تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-08-2017

چلے بھی ’’جاؤ‘‘ کہ ’’منڈی‘‘ کا کاروبار چلے!

بے توقیری اور کم مائیگی کا احساس ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جی نہیں، ہم امریکی صدر کی دھمکیوں کے اثرات کی بات نہیں کر رہے۔ اِن دھمکیوں سے اب کیا ڈرنا؟ بجھتے ہوئے چراغ چند لمحات کے لیے ٹمٹمانا بھول کر لوگوں کو دھوکا دینے اور مغالطے میں ڈالنے کے لیے اچانک بھڑک اٹھتے ہیں! امریکی پالیسی میکرز بھی کچھ ایسی ہی حرکات کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مگر خیر، واحد اور بچی کھچی سپر پاور کا رونا پیٹنا پھر کبھی سہی، اِس وقت تو ہم امریکی دھمکیوں سے بھی چند قدم آگے کی پریشانی یا بحرانی کیفیت کی بات کر رہے ہیں۔ 
کراچی کے باہر ہر سال عیدالاضحی کے حوالے سے مویشی منڈی کے نام پر میلہ لگایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اِس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی منڈی شہر سے باہر لگائی جاتی ہے کیونکہ شہر کی حدود میں ایسی منڈیاں لگانے سے قربانی کے دو اور چار ٹانگوں والے جانوروں میں فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے!
مویشی منڈی شہریوں کیلئے ایک مفت کا تماشا بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان بارہ پندرہ دنوں میں شہر کے تھیٹرز کوئی بھی کامیڈی پلے پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں! شہر کے مضافات میں لگائی جانیوالی منڈی میں تماشا دکھانے کیلئے جانور بھی موجود ہوتے ہیں مگر اصل تماشے کا اہتمام تو انسان کرتے ہیں۔ ایک طرف جانوروں کے سوداگر اور دوسری طرف خریدار۔ اور بیچ میں ''باچارے‘‘ جانور! سنت کبیر کہہ گئے ہیں ؎ 
چلتی چکّی دیکھ کے دیا کبیرا روئے 
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے 
اور سچ تو یہ ہے کہ منڈی میں جو ماحول پایا جاتا ہے اُسے نہارتے ہوئے قربانی کے جانور من ہی من میرزا نوشہ کا مقطع گنگناتے رہتے ہیں ؎ 
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ 
تماشائِ اہلِ کرم دیکھتے ہیں! 
بیوپاریوں اور خریداروں کے درمیان معاملات جس طور طے پاتے ہیں وہ کسی تماشے سے کم نہیں اور یہ تماشا سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی دل بستگی کا سامان کرتا ہے! بات سلام دعا سے شروع ہوتی ہے اور پھر چھلانگیں لگاتی ہوئی ''مذاکرات‘‘ اور سودے بازی تک جا پہنچتی ہے۔ منڈی میں قربانی کے جانور کی قیمت پر اپنی اپنی بات منوانے کے لیے ہر فریق کا رویّہ کچھ اس نوعیت کا ہوتا ہے جیسے فریقِ ثانی کی بات ماننے کی صورت میں زندگی بھر شرمسار رہنا پڑے گا! خاصی دیر تک کوئی بھی انا کے خول سے باہر آنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ منحنی سے بیل اور مریل سی گائے کا سودا بھی اِس طرح طے پا رہا ہوتا ہے جیسے زمین کا کوئی بڑا متنازع ٹکڑا یا جزیرہ کسی ملک کی ملکیت میں دیا جا رہا ہو! 
مویشی منڈی میں قدم رکھنے والا ہر شخص قربانی کے ہر جانور کو ایٹمی ہتھیار اور خود کو ایٹمی ماہر سمجھ رہا ہوتا ہے! اور منڈی میں دکھائی جانے والی صلاحیتوں کی تیاری بہت پہلے سے شروع کر دی جاتی ہے۔ عیدالاضحی سے ایک ماہ قبل ہی لوگ قربانی کے جانور کی خریداری کے حوالے سے اپنی صلاحیت اور اہلیت کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو قربانی کا جانور خریدنا ہو تو احتیاطاً اُنہیں بھی ساتھ لے جائے۔ اس میںکئی فائدے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ بیٹھے بٹھائے دھاک بیٹھ جاتی ہے کہ صاحب کو انسان پرکھنے کا شعور ہو یا نہ ہو، قربانی کا جانور دیکھنا ضرور آتا ہے! اب یہ اور بات ہے کہ جب یہ قربانی کے جانور پرکھ رہے ہوتے ہیں، ان میں خوبیاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں تب جانور زبانِ بے زبانی سے کہہ رہے ہوتے ہیں ارے کم بخت! پہلے اپنی خرابیاں اور خامیاں تو دور کر لے! ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو! 
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مفت میں سیر سپاٹے کے علاوہ چائے پانی کا انتظام بھی ہو جاتا ہے۔ جو اِنہیں منڈی لے جاتا ہے وہ کھلاتا پلاتا بھی تو ہے تاکہ بھرے پیٹ اور تگڑے ذہن کے ساتھ تگڑا جانور خریدنے میں مدد دیں! ویسے بھی گھر میں بیٹھے بیٹھے اِنہیں اہلِ خانہ کا دماغ ہی تو چاٹنا ہوتا ہے۔ اچھا ہے منڈی میں گھوم پھر کر مویشیوں کے بیوپاریوں کے ساتھ حُجّت بازی کرکے اُنہیں احساس دلایا جائے کہ اللہ کا عذاب کس کس شکل میں وارد ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے! 
مویشی منڈی میں خریداری کے لیے جانے والوں میں کسی کا سفر صفر سے شروع نہیں ہوتا۔ ٹاپ ٹین تک تو اپنا ہی وجود پایا جاتا ہے۔ فریقِ ثانی گیارہویں سے شروع ہوتا ہے! حد یہ ہے کہ جس نے دس پندرہ برس میں کبھی ایک بار بھی کسی گائے کو چُھوا نہ ہو وہ بھی منڈی میں جانوروں کو اِس طور پرکھتا ہے گویا مویشی خریدنا اور بیچنا ہی سات پُشتوں سے اُس کے خاندان کا پیشہ رہا ہو! 
ہم بھی دوستوں کے اصرار پر تین سال قبل مویشی منڈی گئے تھے۔ معاملہ بکرے کی خریداری کا تھا۔ کسی نے افواہ اڑا دی تھی کہ ہم جانوروںکی پرکھ رکھتے ہیں۔ آپ سے کیا پردہ۔ ابھی تک ہم اپنے آپ کو ڈھنگ سے شناخت نہیں کر پائے، قربانی کے بکروں کو کیا خاک سمجھیں گے! منڈی میں ہمارے لیے شرمندگی کا سامان تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ ہم نے جس بکرے پر بھی خریدارانہ نظر ڈالی اُس نے منہ کھولے بغیر کہا ''میاں! تم ہمیں خریدنے کیوں چلے آئے؟ گھریلو زندگی کی خیر و برکت سے تم تو خود قربانی کے بکرے ہو! اور ہمارا تو خیر ذبیحہ ہوتا ہے، تمارا تو بات بے بات جھٹکا ہوتا رہتا ہے!‘‘ 
مویشی منڈی میں دانش و حکمت سے کام لینا شرطِ اوّل ہے۔ شعور اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چُھوٹا نہیں اور سمجھیے پتنگ کنّوں سے کٹ گئی۔ جس نے چمک دمک پر دھیان دیا وہ گیا کام سے۔ قربانی کے جانور کو سجا، سنوار کر سامنے لایا جاتا ہے تاکہ خریدار کی آنکھیں جلووں کی فراوانی سے خیرہ ہو جائیں! بس، یہی خریدار کی اصل آزمائش ہے۔ علامہ اقبالؔ کہہ گئے ہیں ؎ 
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی 
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی 
اگر آپ قربانی کے جانور کی ٹپ ٹاپ میں گم ہوئے تو سمجھ لیجیے دلدل میں اتر گئے یا اتار دیئے گئے! چُونا لگتے دیر نہیں لگے گی اور گھر آ کر معلوم ہو گا کہ جو ''تگڑا‘‘ بکرا خریدا ہے اُس کا سارا تگڑا پن بیسن کا پانی پیتے رہنے کا نتیجہ ہے! یعنی منڈی سے تو بکرے کی رسّی تھامے باہر آئے مگر درحقیقت گئی بھینس پانی میں! 
قربانی کا جانور خریدنے کے معاملے میں شعور کا استعمال بروقت کرنا ہوتا ہے۔ اِس کے لیے اللہ سے توفیق عطا کیے جانے کی دعا بھی کی جانی چاہیے۔ شان الحق حقّیؔ مرحوم نے خوب کہا ہے ؎ 
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل 
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے! 
بڑی بڑی باتیں کرنے کے بعد منڈی کا رخ کرنے والوں کو ہم نے واپسی پر خطیر رقم کے عوض ایسی گائے لاتے دیکھا ہے کہ لوگ زیرِ لب یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ بالآخر گدھے نے گائے خرید ہی لی!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved