تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-08-2017

سورج گرہن کا ’’اجالا‘‘

امریکا میں کم و بیش ایک ایک صدی کے بعد واقع ہونے والے مکمل سورج گرہن نے پاکستان کے نام کا ایک اور ''سویرا‘‘ کر دیا! امریکا سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی رہی ہے کہ بات گھوم پھر کر ہم تک آ ہی جاتی ہے۔ فرید جاوید مرحوم نے کہا تھا ؎ 
گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے 
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا 
امریکا کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جب بھی کہیں اُس کی خرابیوں کا ''ذکرِ خیر‘‘ چھڑتا ہے یا وہ الجھتا اور پھنستا دکھائی دہے، تیزی سے ہماری طرف آ جاتا ہے اور سارے کا سارا ملبہ ہم پر ڈال کر سُکون کا سانس لیتا ہے۔ 
دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں نے جو خرابیاں پیدا کی ہیں وہ اب رنگ لا رہی ہیں۔ ایک زمانہ ہے کہ حیران و پریشان ہے کہ اِن خرابیوں سے کس طور نمٹنے اور ایسا کیا کرے جس سے بہتری اور فلاح کی راہ ہموار ہو۔ مگر امریکا بہادر کو چنداں پروا نہیں۔ امریکی قیادت کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ امریکی مفادات محفوظ رہیں، خواہ اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے دنیا مزید خرابیوں کی طرف بڑھ جائے۔ 
کئی برس سے امریکا نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کیے جائیں۔ ''ڈور مور‘‘ کی صدا اسلام آباد کے پالیسی میکرز کے کانوں میں مسلسل گونج رہی ہے اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اتنا بہت کچھ کرنے کے بعد بھی ایسا کیا باقی رہتا ہے جو کرنا ہے۔ 
جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں بہت کچھ ہے جو الٹ اور پلٹ کر رہ گیا ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہں آ رہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں سزا صرف امریکیوں کو ملی ہے یا باقی اہل جہاں کو بھی کم از کم چار سال تک ناکردہ گناہوں کی مزید سزا بھگتنی ہے! صدر ٹرمپ نے اب تک کے عہدِ صدارت میں بیان بازی کے محاذ پر اتنی توپیں داغی ہیں کہ لوگ پریشان ہو اٹھے ہیں۔ نہایت نازک اور خطرناک بات بھی وہ یوں کر جاتے ہیں کہ کوئی بات ہی نہ ہو۔ سوشل میڈیا کو بھی وہ ڈٹ کر استعمال کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر اُن کے ریمارکس اور بیانات سے کئی بار ہنگامہ برپا ہوا۔ اُن کے ٹیم کے بہت سے لوگ اُنہیں چھوڑ کر ایک طرف ہو گئے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ امریکی ایوان صدر میں گھس آنے والے شترِ بے مہار کو کس طور زیر دام لایا جائے۔
صدر ٹرمپ نے اب تک کسی بھی معاملے میں خاطر خواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ تمام مروّج طریق ہائے کار سے یکسر انحراف کرتے ہوئے وہ سب کچھ کہنا اور کرنا چاہتے ہیں جو اُن کی نظر میں درست اور برحق ہے۔ مکمل سورج گرہن کے بعد صدر ٹرمپ نے ایسا دبنگ قسم کا پالیسی بیان داغا ہے کہ پاکستان کے خلاف جانے کا امریکی قیادت کا ریکارڈ مزید ''باوثوق‘‘ ہو گیا ہے! 
بہت سوچنے پر بھی پاکستان کے خلاف اچانک دوبارہ پھٹ کرنے کا کوئی ٹھوس، منطقی اور جائز سبب ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ پھر ہماری نظر ایک خبر پر پڑی۔ خبر پڑھی تو دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ بات کچھ یوں ہے کہ سورج گرہن کے موقع پر ماہرین اور متعلقہ امریکی اداروں نے جو ہدایات جاری کی تھیں اُن سے صدر ٹرمپ لاعلم تھے۔ انہوں نے وہائٹ ہاؤس کی بالکنی سے سورج گرہن کا نظارہ کسی بھی قسم کی احتیاطی تدبیر کو اختیار کیے بغیر کیا۔ اہلیہ میلانیا ساتھ تھیں۔ اُنہوں نے جب اپنے شوہر کو حماقت کا ارتکاب کرتے دیکھا تو سٹپٹا گئیں اور انہیں یاد دلایا کہ سورج گرہن کے وقت سورج کو براہ راست نہیں دیکھتے بلکہ مخصوص عینک ''زیبِ چشم‘‘ کی جاتی ہے۔ اہلیہ کا بیان ہے کہ صدر ٹرمپ نے جیب سے عینک نکالی مگر اس کے استعمال سے گریز کیا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ مگر اِس کے بعد میلانیا نے جو کچھ کہا ہے وہ انتہائی حیرت انگیز، عبرتناک اور تشویشناک ہے۔ میلانیا کہتی ہیں کہ صدر ٹرمپ نے سورج کی طرف دیکھ کر چند عجیب و غریب اشارے بھی کیے! 
گرہن لگے ہوئے سورج کی طرف دیکھ کر عجیب و غریب اشارے کرنے والی بات پڑھ کر ہم سمجھ گئے کہ امریکی صدر نے ڈھائی منٹ تک چاند کی اوٹ میں چھپے ہوئے سورج سے کوئی بات کی اور ماحول پر چھائے ہوئے اندھیرے کو اپنے ذہن میں بھرلیا۔ اور اس عمل کا وہی نتیجہ برآمد ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ سورج گرہن ختم ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ ذہن میں بھرے ہوئے اندھیرے کو ٹھکانے لگانے کی کوشش میں جُت گئے اور ایسے میں اُنہیں پاکستان سے اچھی کچرا کنڈی کہاں مل سکتی تھی! پالیسی میکرز کو ساتھ بٹھایا اور دھانسو قسم کا بیانیہ تیار کر ڈالا۔ 
منگل کو جاری کیے جانے والے نئے پالیسی بیان میں امریکی صدر نے پاکستان کو غیر معمولی حد تک دباؤ میں لینے کی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ پاکستان کو صاف صاف دھمکی دی گئی ہے کہ افغانستان میں ساتھ دو ورنہ پچھتاؤ گے، نقصان اٹھاؤ گے۔ دہشت گردوں کے خلاف خاطر خواہ کارروائیاں نہ کیے جانے کا رونا روتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اگر بھرپور ایکشن نہ کیا گیا تو امریکا پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری سے گریز نہیں کرے گا۔ یعنی ایک بار پھر ''ڈو مور‘‘ پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ واضح کردیا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ نئی پارٹنرشپ کے تحت کام کیا جائے گا یعنی خطے میں رونما ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں کی روشنی میں بھارت کا کھل کر ساتھ دیا جائے گا۔ ساتھ ہی بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ چونکہ امریکا کے لیے ایک بڑی منڈی ہے اس لیے صرف فوائد نہ بٹورے بلکہ افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تھوڑی جیب بھی ڈھیلی کرے! 
معاملات اب ذرا مختلف ہیں کہ چین اور روس میدان میں آچکے ہیں۔ ترکی بھی کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب ہے۔ خلیجی ممالک اگرچہ اب تک امریکا کے زیر اثر ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین، روس اور ترکی کو بھی دبوچ لیا جائے گا۔ اِدھر امریکی صدر نے پاکستان کو دھمکیاں دیں اور اُدھر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بروقت ردعمل داغتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے اس لیے اُس پر مزید دباؤ ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ یہ گویا اِس امر کی جانب واضح اشارا تھا کہ امریکا یا کوئی اور طاقت پاکستان پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گی تو چین اور اُس کے ہم نوا مل کر دیوار کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ 
کیا وقت نہیں آ گیا کہ امریکی قیادت ذہنوں میں گھسے ہوئے اندھیرے کو ختم کرے اور تعقل کی روشنی میں ایسے فیصلے کرے جو اُس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بھی مفاد میں اور قابل قبول ہوں؟ عالمی سطح پر پولیس مین اور بدمعاش کا کردار ادا کرتے رہنے میں خرابیاں زیادہ ہیں۔ امریکا جہاںجہاں پھنسا ہوا ہے وہاں ''ڈو مور‘‘ کی صدا لگا رہا ہے مگر ہر جگہ فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ اب معاملات ''نو مور‘‘ کی منزل تک پہنچ گئے ہیں اس لیے بخش دیا جائے! امریکی پالیسیوں کو لگا ہوا گرہن اب ختم ہونا چاہیے اور دانش و حکمت کا اجالا بکھرنا چاہیے۔ کم ہوتی ہوئی طاقت کو بحال رکھنے کے لیے دھمکیاں زیادہ کارگر ثابت نہ ہوں گی۔ یہ معاملہ دانش، حکمت اور معاملہ فہمی چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ جو کھلنڈرا پن دکھا رہے ہیں وہ بالآخر امریکا کو ایسے گڑھے میں دھکیلے گا جہاں وہ ''ڈو مور‘‘ بھول کر صرف ''اوہ نو‘‘ کہنے کے قابل رہ جائے گا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved