تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-08-2017

ابہام

امریکہ تو ابہام سے نکل آیا۔ کیا ہم بھی اس کے لیے آمادہ ہیں؟
شنید یہ تھی کہ جون میں امریکی قیادت حتمی فیصلہ کرے گی کہ اسے اب افغانستان میں کیا کرنا ہے؟ غوروفکر کا سلسلہ طویل ہوتا گیا اور اب اگست میں امریکہ نے اپنا ارادہ لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کر دیا۔ جو کہا گیا اور جو کچھ ہم نے سنا، اس میں کچھ ایسا نہیں جو ہماری سماعتوں کے لیے نیا یا خلافِ توقع ہو۔ دو باتیں پوری طرح واضح ہیں۔ ایک یہ کہ جنوبی ایشیا میں اب پاکستان کسی طرح امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ امریکہ کے لیے افغانستان اور پاکستان جڑواں بچے ہیں۔ پاکستان مسئلے کا حل نہیں، اس کا حصہ ہے۔ حل کے لیے بھارت اس کا تزویراتی ساتھی ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ توقع کے برخلاف، سابقہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے، مزید وقت افغانستان میں گزارے گا۔ موجودہ قیادت کا یہ خیال ہے کہ غیر یقینی حالت میں افغانستان سے جانا ایک خلا کو جنم دے گا جسے غیر ریاستی عناصر پر کریں گے۔ یوں یہ خطہ بدامنی کا ہدف بنا رہے گا۔
جواب میں امریکہ کو کوسا جا سکتا ہے۔ اسے الزام دیا جا سکتا ہے۔ اسے ساری صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اگر درست ہو تو بھی سوال یہ ہے کہ اس کا ہمیں کیا فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے پاکستان مضبوط ہو گا؟ کیا ہمارے سر پر منڈلانے والے خطرات ٹل جائیں گے؟ کیا ہم اس دلدل سے نکل آئیں گے، 1979ء سے جس میں دھنسے ہوئے ہیں؟ اگر میرے نزدیک اس بات کا جواب اثبات میں ہوتا تو میں اس کی مذمت میں سب سے بلند آہنگ ہوتا۔ میرا خیال مگر اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے کچھ بنیادی فیصلے کر لیے ہیں۔ ہمیں بھی اب اسی نوعیت کے کچھ فیصلے کرنا ہوں گے۔
کوئی لائحہ عمل طے کرتے وقت ہمیں، چند مزید باتیں پیش نظر رکھنی ہوں گی جن کا تعلق آج کے حقائق سے ہے۔ ایک یہ کہ افغانستان کی داخلی فضا ہمارے لیے سازگار نہیں۔ وہاں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر گروہ ایسا ہو جو پاکستان کے حق میں ہو۔ ہمیں توقعات تھیں کہ گلبدین حکمت یار جب سیاسی انتظام کا حصہ بنیں گے تو وہاں کی سیاسی انتظامیہ کا لہجہ تبدیل ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہو سکا بلکہ اس کے برخلاف گلبدین حکمت یار بھی ہماری حمایت میں اب گرم جوش نہیں رہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ریاستی انتظام کا حصہ بننے کے بعد ان کے علم میں آنے والی نئی باتوں نے انہیں نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس لیے یہ خوش گمانی بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے کہ گل بدین کی آمد کسی تبدیلی کا باعث ہو گی۔
خطے کے عمومی حالات بھی ہمارے لیے سازگار نہیں۔ ہمیں ارد گرد دوست تلاش کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ چین کی دوستی اپنی جگہ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سی پیک One road one belt, منصوبے کا حصہ ہے۔ چین کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ وہ اگر اپنے مفاد میں سوچے تو بھی پاکستان سے دور نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اور بھارت کے قرب کے بعد تو اس کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان ہی اس کے کام آ سکتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقتصادی و تزویراتی کمزوری کے باعث اپنی اس حیثیت کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ اسے بھی انعام سمجھتا اور شکر بجا لاتا ہے۔ 
اس پس منظر میں پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکا کہ وہ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی طرح ایک حتمی پالیسی کا اعلان کرے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ قومی سطح پر ڈائیلاگ ہو اور ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایک وزیرِ خارجہ بھی موجود ہے۔ پہلے مرحلے میں وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ وہ اراکینِ پارلیمنٹ کو اس مسئلے پر بریفنگ دے۔ اس کے ساتھ سیاسیات اور خارجہ امور کے ماہرین کے ساتھ بھی ان اراکین کی نشستوں کا اہتمام ہو۔ دوسرے مرحلے میں حکومت ایک پالیسی ڈرافٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے اور اس پر آزادانہ بحث ہو۔ حکومت کے پاس یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔
میرے نزدیک اس پالیسی میں چند امور طے کرنا لازم ہیں:
1۔ پاکستان، افغانستان کے اندرونی معاملات سے خود کو الگ کرے۔ افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو غیر متعلق کرتے ہوئے اس الزام کو پوری طرح دھو دینا چاہیے کہ پاکستان وہاں مداخلت کر رہا ہے۔ اس عمل کے ساتھ امریکہ کو یہ پیغام بھی دیا جائے کہ پاکستان کو بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار بھی منظور نہیں ہے۔ باہمی مفادات کے تحت افغانستان بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنے میں آزاد ہے لیکن اگر امریکہ اسے اس خطے میں کوئی کردار سونپے گا تو یہ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔
2۔ اس مرحلے پر پاکستان کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ امریکہ کو اس پر آمادہ کر سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ افغان حکومت بھی ہے جو ان دنوں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے قریب تر ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو سعودی عرب جیسے دوستوں کی مدد کی ضرورت ہو گی جو امریکہ تک پاکستان کی تشویش کا بہتر ابلاغ کر سکیں۔ میرا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف اس ضمن میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب اللہ کرے کہ کسی مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ہو۔
3۔ ایک متبادل حکمتِ عملی کے طور پر پاکستان کو چین اور روس کے اشتراک سے ایک علاقائی اتحاد بنانا چاہیے۔ اس میں ایران کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان کی اس پیش رفت پر مثبت ردِ عمل کا اظہار نہیں کرتا تو پاکستان کے پاس ایک متبادل راستہ ہو جو امریکہ پر دباؤ ڈال سکے۔
4۔ صدر ٹرمپ کی پالیسی کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ امریکہ اس بار خلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ 1989ء میں امریکہ نے بھیانک غلطی یہ کی کہ کوئی قابلِ عمل نظام دیے بغیر افغانستان سے نکل گیا جس نے بدترین خانہ جنگی کا راستہ کھولا۔ تاہم اسے امریکہ کے مستقل قیام کے لیے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکہ اور سب کا بھلا اسی میں ہے کہ افغان اپنے لیے کسی بہتر حل پر متفق ہو جائیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کرے۔
واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں بھارت نے اپنے دوستوں اور ہم نے اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب سے بیک وقت تعلقات میں اضافہ کیا ہے۔ عرب امارات اور اسر ائیل کے ساتھ بھی اپنے مراسم کو کہیں بہتر بنایا ہے۔ اس کے برخلاف پاکستان نے پرانے دوستوں کو ناراض کیا۔ اس سے ایران خوش ہے نہ سعودی عرب۔ عرب ناراض ہیں اور اسرائیل تو ہے ہی اس کا دشمن۔ کسی ملک کے لیے یہ حالات کی کوئی خوش گوار تصویر نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم بھی اپنی حکمتِ عملی پر از سرِ نو غور کریں۔ اگر امریکی حکومت اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ تاہم اس کے لیے دو باتیں ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ ہم افغانستان میں عدم مداخلت کو یقینی بنائیں اور دوسرا یہ کہ خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لائیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر ہمیں صدر ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ محض کوسنے سے پہلے کچھ حاصل ہوا ہے نہ اب ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved