تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     28-08-2017

وکیلو…مجھے بچا لو

نا اہل وزیرِاعظم کا رونا دھونا وکالت کی زبان میں مظلومی ایکٹ کہلاتا ہے۔
عدالتوں میں بڑے بڑے وارداتیے اور مُسٹنڈے کمر ٹیڑھی کر کے لا ٹھی پکڑ کر مظلومیت کی ایکٹنگ کرتے ہیںتا کہ سزا میں رعائت ہتھیائی جا سکے۔اس ملک کے بڑے بڑے طرّم خان جو چھاتی پر ہاتھ مار کر جلسوں اور سرکاری ٹی وی پر شیر بنتے ہیں ۔ وکیل کے در پر پہنچتے ہی بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں میرے لاء آفس کے پرانے ریکارڈ کھنگالے گئے تو اس میں سے مظلومی ایکٹ لگانے والے ایسے ہی ایک کھرب پتی کا جیل سے لکھا خط برآمد ہوا۔ نام اس لیے نہیں لے سکتا کہ وکیل رازو ں کا محافظ ہے ۔ لیکن نااہل کنونشن کے مظلومی ایکٹ والے مزاحیہ ادا کار کی واحد اہلیت خط سے ملتی، جُلتی ہے۔ اس لیے اس کا غیر پیشہ ورا نہ حصہ پیشِ خدمت ہے۔ 
'' پیارے بھا ئی اور میرے عظیم محسن جناب بابر صاحب ۔ 
آپ میرے بُرے مالی حالات سے واقف ہیں ۔ جیل سے آوں گا تو پائی پائی کا حساب چُکا دوں گا۔ فی الحال آپ کی بھابھی صاحبہ بہن سے ملنے کے لیے حاضر ہو رہی ہیں ۔ مبلغ ... پیشِ خدمت ہیں۔اُمید ہے آپ دِل بڑا کر کے میری قانونی جنگ لڑتے رہیں گے۔میں اور میرا خاندان ساری زندگی آپ کا احسان یاد رکھیں گے۔
آپ کا غریب بھائی۔
از حفاظتی چکی نمبر 3 ...جیل‘‘
سا تھ ہی مجھے مشرف دور کی سسلین مافیا کا'' سیاسی کزن جج ‘‘بچائو سپانسرڈ تحریک یاد آگئی۔جس کے دوران سپریم کورٹ میں اصلی تے وڈے خالص سرکاری وکیل مشرف کے حق میںتحریک چلانے پہنچے تھے۔ہوئی تو زیادتی ۔مگر اِن جینوئن وکیلوں کا پردہ چاک ہو گیا۔ پتہ چلا کہ سپیشل برانچ کے با حجامت اہلکار ،کا لا کوٹ پہن کرویسے ہی سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھے۔ جس سٹائل میں نا اہل وزیرِاعظم میمو گیٹ کیس میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ کو وکالت کی سیاسی ادا کاری سے مُتاثر کرنے جا پہنچا تھا۔ہوا بہت غلط ،لیکن ان کا رِ خاص والوں کے وکالتی کپڑے پھاڑ کر وکیلوں نے اندر سے سرکاری اہلکار'' بر آمد ‘‘کر لیے۔
نا اہل وزیرِاعظم نے سرکاری خرچے پر ایوانِ اقبال میں وکیلو...''مجھے بچا لو‘‘ کنونشن بلایا۔جس میں کتنے وکیل شریک ہوئے یہ تو آپ کا رِ خاص والوں سے پوچھیں ۔لیکن وُکلاء کی حاضری کا ہلکا سا اندازہ وکالت نامہ بھی پیش کرتا ہے۔آئیے بسم اللہ کریں۔
1:پنجاب کے سارے اضلا ع ،تحصیلوں ،ٹائون اور ضلع کچہریوں میں تعینات سپیشل پرا سکیوٹر،پبلک پراسکیوٹر، ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس ،پنجاب لیگل ڈیپارٹمنٹ،پنجاب کے سو سے زیادہ محکموں ،بینکوِں،کارپوریشنوںاور اداروں کے لیگل ایڈوائزر،اٹارنی جنرل آفس کے قانونی معاونین،وزارت ِ قانون پنجاب کے اہلکار ،وفاقی محکموں جیسے واپڈا،سوئی گیس،ہائی وے،67 وزیروں کے 67 محکموں اور ان کی برا نچوں کے لیگل ایڈوائزر۔
2:اٹارنی جنرل اور وفاقی محکمہ جات کے دفاتر کراچی،پشاور،کوئٹہ،لاہور،اسلام آباد کے سارے مُلازم ۔بلوچستان میں نااہل وزیر اعظم کی صوبائی حکومت کی پرا سکیوشن برانچ ،لیگل ائڈوائزر ،ایڈووکیٹ جنرل آفس سب کو ملالیں یا کسی با خبر وکیل سے پوچھ لیں ان کی کُل تعداد کا دسواں حصہ بھی وکیلو ...''مجھے بچا لو ‘‘کنونشن میں نہیں پہنچ سکا۔بڑی کوشش کے با وجود کا لی جیکٹوںاور کوٹوں میں سفید کپڑوں والے جمع کر کے ،اسے کسی طرح بھی وُکلاء کنونشن کا نام نہیںدیا جا سکتا۔ 
خاص طور پر ایسے میں جب پنجاب اور پاکستان کی سب سے بڑی نمائندہ بار ایسوسی ایشن ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے وکیلو...''مجھے بچا لو‘‘ کی کال کو آن ریکارڈ مسترد کر دیا۔سرکاری وکیلوں وغیرہ وغیرہ کے اس کنونشن میں بھی'' گو نواز گو ــ‘‘ کا نعرہ لگ گیا۔نواز شریف نے چونکہ وکیل برادری کو مخاطب کر کے 12 سوالات اٹھائے ہیں۔لہٰذا ان سوالوں کا وکالتی جواب حاضر ہے۔
