غروب کے بعد بھی روشنی برقرار رہتی ہے‘ رفتہ رفتہ ‘ دھیرے دھیرے‘بتدریج ہی معدوم ہوتی ہے۔ سورج مگر فنا نہیں ہو تا۔ اجالا اس کا دائمی ہوتا ہے۔
ارادہ یہ کیا ہے کہ وقفے وقفے سے‘ اصحاب رسولؐ‘ تابعین اور تبع تابعین کی زندگیوں پر لکھا جائے۔ اور ان جلیل القدر ہستیوں پر جو ان کے بعد آئیں۔سرکارؐ کی اطاعت میں اس طرح جیے کہ زندگی کا ہر لمحہ ان کے مطابق بِتانے کی کوشش کی۔
یہ آپؐ کے آخری ایام کی ایک تصویر ہے‘ ادھوری سی تصویر
29 صفر10ہجری پیر کے دن رسول اللہ ؐ ایک جنازے میں تشریف لے گئے۔ واپسی پر دردِ سر شروع ہوگیا۔ حرارت اتنی تیز کہ سر پر بندھی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ آپؐ نے اسی حالتِ مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔
حضرت عائشہؓدعائیں پڑھ کر آپؐ کا ہاتھ آپؐ کے جسم پر پھیرتی رہتی تھیں۔ بعد میں سیدہ نے کہا : اس لیے کہ ان کا ہاتھ زیادہ برکت والا تھا۔
بدھ کو حرارت میں شدّت آگئی اور غَشی طاری ہوگئی۔ فرمایا : '' مجھ پر مختلف کنوئوں کے سات مشکیزے بہائو‘‘۔ منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ فرمایا: '' یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا ‘‘
پھر آپؐ نے اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش کیا اور فرمایا : '' میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو میری پیٹھ حاضر ہے ‘ وہ بدلہ لے لے‘ ‘ ۔ظہر کی نماز پڑھائی ‘ اور پھر منبر پر تشریف لے گئے ۔ ایک شخص نے کہا ، آپؐ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں ۔ آپ ؐ نے فضل بن عباس ؓ سے فرمایا '' انہیں ادا کردو‘‘۔ اس کے بعد فرمایا:'' میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہّ داری پوری کر دی مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے۔ لوگ بڑھتے جائیں گے ‘ اور انصار گھٹتے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہو جائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکو کاروں سے قبول کرے ا ور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرے ۔ ‘‘
فرمایا : '' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اُسے دے دے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کر لے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کر لیا ۔ ‘‘ یہ بات سُن کر ابوبکر ؓ رونے لگے اور فرمایا : '' ہم اپنے ماں باپ سمیت آپؐ پر قربان‘‘۔
فرمایا : '' مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکرؓ ہیں ‘ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو خلیل بناتا۔ لیکن ‘ ان کے ساتھ اسلام کی اخوت و محبت ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے سوائے ابو بکر ؓ کے دروازے کے ۔ ‘‘
وفات سے چار دن پہلے آپؐ نے وصیّت فرمائی :یہود و نصاریٰ اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے۔ وفود کی اسی طرح نوازش کی جائے جس طرح آپؐ کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ مرض کی شدّت کے باوجُود جمعرات تک ،تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپؐ ہی نے پڑھائی۔
عشاء کے وقت مرض اتنا بڑھ گیا کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے : آپ ؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : '' نہیں یا رسولؐ اللہ ‘ سب آپ ؐ کا انتظار کررہے ہیں ۔ ‘‘ آپؐ نے فرمایا ‘ میرے لیے لگن میں پانی رکھو۔ ایسا ہی کیا گیا۔ آپؐ نے غسل فرمایا اور اس کے بعد اٹھنا چاہا ‘ لیکن آپؐ پر غشی طاری ہوگئی۔ پھر افاقہ ہُوا تو آپؐ نے دریافت کیا ، کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ عرض کیا گیا : '' نہیں یا رسول ؐ اللہ، سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ ‘‘ اس کے بعد دوبارہ اور پھر سہ بارہ وہی بات پیش آئی جو پہلی بار پیش آ چکی تھی۔ بالآخر آپؐ نے سیدنا ابو بکرؓ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
ہفتہ یا اتوار کو آپؐ نے قدرے بہتری محسوس کی ، چنانچہ دو آدمیوں کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت سیدناابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ ؐ کو دیکھ کر وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ آپؐ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور لانے والوں سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔
وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار آنجناب ؐ نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرما دیا۔ گھر میں سات دینار تھے ، وہ صدقہ کر دیئے۔ اپنے ہتھیار ہبہ فرما دیئے۔ رات میں چراغ جلانے کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تیل پڑوسن سے ادھار لیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پیر کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں پردہ ہٹایا اور صحابہؓ کرام پر ،جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے ،نظر ڈالی ‘ پھر تبّسم فرمایا ۔
دن چڑھے چاشت کے وقت آپؐ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ کو بلایا اور ان سے کچھ سرگوشی کی۔ وہ رونے لگیں۔ آپؐ نے انہیں پھر بلایا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے ‘ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا:پہلی بار آپ ؐ نے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ اسی مرض میں وفات پا جائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپ ؐ نے بتایا کہ آپ ؐ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے وہ آپ ؐ سے جا ملیں گی۔اس پر میں خوش ہوئی۔
سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ؓ ساری خواتین عالم کی سردار ہیں۔ اس وقت رسول اللہ ؐ جس کرب سے دو چار تھے ‘ اسے دیکھ کر حضرت فاطمہ ؓ بے ساختہ پکار اُٹھیں۔ وَاکَربَ اَبَاہ‘! '' ہائے میرے ابّا کی تکلیف ‘‘ آپؐ نے فرمایا : '' تمہارے باپ پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔ ‘‘
آپؐ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چُوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی۔ ازواجِؓ مطہرات کو بلایا اور انہیں وعظ و نصیحت کی۔تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا ٗ جو آپؐ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا ‘ چنانچہ آپؐ حضرت عائشہ ؓسے فرماتے تھے '' اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میَں نے کھا لیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس زہر کے اثر سے میری رگ ِجاں کٹی جارہی ہے ۔ ‘‘پھرآپؐ نے صحابہؓ کرام کو وصیت فرمائی۔ فرمایا '' اَلصَّلاۃَ اَلصَّلاَۃَ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ‘‘
'' نماز ، نماز، اور تمہارے زیردست ، یعنی لونڈی، غلام ‘‘آپؐ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے ۔
پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ؐ کی اپنے اوپر ٹیک لگوا دی ۔
عبد الرحمنؓ بن ابی بکر ؓ آپ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول اللہ ؐ سیدہ عائشہؓ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپؐ مسواک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سیدہؓ نے پوچھا: آپؐ کے لئے لے لوں؟ آپ ؐ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔ مسواک لے کر آپؐ کو دی گئی آپؐ کو کڑی محسوس ہوئی۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے کہا: آپؐ کے لئے نرم کر دوں؟ آپؐ نے سر کے اشارے سے کہا ‘ ہاں ۔
مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپؐ نے ہاتھ یا انگلی اُٹھائی ، نگاہ چھت کی طرف بلند کی اور دونوں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان لگایا تو آپؐ فرما رہے تھے ۔ '' ان انبیاء ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تُو نے انعام سے نوازا۔ اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے۔ اے اللہ ! رفیق اعلیٰ ۔ ‘‘ آخری فقرہ تین بار دہرایا ، اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا اور آپؐ رفیقِ اعلیٰ سے جالا حق ہوئے۔
باقی صفحہ 13 پر
خبر فوراً پھیل گئی۔ اہل مدینہ پر کوہِ غم ٹوٹ پڑا۔ آفاق و اطراف تاریک ہوگئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہ ؐ ، ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھااور جس دن رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
آپ ؐ کی وفات پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرطِ غم سے فرمایا :یَااَبَتَاہُ اَجَابَ رَبًّا دَعَاہُ، یَااَبَتَاہُ مَنْ جَنَّۃُ الْفِرْدَوْسِ مَاوَاہُ ، یَااَبَتَاہُ اِلیٰ جِبْرِیْل نَنْعَاہْ۔
'' ہائے ابّا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیّک کہا۔ ہائے ابّا جان ! جن کا ٹھکانہ جنّت الفردوس ہے۔ ہائے ابّا جان ! ہم جبریل ؑ کو آپؐ کی موت کی خبر دیتے ہیں۔ ‘‘
غروب کے بعد بھی روشنی برقرار رہتی ہے‘ رفتہ رفتہ ‘ دھیرے دھیرے‘بتدریج ہی معدوم ہوتی ہے۔ سورج مگر فنا نہیں ہو تا۔ اجالا اس کا دائمی ہوتا ہے۔