پانچ اگست 1990 کی رات صدر غلام اسحاق نے58/2b کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا۔ اس صدارتی حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں بے نظیر بھٹو کی دائر کی جانے والی اپیل پر فیصلہ ایک سال بعد کیا گیا لیکن جب غلام اسحاق خان نے اسی اٹھاون ٹو بی کے تحت18 اپریل1993کو نواز حکومت کو ختم کیاتو ان کی پٹیشن پرتین ہفتوں کے اندر سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بنچ نے دس،ایک کے اکثریتی فیصلے سے نواز شریف حکومت کو فوری طور پر بحال کر نے کا حکم جاری کردیا بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں فیصلہ دینے والے بنچ نے صدر غلام اسحاق خان کی اس استدعاکو بھی مسترد کر دیا کہ اس فیصلے کو عارضی طور پر ا س وقت تک کیلئے موخر کر دیا جائے جب تک صدر کی جانب سے دائر کی جانے والی دوسری اپیل پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ صادر نہیں کردیتی۔ صدر غلام اسحاق خان کے 58/2b کے تحت دیئے گئے حکم کو غیر قانونی قرار دینے والے ان دس ججوں میں چیف جسٹس شیخ نسیم حسن، شفیع الرحمان،افضل لون، رفیق تارڑ،سعد سعود جان، سعید الزمان صدیقی، عبد القدیر چوہدری، اجمل میاں،محمد افضل لون، سجاد علی شاہ اور سلیم اختر شامل تھے؟۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کرنے والے ان دس جج حضرات کو ریٹائر منٹ کے بعد کس طرح نوازا گیا‘ وہ کہاں کہاں اور کن کیلئے کام کر تے رہے‘ اس ملک کی ہر بار کے سینئر اراکین بخوبی واقف ہوں گے ۔لاہور ہائیکورٹ کے ایک باریش سابق چیف جسٹس کسی عشائیے میں شریک تھے ،میری موجودگی میں لاہور کی ایک بہت اہم مارکیٹ کے تاجر نے ان سے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کب ختم کر رہے ہیں ، ہمارے کاروباری حالات خراب ہو رہے ہیں... انہوں نے فرمایا‘ آپ لو گ تھوڑی سی ہمت کریں باقی کام ہم کر لیں گے۔ عدلیہ کی یہ باریش شخصیت اب تک شریف فیملی کی حکومت میں کسی نہ کسی اہم عہدے پر فائز چلی آ رہی ہے۔
رفیق تارڑ کو صدر پاکستان بنادیاگیا، افضل لون کو شریف گروپ آف انڈسٹریز کے قانونی مشیر کے فرائض سونپے گئے، سعید الزماں صدیقی کو چیف جسٹس اور پھر صدر پاکستان کیلئے مسلم لیگ نواز کا امیدوار اور سخت بیماری کی حالت میں موت سے چند دن پہلے گورنر سندھ بنایا گیا۔ آج جب شریف فیملی کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے 70 سال میں 35 سال تک یہ ملک فوج کے اقتدار میں رہا تو ساتھ ہی یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ 35 برس تک انصاف بھی نواز شریف فیملی کا نگہبان رہا ...کون نہیں جانتا کہ شریف فیملی نے ایسے لوگوں کو جج بنایا جو ان کے ہاتھ چومنااپنے لئے با عث فخر سمجھتے ...یہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ وہ ایک ایسے وکیل کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے تک لے گئے جو ہر جمعہ کو ان کی کھلی کچہری کی کرسیاں لگایا کرتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ شریف فیملی نے انصاف کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔ بد قسمتی دیکھئے کہ جسٹس راشد عزیز اور ملک قیوم تو '' فون سکینڈل ‘‘ میں اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیئے گئے لیکن میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف جنہوں نے ان دو ججوں کو فون پر بے گناہوں کو سزا دینے اور گنا ہ گاروں کو بری کرنے کے احکامات دیئے‘ وہ اس ملک پر حکمرانی کر تے رہے ... کس قانون اور آئین کے تحت عدلیہ کو ڈکٹیٹ کرنے والے اس ملک کے حکمران بنا دیئے گئے۔۔۔۔اگر یہاں آئین اور قانون کا راج ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا؟...فیصلہ قانون اور انصاف کے نام پر ہمیشہ ایک سیاہ دھبہ بنا رہے گا...سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے ان فون کالز کے ایک ایک لفظ سے با خبر ہونے کے با وجود ا ن صاحبان کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت کس طرح اور کیونکر ملتی رہی ؟۔
تاریخ اپنا واجب الادا قرض یقیناََ جاننا چاہی گی کہ اپریل میں غلام اسحاق خان کے صدارتی حکم سے ختم کی گئی نواز حکومت کو سپریم کورٹ نے مئی1993میں صرف تین ہفتوں کے اندر اندر کس میرٹ کے تحت بحال کیا ؟... اس کہانی کے تین لوگوں کے سوا باقی کردار آج بھی زندہ سلامت ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کس طرح نوا ز حکومت بحال کرنے والے جج حضرات اقبال ٹائون میں واقع اسی بنچ کے ایک رکن کے گھر اکٹھے ہوئے۔رات گئے جب یہ جج حضرات علامہ اقبال ٹائون کے اس گھر میں بیٹھے تھے تواچانک سفید رنگ کی ایک چھوٹی سی گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی جس میں ایک انتہائی اہم شخصیت سوار تھی۔ ساتھی جج حضرات اور اہم ترین سیا سی شخصیت اس بہانے رات گئے تاریکی میں اس گھر پہنچے تھے کہ انہیں اس جج صاحب سے ان کے نو جوان بیٹے کی المناک مو ت پر تعزیت کر نا تھی جو شائد پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے گر گیاتھا؟۔ کسی ساتھی جج یا دوست رشتہ دار کے گھر رات گئے ملنے جانا یا ان سے تعزیت کرنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ ایک احسن عمل ہے لیکن اسی گھر میں ایک چھوٹی سی گاڑی میں رات اڑھائی بجے اگر کوئی ایسی سیا سی شخصیت بھی پہنچ جائے جس کی پٹیشن ان ججوں کے پاس زیر سما عت ہو تو یہ سارا عمل خود بخود مشکوک ہو جاتا ہے ؟۔اگرکوئی جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مرضی لیکن اللہ عزوجل تو سب جانتا ہے اور جب معیار یہ بنا لیا جائے کہ عدلیہ میں اس شخص کو آگے لانا ہے جو ان کی کھلی کچہریوں کی کرسیاں ترتیب سے لگانے کے فرائض انجام دیتا دکھائی دے تو پھر عدل و انصاف کہاں ؟۔حرماں نصیبی کہہ لیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ پنجاب جیسے صوبے میں ایسی بہت سی شخصیات عدل و انصاف کے اہم ترین منصب پر اس گھرانے کی بدولت تعینات رہ چکی ہیں، جنہوں نے انصاف کا ترازو اپنی وفا داری کے بوجھ سے ایک جانب ہی جھکائے رکھا؟۔شائد اسی لئے وہ حیران ہو کر ان سب ججوں کو بار بار مخاطب کئے جا رہے ہیں کہ'' مجھے کیوں نکالا گیا ہے‘‘۔
پنجاب کے چیف جسٹس راشد عزیز اور ملک قیوم کا شرمناک قصہ ایسا ہے کہ جب جب تاریخ کا یہ ورق پڑھا جائے گا تو انصاف کا ترازو یہ کہتے ہوئے اشک بار دکھائی دے گا کہ اﷲ عزوجل کا نام لے کر اپنے اپنے عہدوں کا حلف لینے والوں نے میری حرمت کا پاس نہیں کیا۔ایسا نہیں کہ اس ملک میں عدل و انصاف کی حرمت پر پہرہ دینے والے نا پید ہو چکے ہیں‘ میرا ملک نیک نام وکلاء اور میزان کی حرمت کو اپنا ایمان سمجھنے والوں سے اٹا پڑا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے لوگوں کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا...سکندر سلیم ذوالقرنین جیسے، عدلیہ کے ماتھے پر جھومر کی طرح چمکنے والے بے خوف اور انصاف پسند شخص کو کون بھلاسکتا ہے؟۔سکندر سلیم ذوالقرنین جیسے لوگوں کو مستقل کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ وہ پنجاب کے خادم اعلیٰ اور اس کے طاقتور وزیر کے بار بار منع کرنے کے با وجود دہشت گردوں کو سزائے موت سناتے ہوئے ذرا بھی نہیں ڈرتے تھے...تاریخ کا یہ ریکارڈ قوم کے سامنے لانا چاہئے کہ اس انصاف پسند شخص کو کہا گیا کہ '' دہشت گردوں کو اس طرح سزائے موت دینے سے پنجاب حکومت کے خلاف ان کی تنظیموں کی نفرت بڑھے گی‘ جب ہم نے فوجی عدالتوں کی منظوری دے دی ہے تو یہ سب فوجی عدالتوں کو کرنے دیں‘‘...!!
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ پنجاب جیسے صوبے میں ایسی بہت سی شخصیات عدل و انصاف کے اہم ترین منصب پر اس گھرانے کی بدولت تعینات رہ چکی ہیں، جنہوں نے انصاف کا ترازو اپنی وفا داری کے بوجھ سے ایک جانب ہی جھکائے رکھا؟۔شائد اسی لئے وہ حیران ہو کر ان سب ججوں کو بار بار مخاطب کئے جا رہے ہیں کہ '' مجھے کیوں نکالا گیا ہے‘‘۔