پہلا جواب : رجسٹرار سپریم کورٹ نااہل وزیراعظم نے لگایا۔ واٹس ایپ کال کا جواب اسی نے دیا۔نا انصافی کہاں ہوئی؟
دوسرا: جے آئی ٹی برُی تھی۔ یانا اہل وزیراعظم کے سینیٹر سیف الرحمان کے نیچے شہید بی بی کے خلاف احتساب سیل۔
تیسرا: قومی سلامتی سے ہٹ کر انہی خفیہ ایجنسیوں کو ڈان لیکس کمیٹی میں اہل وزیراعظم نے خود بٹھایا تھا۔
چوتھا: جی ہاں! آپ کے سیاسی کزن جج نے رینجرز کیس ، مونس الٰہی کیس ، جتوئی کیس سمیت درجنوں کیسوں میں ہمہ وقت نگرانی کی نظیر قائم کی۔
پانچواں: ہر درخواست گزار نے نا اہل وزیراعظم کی نا اہلی کی استدعا کی ورنہ62/63 ہے کیا؟
چھٹا: ہر عدالت اور آئینی مقدمات لڑنے والے سارے وکیل ڈکشنری اور لیگل میکسم پر انحصار کر تے ہیں۔
ساتواں: جی ہاں! مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں چار ایف آئی آرزدرج ہوئیں۔ ماڈل ٹاون قتل میںچار سے زیادہ ایف آئی آر ز، تفتیش اور انکوائری۔
آٹھواں: نگرانی پٹیشن یا دوبارہ سماعت میں وہ فاضل جج ضرور بنچ کا حصہ ہوتے ہیں جو پہلے فیصلہ دے چُکے ہوں۔
نواں: پورے ملک نے جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی ۔ہر ٹی وی نے دلائل نشر کیے۔ بنچ کی دونوں بار سماعت سپریم کورٹ میں ہی ہوئی۔
دسواں: پانچوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ دہشت گردی سمیت اہم مقدمات میں نگران جج مقرر کر تے آئے ہیں۔
گیارہواں: ٹرائل کورٹ کا جج سپریم کورٹ کا ویسے بھی ماتحت ہے۔ عدلیہ کی آزادی سرکاری خرچ پر ریلی اور جلسے سے متاثر ہوتی ہے یا سپریم کے فیصلے سے۔
بارہواں: آپ نے ہزار مرتبہ مخالفوں کے خلاف مقدمے چلانے۔ انہیں لٹکانے ۔ رسے سے سڑک پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کے آن ریکارڈ فتوے جاری فرمائے۔عدالت عظمی ٰ نے کبھی ایسا نہیں کہا اور نہ کہہ سکتی ہے۔
وہی آئین جو عدالت عظمی کو ماورائے آئین کارروائی کر نے سے روکتا ہے۔ عین اسی دستور میں آرٹیکل 189 میں یہ پابندی بھی موجود ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہو گااور سب پر لا گو اور موثر بھی ۔وکیلو...آئومجھے بچاو کنونشن میں بھدّی آواز اور بھونڈے انداز میں سٹریٹ جسٹس کے لئے ماورائے آئین عدالت لگائی گئی۔ آل شریف نے ایک طرف سپریم کورٹ کے روبرو نظر ثانی کی پٹیشن داخل کی۔ دوسری جانب اتفاق فاونڈری جسٹس کی دکان کھول دی۔مرد بنو یا شیر۔اگر عدالت پر یقین ہے تو متوازی عدالتیں کیوں لگاتے ہو اور اگر عدالت پر یقین نہیں تو سیدھی بغاوت کرو۔ منافقت چھوڑ دو۔ 
جہاں تک وکیلو ... مجھے بچا لو کنونشن کا تعلق ہے ۔اُسے وکیل خوب جانتے ہیں۔وکیل جن کا اوڑھنا بچھونا عدالت ہے۔وہ گلیوں میں لگنے والی عدالت کی حمائت کیوں کرتے ؟ اگر نا اہل گاڈ فادر کے سٹریٹ جسٹس کا رواج عام کر دیں ۔تو پھر آلِ شریف کو ان سب کے گھروں میں معافی مانگنے جا نا ہو گا۔ جن کے بچوںکو نواز شر یف حکومت نے پھانسی پر لٹکایا ۔جن کی رحم کی اپیلیں نوُن کے صدر ممنون نے مسترد کیں ۔جن کی رحم کی اپیلیں مسترد کرنے کی سمری نا اہل وزیرِاعظم کی منظوری سے صدر تک پہنچی۔مرنے والوں کے پیارے کہیں گے فیصلہ غلط تھا ۔سزائے موت کے کچھ قیدی ایسے بھی تھے ۔ جنہیں نواز حکومت نے پھانسی پر پہلے لٹکایا اور ان کی اپیلیں بعد میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئیں۔ایسی ماورائے آئین پھانسی کو ایکسٹرا جوڈیشل کِلنگ کہتے ہیں۔ویسی ہی ایکسٹرا جو ڈیشل کِلنگ جیسی سبزہ زار میں ہوئی،ماڈل ٹائون میں ہو ئی اورشاہراہِ دستورپر پارلیمنٹ کے دروازے کے سامنے بھی۔نا اہل وزیرِاعظم کے دورِ نا اہلی کے مقتول اپنے وکیلو ں سے اتنا بھی نہ کہہ سکے وکیلو ...آئومجھے بچا لو ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved