تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-02-2013

نتائج صفر کیسے نکلتے ہیں ؟

نرگس سیٹھی وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اپنے عہدے سے رخصت ہوئیں۔ ایک بے مقصد‘ بے فائدہ اور فضول دور اختتام کو پہنچا۔ پاور سیکٹر کے نالائق افسران کی بلاوجہ اور بے نتیجہ ذلت اور بے عزتی اپنے انجام کو پہنچی۔ صبح سے لے کر سورج کے نصف النہار تک پہنچنے کے دوران جاری رہنے والی وڈیو کانفرنسیں ختم ہوئیں۔ تمام چیزیں بے مقصد اور بیکار تھیں کیونکہ پاور سیکٹر میں ایک رتی کی بہتری رونما ہونا تو ایک طرف مزید خرابی اور بربادی ہوئی۔ پچھلے چند ماہ کے دوران نرگس سیٹھی کی پھرتیاں خاصی مسحور کن تھیں۔ وہ اپنے اقدامات کی بدولت بظاہر متحرک ، فعال اور بڑی دبنگ بیوروکریٹ نظر آتی تھیں۔ سپریم کورٹ انہیں سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی والے کیس میں بہادر خاتون قرار دے چکا تھا لہٰذا میڈیا کے بعض حضرات سمیت بے شمار لوگ انہیں پاور سیکٹر کا نجات دہندہ بناکر پیش کررہے تھے۔ بے سمت سفر کا انجام منزل نہیں، گمراہی ہوتا ہے۔ اس دور کی کارکردگی ایک جملے میں یوں ہوگی کہ نرگس سیٹھی پہلے سے برباد پاور سیکٹر کا بیڑہ مزید غرق کر گئیں۔ پاور سیکٹر کو کسی ایسے بے لوث، انتھک اور محنتی قائد کی ضرورت ہے جس کی اوّل سے آخر تک ترجیح پاور سیکٹر کی بحالی ہو اور وہ اپنی ترجیحات پر عملدرآمد کروانے کے لیے تکنیکی مہارت بھی رکھتا ہو۔ بجلی کے بارے میں محض سوئچ آن آف کرنے کی تکنیکی مہارت سے آگاہ نرگس سیٹھی نے گرگ باراں دیدہ قسم کے چیف ایگزیکٹو ز کی دل بھر کے بے عزتی کی جواباً انہوں نے موصوفہ کو ٹیکنیکل ناک آئوٹ کردیا۔ شعبے میں بہتری کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ بجلی کی طلب و رسدکا معاملہ گرمیوں کے آغاز سے قبل ہی ناقابل اصلاح قسم کی خرابی کی طرف گامزن ہوگیا۔ سرکلر ڈیٹ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کمپنیوں کے انتظامی اور مالی معاملات مزید دگرگوں ہوگئے۔ اگر محض بے عزتی کرنے اور افسروں کو ٹائی پہننے سے منع کردینے والے احکامات سے مسائل حل ہوتے تو پاور سیکٹر خرابی کے دور سے نکل چکا ہوتا۔ اس شعبے کی خرابیوں کا حل بے مقصد، فضول اور بے فائدہ احکامات میں نہیں بلکہ مرحلہ وار عملی اقدامات میں ہے اور یہ کام کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس کے پاس ویژن، جذبہ اور اختیارات ہوں گے۔ اختیارات سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا کام کسی سیاسی دبائو اور سیاستدانوں کی مداخلت کے بغیر کرسکتاہو۔ حکومت کو مسئلہ کے حل سے کبھی دلچسپی نہیں رہی اب تو خیر سے ڈیڑھ ماہ سے بھی کم عرصہ باقی ہے اس کے بعد نگران حکومت جانے اور ان کا کام جانے۔ لوڈشیڈنگ کا بدترین وقت ابھی ایک دوماہ بعد شروع ہوگا۔ قوم اس لوڈشیڈنگ کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کو یاد کرے گی۔ جیالے اپنی حکومت کی شان میں قصیدے پڑھیں گے۔ راجہ پرویز اشرف ساری خرابی کا ملبہ رینٹل پاور یعنی کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے کی منسوخی پر ڈالیں گے۔ اس سارے زبانی کلامی جمع خرچ کے دوران عوام مزید ذلیل و خوار ہو جائیں گے۔ اصل یہ ہے کہ حکومت کو بجلی کا مسئلہ حل کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں۔ بھاشا ڈیم کا افتتاح دوسری مرتبہ ہوچکا ہے مگر ابھی وہاں پر ایک اینٹ بھی نہیں لگی۔ پچھلے وزیر پانی و بجلی سید نوید قمر کو بھی سفارشوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کرنے سے فرصت نہیں تھی۔ اب موجودہ وزیر پانی وبجلی جناب احمد مختار کو بھی یہی کام مرغوب ہے۔ تاہم احمد مختار کو یہ داد ضرور دینی چاہیے کہ انہوں نے ٹرانسفر وغیرہ جیسے غیردستاویزی اور غیرتحریری کام کو بھی باقاعدہ سرکاری دستاویزات کا حصّہ بنادیا ہے اور اس سلسلے میں 7 جون کو باقاعدہ آفس آرڈر جاری کیا ہے کہ کسی ایس ڈی او، ایکسین اور ایس ای (سپرنٹنڈنگ انجینئر) کا تبادلہ یا تعیناتی وزیر موصوف کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے کہ پاور سیکٹر میں ایس ڈی او اور گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کے افسران کی تعداد پانچ ہزار دوسو کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اب جس وزیر کے کندھوںپر باون سو افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا بوجھ ہو بھلا وہ پاور سیکٹر کی بہتری کے لیے وقت کہاں سے نکال سکتا ہے ؟۔ پچھلے تین دن سے ملک میں بجلی کی جو صورت حال ہے وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ ہائیڈل بجلی کی پیداوار آج کل پانی کی صورت حال کی وجہ سے چھ ہزار سات سو میگاواٹ سے کم ہوکر دوہزار سات سو میگاواٹ کی کم ترین سطح پر ہے۔ اس وقت بجلی کی طلب بارہ ہزار میگاواٹ ہے جبکہ پیداوار سات ہزار پانچ سو میگاواٹ ہے۔ یعنی اس وقت ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال ہے اور ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کی استعداد کے پیداواری یونٹ فرنس آئل نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔ یعنی طلب اور رسد برابر ہیں مگر مالی بدانتظامی کے باعث لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ چوبیس فروری کو گیارہ بجے رات پورے ملک کے اکثر علاقوں میں بجلی چلی گئی ۔ حبکو میں بریک ڈائون ہوا۔ نااہل اور نالائق افراد نے گھبرا کر باقی سسٹم بھی بند کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی سسٹم کو بچانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔ یہ احمقانہ دلیل ہے۔ یہ اسی نالائقی اور نااہلی کا تسلسل ہے جو پچھلے کئی سال سے جاری ہے۔ نرگس سیٹھی رخصت ہوئیں اور اُن کی جگہ گریڈ اکیس کے رائے سکندر آگئے ۔ ان کے پاس بھی نرگس سیٹھی کی طرح پانی و بجلی کے سیکرٹری کا اضافی چارج ہے۔ ملک اندھیرے میں ڈوبتا جارہا ہے اور اتنی اہم پوسٹ پر اضافی چارج والے لوگ کام کررہے ہیں۔ نئے سیکرٹری صاحب کے بارے میں شنید ہے کہ افسر کم اور جیالے زیادہ ہیں۔ زرداری صاحب کے پرسنل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ محکمے میں اس وقت ان سے سینئر گریڈ بائیس کے سپیشل سیکرٹری موجود ہیں مگر ان پر ایک جونیئر افسر بٹھا دیا گیا ہے وہ بھی جُزوقتی۔ پورے محکمے میں کوئی ٹیکنیکل شخص موجود نہیں ہے ۔ ایک انجینئر کے نام پر ایسا افسر تعینات ہے جس کے پاس ڈگری تو ہے مگر عملی تجربہ صفر ہے۔ ایسی صورت میں نتیجہ بھی صفر ہی نکلنا چاہیے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں اس سے بہتر نتیجہ نکل بھی کیسے سکتا ہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved