کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو آخر ہوا کیا ہے۔ ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ جدت پیدا کرنے کی کوشش بالآخر زیادہ سے زیادہ حماقت کی منزل پر پہنچ کر دم توڑ رہی ہے۔ ایسا متواتر ہو رہا ہے مگر لوگ پھر بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ خود کو زیادہ سے زیادہ جدید، بلکہ ''جدیدیا‘‘ ثابت کرنے کے لیے لوگ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہنے سے باز نہیں آتے۔ دن رات یہی سوچا جارہا ہے کہ اپنے آپ کو ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ انوکھا اور وکھرا کس طور ثابت کیا جائے۔
اب کھانے ہی کا معاملہ لیجیے۔ کھانے کے معاملات کو بھی حیرت انگیز حد تک جدت طرازی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی خطے کی ڈش پورے اہتمام سے تیار کی جاتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ اُس ڈش کا مخصوص ذائقہ برقرار رہے۔ پھر یہ ہوا کہ دو یا زائد ڈشوں کو ملاکر نئی ڈش تیار کرنے پر توجہ دی جانے لگی۔ اِس کا نتیجہ ''کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ کی شکل میں برآمد ہونے لگا! ع
اِس طرح ''ہی‘‘ ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں!
کھانا انسان کا انتہائی بنیادی معاملہ ہے۔ اِس یومیہ معمول کو لوگ عام طور پر زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ کھانا کون سی نئی بات ہے، روز ہی تو کھانا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ سوچ جس کے ہاتھوں لوگ کھانے پینے کی چیزوں اور طریق کو زیادہ دھیان دینے کے قابل نہیں سمجھتے۔ مگر جب کوئی ڈش بگڑ جاتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ اِس یومیہ معمول کی اہمیت کس قدر ہے۔
دنیا بھر میں ''مختلف المزاج‘‘ ڈشوں کو ملاکر نئی ڈشیں تیار کرنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایسی ڈشیں معرض وجود میں آئی ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جن ذائقوں کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ زبان سے ٹکرانے لگے ہیں اور اِس کے نتیجے میں قدرت کے بخشے ہوئے اچھے خاصے ذائقوں کی مِٹّی پلید ہونے لگی ہے۔ ''کانٹی نینٹل‘‘ ڈشوں کے نام پر عجیب و غریب ہیئت کی بے ذائقہ ڈشیں مارکیٹ میں لائی گئی ہیں۔ اِن ڈشوں کے شوقین عجیب و غریب مزاج کے حامل پائے گئے ہیں۔ بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں نئی اور عجیب الذائقہ ڈشیں کھاکر لوگ خوب بے مزا ہوتے ہیں مگر ماحول کا تقاضا ہوتا ہے کہ کھاتے جائیے اور ''ویری گڈ، ویری فائن‘‘ کا راگ الاپتے جائیے! ہائی فائی سوسائٹی میں ایسا ہی ہائی فائی قسم کا بے ڈھنگا پن پایا جاتا ہے!
یہ تو ہوا ڈشوں کا معاملہ۔ دنیا بھر میں کھانے کا ماحول بھی قیامت خیز تبدیلیوں سے دوچار ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جس ماحول میں بیٹھ کر کھائیں اُس میں ہر وہ بات پائی جاتی ہو جس میں ذرا بھی معقولیت نہ ہو۔ کسی بھی خاص نکتے یا مرکزی خیال کے تحت بنائے بنائے جانے والے ہوٹل یا ریستوران کو ''تھیم ریسٹورنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ کسی بھی نامعقول چیز کو فیشن کے نام پر لفظ ''تھیم‘‘ نتھی کرکے آسانی سے چلایا، کامیاب بنایا اور بیچا جاسکتا ہے! یہ ایسا ہی ہے جیسے گوشت کچّا رہ جائے تو بریانی کی بُرائی مت کیجیے بلکہ یہ کہیے کہ جناب، یہ ہے کچّے گوشت کی بریانی! کسی زمانے میں قیمے کچّا رہ گیا تو اُس سے تیار کردہ کباب کہلائے کچّے قیمے کے کباب!
احمد آباد کے ایک تھیم ریسٹورنٹ ہی کی مثال لیجیے۔ یہ ریستوران قبرستان کی زمین پر بنایا گیا ہے۔ ریستوران کے دو بڑے کمرے ہیں جن میں مجموعی طور پر سات قبریں ہیں۔ ان قبروں کے گرد لوہے کی گرل لگادی گئی ہے۔ صفائی کا خاص اہتمام ہے۔ لوگ ان قبروں کے درمیان بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہوئے کھاتے ہیں اور خوش خوش باہر آتے ہیں۔
قبرستان کا وجود اصلاً اس لیے ہوتا ہے کہ انسان عبرت پکڑے، اپنے انجام کو یاد رکھے یعنی جب تک زندگی ہے تب تک کچھ اچھا کرنے کی تحریک پائے اور کبھی نہ بھولے کہ ایک دن مرکر اِسی مٹی میں جانا ہے۔ اور یاروں نے قبر سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اُس کے پہلو میں بیٹھ کر کھانے پینے کا اہتمام کر ڈالا ہے!
