ڈاکٹر علی حیدر سے میراتعلق قریبی تو نہیں تھا، یعنی یہ کہ ملاقاتوں پہ ملاقاتیں نہیں ہوتی تھیں ،لیکن ایک قلبی تعلق ضرور تھا۔ ان کے دادا سید محمد شاہ پاک پتن کے ممتاز وکیل تھے، سرکلر روڈ پر عالی شان کوٹھی کے مالک۔ میں اپنے گھر سے منڈی یا منڈی سے اپنے گھر کی طرف جاتا، تو کئی بار وہ دالان یا لان میں بیٹھے نظر آتے۔ گورے چٹے ،بارعب ، عینک لگائے اخبار پڑھ رہے ہوتے یا کتاب۔ میں گورنمنٹ ہائی سکول پاک پتن کا طالب علم تھا، جو میٹرک کا ہو، تو بھی طفلِ مکتب ہوتا ہے۔ ان سے ملنے اور تبادلۂ خیال کرنے کا موقع کیسے ملتا، بہت ہوا ہوگا تو یہی کہ کبھی ان کو سلام کرلیا ، یا ہاتھ ملا لیا ۔ محرّم کا جلوس پاک پتن میں بڑے اہتمام سے نکلا کرتا تھا، اور اُس میں بہت سے لوگ شریک ہوتے تھے۔ کوئی چُھریوں سے ماتم کرنے، کوئی سینہ کوبی کرنے، کوئی سبیلیں لگانے کے لیے، کوئی ذوالجناح سے عقیدت کا اظہار کرنے اور کوئی محض دیکھنے یا حیران ہونے کے لیے ۔ سید محمد شاہ بھی اس جلوس میں نظر آجاتے۔ ان کا ہاتھ آہستگی سے سینے کو چھوتا اور پھر واپس پلٹ جاتا۔ میرے والد صاحبزادہ فیض الرحمن ایس ڈی ایم (سب ڈویژنل مجسٹریٹ) کے ریڈر تھے اور تحصیل پاک پتن میں (ان دنوں ) سب سے بڑی عدالت ایس ڈی ایم ہی کی ہوتی تھی۔ والد صاحب دُبلے پتلے تھے روزانہ کئی میل پیدل چلنے اور ایک وقت کھانا کھانے والے ۔ رنگ سرخی مائل سفید تھا، اور اُن کے چہرے پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ محمد شاہ رنگ روپ میں والد کے مشابہ تھے، اسی لیے میں جب بھی ان کے گھر کے سامنے سے گزرتا، انہیں بہت توجہ سے دیکھتا۔ شاہ صاحب کے دو بیٹے معروف اور ممتاز ہوئے، ڈاکٹر ظفر حیدر، اور سید افضل حیدر۔ دونوں پر اب بڑھاپے نے بوجھ ڈال رکھا ہے، دونوں ہی گلبرگ لاہور میں رہتے ہیں، ظفر حیدر حالی روڈ پر ، اور افضل حیدر ان سے کچھ فاصلے پر۔ ظفر حیدر ڈاکٹر کیا، ڈاکٹروں کے ڈاکٹر بنے ، برسوں میڈیکل کالج میں پڑھاتے رہے، ہسپتال کو بھی روشن رکھا۔ ان کے سینکڑوں کیا ہزاروں شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد، دنیا بھر میں شفاتقسیم کررہے ہیں۔ نشتر کالج ملتان کے پرنسپل رہے، پریکٹس بھی کی۔ لیکن پیسہ کمانا مقصد نہیں بنایا۔ اپنے فن کو خدمت کا ذریعہ سمجھا، اور خدمت بجالاتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم جب اپنی ایک تقریر میں ڈاکٹروں پر برسے اور کہا کہ وہ رات کو بوریاں بھر بھر کر پیسے گھر لے جاتے ہیں تو ڈاکٹر ظفر حیدر کا مضبوط لہجہ ان کے گریبان تک پہنچا اور چیلنج کے انداز میں گویا ہوا کہ میرا گھر جاکر دیکھ لیجیے اور پرانے ماڈل کی کار بھی ملاحظہ کرلیجیے ۔ (اور پھر گویا اپنے اردگرد بھی دیکھ لیجیے) سید افضل حیدر کو لاہور کیا پورا پاکستان پہچانتا ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے۔ ایک نگران دور میں قانون کے مرکزی وزیر بنے، پھروفاقی شرعی عدالت کے جج مقررہوئے، بڑے معرکے کے فیصلے لکھے اور اب اپنی لائبربری میں صبح کو شام کررہے ہیں… ڈاکٹر ظفر حیدر اور سید افضل حیدر کو اہلِ سُنت نے ہمیشہ اپنا سمجھا اور شیعہ حضرات نے اپنا جانا۔ اہلِ سُنت کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑے ہوں تو ہاتھ بندھ جائیں، اہل بیت کا ذکر ہوتو آنکھیں خشک نہ رہ سکیں۔ علی حیدر بھی ایسے ہی تھے، تعصب اور فرقہ واریت سے کوسوں دور، غریبوں اور بے سہاروں پر خصوصی توجہ دینے والے۔ بین الاقوامی شہرت کے سرجن ۔بلامبالغہ ہزاروں کو بینائی دی ہوگی اور سینکڑوں معالج تیار کیے ہوں گے… ایک چراغ تھا کہ جس سے آنکھوں کے چراغ روشن ہوتے جارہے تھے۔ ایک زمانے میں ڈاکٹروں کی مستقل تقرریاں بند کردی گئی تھیں، انہیںکنٹریکٹ پر لیا جاتا۔ علی حیدر لاہور کے جنرل ہسپتال میں کنٹریکٹ پر ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر تھے، ان ڈاکٹروں کو مستقل کرنے پر پنجاب حکومت سے الجھائو چل رہا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی کا دور تھا، میں ان ڈاکٹر صاحبان کا وکیل بنا ہوا تھا، ان دنوں علی حیدر سے ملاقات رہی… یہ مسئلہ خدا خدا کرکے حل ہوا اور اب تو وہ ماشاء اللہ پورے پروفیسر تھے… ان کے ساتھیوں، دوستوں اور مریضوں سے ان کا تذکرہ جب بھی سنا، ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی… عزیزم نجیب اللہ نیازی کی آنکھ کو شدید خطرہ لاحق ہوا تو برادرم حفیظ اللہ نیازی نے ہانپتے کانپتے، گھبراتے گھبراتے بات کی، ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ان کے ریٹینا کا آپریشن صرف ڈاکٹر علی حیدر کرسکتے ہیں، پاکستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ کا ان سے کوئی رابطہ ہے؟ میں نے علی کو فون کیا اور انہوں نے فوراً وقت دے دیا۔ بڑی توجہ اور محنت سے بینائی آنکھ میں واپس ڈال دی۔ ان کے جنازے پر ڈاکٹر ظفر حیدر گریہ کناں تھے، ان نوجوانوں کا کیا ہوگا جنہیں علی حیدر سے سیکھنا تھا اور ان بیماروں کا کیا ہوگا، جن کی بینائی مرحوم کے نشتر میں تھی؟… اہلِ ثروت تو بیرون ملک چلے جاتے ہیں، چلے جائیں گے، پاکستانی بے چاروں کا کیا بنے گا؟… ہزاروں آنکھیں اشکبار تھیں، آنکھیں جو سُنّی ہوتی ہیں نہ شیعہ، جن کے آنسو مسلکوں میں تقسیم نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر نائلہ نے بتایا کہ علی کی والدہ (جو خود اناٹومی کی پروفیسر تھیں) اپنے بیٹے کی سلامتی کے لئے اکثر روزے رکھتیں اور جس دن ان پر گولیاں برسائی گئیں، اس دن بھی وہ روزے سے تھیں… ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے 11، 12 سالہ بیٹے مرتضیٰ حیدر کو دن دہاڑے نشانہ بنا ڈالا گیا… ان کی کسی سے دشمنی تھی نہ جھگڑا… ان کے ہاں تو اُونچی آواز سے بولنا بھی جرم تھا، وہ توعاجزی کی تصویر تھے، غریبوں کے سامنے بچھ جانے والے، بے سہاروں کا سہارا بن جانے والے۔ اغلب امکان کیا، یقین ہے کہ وہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے… ملک بھر میں یہ جنون بہت سوں کی جانیں لے رہا ہے۔ بلوچستان کے ہزارہ قبیلے پر ڈھائے جانے والے مظالم تو ہم سب کو مسلسل شرمندہ کر رہے ہیں۔لاہور میں بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران یکے بعد دیگرے پروفیسر شبیہ الحسن اور شاکر رضوی (ایڈووکیٹ) جیسے بھلے مانس نشانہ بنائے جا چکے۔ لیکن کسی … قاتل تک ہنوزقانون کا ہاتھ نہیں پہنچا۔ ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے معصوم بیٹے کا خون بھی اب حساب طلب کر رہا ہے۔ مرتضیٰ حیدر کلاس میں اوّل آیا تھا، اسے انعام ملنے والا تھا، باپ بیٹا دونوں اس خوشی میں سرشار چلے جا رہے تھے کہ ان سے زندگی چھین لی گئی ۔ بیٹے کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی ’’انعام‘‘ مل گیا۔ شہادت کا ’’انعام‘‘۔شہید کو موت نہیں آتی، اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی والدہ کا روزہ رائیگاں نہیں گیا۔ لیکن جن کے ہاتھ میں اختیار ہے، وہ یہ جان لیں کہ شہادت انعام تو ہے لیکن یہ انعام اپنا انتقام لے کر رہتا ہے۔ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved