو خود ناچے ۔
چوہدری احتشام الحق کے خاندان میں لکھائی پڑھائی کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔خود وہ نشے کا عادی تھا ۔ اس کے پاس بے شمار جائیداد تھی ، ان گنت جانور ، فصلیں اور بہت کچھ ۔ یہ سب کچھ تھا لیکن آپس میں ان کے تنازعات بھی بہت تھے۔ زمینوں کی وراثت پر لڑائی جھگڑے چلتے رہتے تھے۔ بہت سے لوگوں کی زمینوں پر انہوں نے قبضہ کر رکھا تھا اور دشمنوں میں سے ایک گروپ اتنا طاقتور تھا کہ اس نے ان کی کچھ زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ان سب لڑائی جھگڑوں سے بخوبی وہ گزرتے رہتے تھے ۔ نقصان انہیں وہاں سے پہنچا ، جہاں سے اندازہ بھی نہیں تھا۔ اس کا چچا زاد نوفل، کسی حدتک اللہ لوک تھا۔ اسے وہ لوگ کسی گنتی میں نہ گنتے تھے ۔انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اندر ہی اندر اس کے دل میں بہت سی رنجشیں پل رہی ہیں۔ اس روز خدا جانے کیا تنازع ہوا، کس بات پہ جھگڑا ہوا۔ نوفل رائفل اٹھا کر آیا اور اس نے ان سب کو بھون کے رکھ دیا۔ احتشام اس وقت وہاں نہیں تھا، وہ بچ نکلا۔ بعد ازاں شدید تنہائی میں اسے ڈپریشن ہونے لگا۔ بیوی بچوں کا روگ اس نے پالا نہیں تھا۔ سارے خاندان والے مر چکے تھے ۔ نشے کا وہ پہلے سے عادی تھا، اب اس میں اضافہ ہوگیا۔ جائیداد بہت سی تھی لیکن قبضہ برقرار رکھنے کے لیے نفری نہیں تھی ۔ نشے کی حالت میں لوگ کاغذات پہ اس سے دستخط کراتے رہتے ۔
الماس زیادہ وقت سوچ میں گم رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک سوچنے والا دماغ تھا ۔ ہر سال امتیازی نمبروں سے وہ پاس ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے ایم اے کا امتحان پاس کیا ۔ پھر مقابلے کے امتحان کی تیاری کی ۔ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ انٹرویو کے لیے جب وہ گیا تو ایک تماشہ لگ گیا۔ پہلے کبھی کو ئی خواجہ سرا مقابلے کے امتحان میں نہ اترا تھا۔ انٹرویو کرنے والے حیران تھے۔ سوال پوچھتے ہوئے وہ جھجک رہے تھے۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ الماس ہر سوال کا سوچ سمجھ کر جواب دے رہا تھا۔وہ جذباتیت کا شکار نہیں تھا۔ پوری طرح وہ ہوش میں تھا ۔ انٹر ویو لینے والے حیران تھے کہ کس بنیاد پر اسے مسترد کریں ۔ کوئی قانون اسے سرکاری افسر بننے سے روک نہیں سکتا تھا ۔ آخر انہوں نے اسے منتخب کر لیا۔
اخبارات میں ، ٹی وی میں شور اٹھا۔ ایک خواجہ سرا کو سترھویں درجے کا سرکاری افسر منتخب کر لیا گیا ۔ الماس کے گھر جشن کا سماں تھا۔ کسی نے تیز آواز میں میوزک لگا دیا ۔ دوست رشتے دار رقص کرنے لگے ۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک نشئی الماس کے گھر کے باہر ناچ رہا تھا۔ اس امید پر کہ اسے کچھ روپے ملیں گے اور ان سے وہ ہیروئن خرید سکے گا ۔ الماس نے غور سے دیکھا، وہ احتشام الحق تھا ۔ اسے زبردستی نچانے والا احتشام الحق ۔ نچانے والا خود ناچ رہا تھا!