جاپان میں ایک ریستوران ایسا بھی ہے جس میں ویٹر کی حیثیت سے تین چار بندر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ بندر ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ جیسے ہی آرڈر ملتا ہے، یہ اچھلتے کودتے کچن کی طرف جاتے ہیں اور آرڈر کے مطابق ڈشیں تیار کرواکے نہایت سلیقے سے تمام ڈشیں گاہک کی میز پر دھرتے ہیں۔ اِن بندروں کو دیکھ کر فیملی کے ساتھ آئے ہوئے بہت سے گاہک شرمندہ سے بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ (شادی شدہ ہونے کے باوجود) اِس قدر فرماں برداری اور خوش سلیقگی تو خود اُن میں بھی نہیں پائی جاتی! بندروں والے اس ریستوران کا ایک بڑا سماجی فائدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہاں پیٹ بھرنے کے دوران بندروں کو دیکھ دیکھ کر اطاعت اور فرماں برداری سیکھ لیتے ہیں اور یہ وصف گھریلو اور پیشہ ورانہ دونوں ہی طرح کی زندگی میں بہت کام آتا ہے! گویا کھانا وانا رہا ایک طرف، بندروں والے ریستوران کا بنیادی مقصد جاپانیوں کو واقعی انسان بنانا ہے!
برطانیہ میں ایک ریستوران بہت ہی انوکھی تھیم کے تحت یعنی خالص آپریشن تھیٹر کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ریستوران کے مرکزی ہال کے وسط میں ایک بڑی آپریشنل ٹیبل ہے جس کے گرد کئی میز کرسیاں لگائی گئی ہیں۔ لوگ آتے جاتے ہیں اور آرڈر کے مطابق پیش کی جانے والی ڈشوں سے لذت کشید کرنے کے ساتھ ساتھ آپریشن ٹیبل پر کیے جانے والے آپریشن سے بھی ''محظوظ‘‘ ہوتے جاتے ہیں! آپریشن ٹیبل پر دراصل پلاسٹک کا ڈمی مردہ ہوتا ہے جس کی چیر پھاڑ کے لیے دو تین ملازم سرجن کا لباس پہن کر کیل کانٹوں سے لیس ہوکر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ''آپریشن‘‘ کرتے جاتے ہیں اور لوگ کھانے کو اور کھانے سے زیادہ اس پروسیجر کو انجوائے کرتے جاتے ہیں! اب تک یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ کھانے کے دوران ڈمی مردے کا آپریشن دیکھتے رہنے سے کس طور اور کیوں محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ بات وہی ہے جس کا ہم نے کالم کی ابتداء میں ذکر کیا۔ لوگ ہر معاملے میں خواہ مخواہ نیا پن چاہتے ہیں۔ بہ قولِ غالبؔ ؎
مے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو؟
اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے!
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں حال ہی میں ایک ریستوران کا افتتاح کیا گیا ہے۔ اس میں آپ چائے یا کافی پینے کے ساتھ ساتھ چوہوں سے بھی محظوظ ہوسکتے ہیں! اب آپ ہی بتائیے، کہاں چائے کافی اور کہاں چوہے؟ لوگ اپنے مزے کے لیے کیا کیا برداشت کرتے ہیں! جن امریکیوں کو ایشیائیوں کی شکل دیکھتے ہی الجھن ہونے لگتی ہے وہ چوہوں کو دیکھ کر کوئی الجھن محسوس نہیں کرتے! اس ریستوران میں چائے اور کافی پینے کے دوران چوہوں کو گود میں بھی بٹھایا جاسکتا ہے۔ چوہوں کے ساتھ چائے یا کافی پینے کے چارجز صرف پچاس ڈالر ہیں!
دیکھا آپ نے؟ زمانہ ایسا بدلا ہے کہ ڈشیں ایک طرف رہ گئی ہیں۔ لوگ اب کھانے سے زیادہ کھانے کے ماحول کا مزا لوٹنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کل کو لوگ کھانے کے دوران لُٹنا پسند کریں اور اِس کے لیے ریستوران میں مسلح افراد ملازم رکھے جائیں جو گاہکوں کو گن پوائنٹ پر لے کر نقدی سمیت تمام اشیاء کاؤنٹر پر رکھوالیں! ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ پاکستان اس معاملے میں بازی لے گیا ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر ریستوران اِسی تھیم کے تحت کام کر رہے ہیں!