کنور صاحب نے اپنے دورۂ پاکستان میں بقول خود جہاں ہمارے صدر جنرل محمد ضیاء الحق سے مسئلہ کشمیر جیسے اہم موضوع پر گفتگو کی‘ جوش صاحب کو بھی نہیں بھُولے۔ پاکستان میں جوش کو مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کا اعتراف کنور صاحب نے کیا اور کہا ''اگر وہ ملحد نہ ہوتا تو میں جنرل صاحب سے پوچھتا اقبال بڑا ہے یا جوش۔ یہ جیسی بھی تھی کنور صاحب کی رائے تھی۔ ہم تو چُپ رہے‘ بحث کا موقع ہی کیا تھا۔ جگن ناتھ آزاد ہوتے تو مناظرہ بھی ہوتا‘مجادلہ بھی۔ اپنے اپنے فکرونظر کی بات بھی ہوا کرتی ہے اور تعلق خاطر کی بھی‘ کہیں کہیں تعلق خاطر کی زیادہ۔
اس تمام داستان سرائی کے دوران اختر فیروز نچلے نہ بیٹھ سکے۔ سُنا تھا‘ لکھا بھی بہت ہے لکھنے والوں نے۔ شراب ظرف کی کمی بیشی کے لیے ایک کسوٹی کا کام بھی دے جاتی ہے۔ دلّی میں اس کا مشاہدہ خوب خوب ہوا۔ یورپ میں تو خدا جانے کیا کیا کچھ ہے اور وہاں کے انداز اور آداب کیا ہیں۔ یہاں کچھ
احتیاط کو لازم رکھا گیا ہے خصوصاً جام و مینا کی وہ محفلیں بڑی شستہ اور صاف ستھری ہوتی ہیں‘ جہاں صرف شعرا اور اُن کے کلام کی قدردان خواتین بھی جلوہ فرما ہوں۔ سب اپنے آپ میں رہے لیکن وہ اختر فیروز۔ دو پیالے پی کر یہ کریہہ الصورت حیوانِ ناطق سمجھتا ہے‘ دنیا بھر کی عورتیں مجھ پر مر رہی ہیں‘ مٹ رہی ہیں‘ نثار ہو رہی ہیں‘ کائنات زیرِقدم ہے۔ ایسے کبھی کسی کو دیکھا نہ تھا‘ بار بار اُٹھے اور کنور صاحب کے پہلو میں رکھے ہوئے ٹیلی فون کے نمبر گھمانا شروع کر دے۔ کنور صاحب تیور بدل کر رہ جائیں۔ رئیس صاحب میں اُس خبیث الفطرت کو روکنے‘ ٹوکنے کا نہ دم‘ نہ خم‘ میں چُپ‘ بیچارے محمود صاحب نے آنکھیں دکھائیں تو بیٹھ گیا۔
عسکری صاحب نے میری طرف دیکھا۔ میں نے معذرت کی۔ حضرت اپنے ہوش میں نہیں‘ یہ شخص۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے‘ ندامت ہی ندامت‘ مگر رئیس صاحب پر کوئی اثرنہیں ہوا۔ بارے وہ بیٹھ تو گیا‘ خوش و ناخوش۔ ادھر کنور صاحب کا عالم دوسرا تھا۔ وہ پھسکڑا مار کر صوفے سے قالین پر بیٹھ گئے۔ رئیس صاحب اور محمود صاحب کو بھی یہ کہہ کر پہلو میں بٹھایا‘ بھائی میں اپنی نظم بھابھی (بیگم حسن عسکری) کو سنانا چاہتا ہوں۔ پہلی بار تشریف لائی ہیں۔ اختر فیروز میاں ٹھکانے سے بیٹھو۔ کوئی بولے چلا جائے تو مجھے سنانے کا لطف نہیں آتا۔ کنور صاحب نے جوش کی یاد میں خوب جم کر شعر پڑھے‘ لطف آ گیا۔
کلکِ الم طراز ذرا دیکھ بھال کر
یہ سانحہ کا ذکر ہے اتنا خیال کر
سُن تُو بھی ہم نشیں یہ ذرا دل سنبھال کر
کاغذ پہ رکھ رہا ہوں کلیجہ نکال کر
روندا ہوا یہ صحنِ گلستاں ہے ان دنوں
بے برگ و بار دیدہِ گریاں ہے ان دنوں
دامن ہے چاک‘ چاک گریباں ہے ان دنوں
ماتم زدہ یہ روحِ بہاراں ہے ان دنوں
تاریکیوں نے باغ کو گھیرا ہے کیا کریں
سورج ہے سر پہ اور اندھیرا ہے کیا کریں
وہ کج کُلاہِ محفلِ یاراں نہیں رہا
جانِ چمن وہ رُوح بہاراں نہیں رہا
پیرِ مغانِ بادہ گساراں نہیں رہا
وہ شہر یارِ شہرِ نگاراں نہیں رہا
یوں اُٹھ گیا کہ بزم میں اب زندگی نہیں
ہم دل جلا رہے ہیں مگر روشنی نہیں
یارب قبول کر اسے خدمت نصیب کر
یارب ہمارے جوشؔ کو جنت نصیب کر
کنور صاحب کے کیا کہنے۔ بات میں بات نکالتے چلے جاتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے ع
اُس کے تو ہرسُخن میں ہے اے یار چٹکلا
وہ بڑے چٹکلے باز ہیں۔ چٹکلے باز کی تعریف میاں نیاز فتح پوری کی زبانی بیان کر دی جائے تو خوب رہے گا۔ چٹکلے باز ہماری سوسائٹی کا وہ انسان ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک‘ غریبوں سے لے کر امیروں تک ہر عمر و طبقہ کی محفل میں اپنی جگہ پیدا کر لیتا ہے جو کبھی ''بار خاطر‘‘ نہیں بلکہ ہمیشہ ''یار شاطر‘‘ ثابت ہوتا ہے اور جس کی ہستی تکلف و تصنع سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ وہ اختلاف مسلک و مشرب کو زندگی کا تنوع سمجھ کر اس سے دلچسپی لیتا ہے‘ اور اسی لیے وہ اذان کی آواز اور صدائے ناقوس دونوں سے محبت کرتا ہے۔ اس کی زندگی یکسر نغمہ و رقص ہے جس میں سوائے قہقہہ نشاط اور ہمہمۂ زندہ دلی کے کچھ نہیں‘‘۔
اور‘ آخر میں میرے دو پسندیدہ شعر :
مجھے کھیل‘ شاید پلٹ جائے بازی
یہاں سے اُٹھا کر کہیں اور رکھ دے
(حمید شاہین)
کہیں میں دیر سے پہنچوں تو یاد آتا ہے
کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا
(کبیر اطہر)
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اُس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اِس خوشبوئے دل کے منُتشر ہونے سے ڈرتا ہوں