تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     27-02-2013

اسلام آباد کے چند بزرگوں سے ملاقات

ان کے سرہانے دوائوں کے نسخے نہیں ہوتے اور وہ کسی نہ کسی کام میں مشغول رہتے ہیں کوشش توکرتا ہوں کہ جن شہروں میں دو راتیں بھی اچھی گزریں، ان کا ذکر شکر گزاری سے کروں مگر ایک تو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے عبدالعزیز ہیں، جو مجھے اسلام آباد جاتے وقت اُردو کے ایک بہت بڑے تخلیق کار اسد محمد خان کے ایک افسانے ’دارالخلافے اور لوگ‘ کا ایک اقتباس میسیج کرنا نہیں بُھولتے: ’سلطانوں کو اپنے ڈھب کے کارندے مطلوب ہوتے ہیں، غبی اور لکیر کے فقیر اور سفاک، جو شاہی احکام کی بجا آوری میں خوب مستعد ہوں، ساتھ ہی ہر طرح سے بے عقل بھی ہوں، وہی لوگ کچہریوں، محکموں اور درباروں کے مطلب کے ہوتے ہیں‘۔ تب مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی سید یوسف رضا گیلانی کا دربار یاد آتا ہے، ابھی ان کی آل اولاد کے گُن عیاں نہیں ہوئے تھے اور مجھ ایسے ملتانی کی اُن سے خوش گمانی بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اُن کی سب سے مستعد جاں نثار نرگس سیٹھی ہوتی تھیں۔ اُنہوں نے منتخب ادیبوں، فن کاروں، صحافیوں اور دانش وروں کے وزیرِ اعظم سے براہِ راست مکالمے کے چار سیشن کرائے۔ اُنہی میں سے ایک کے آغاز پر فردوس عاشق اعوان کی تلاوت سے پہلے ایک سرکاری ثقافتی ادارے کے سربراہ نے کورنش بجا لا کے وزیر اعظم کو ایک کتاب پیش کی تو انہوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کتاب کے سر ورق پر گیلانی صاحب کی ایک دیدہ زیب تصویر تھی اور غالباً یہ عنوان بھی دمک رہا تھا ’خطبات و تقاریرِ سید یوسف رضا گیلانی‘۔ محترمہ سیٹھی نے کہا: ’جناب انہوں نے بڑی جاں فشانی سے آپ کی کتاب کی ڈمی بنائی ہے، انشااللہ ایک ہفتے میں یہ پاکستان کے قابلِ ذکر عوام تک پہنچ جائے گی‘۔ غالباً اسی سیشن کے اختتام پر محترمہ نے ہم جیسے سرکاری کارندوں سے پوچھا: ’فیڈ بیک کیا ہے‘؟ اپنے دو ایک رفقا کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر میں نے بھی نیم خوشامدانہ فیڈ بیک دیا: ’شریک ہونے والے اکثر ادیب خیال کرتے ہیں کہ ہمارے وزیرِ اعظم کی بول چال میں بہتری کے آثار ہیں‘۔ اس سے پہلے میں نے کسی خاتون کی نگاہِ غلط انداز کے بارے میں ناولوں میں تو پڑھا تھا مگر پورے معانی کبھی سمجھ میں نہیں آئے تھے، جو اس لمحے سمجھ میں آئے۔ اس کے بعد مجھے ایسے کسی دربار میں نہ بلایا گیا، اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ محترمہ کی براہِ راست نگرانی میں کام کرنے والے اس ادارے نے وہ کتاب شائع کی یا وہ ان کے جیل جانے یا دوبارہ اقتدار میں آنے کی منتظر ہیں۔ اتفاق سے مقتدرہ قومی زبان سے فراغت کے بعد میرے قلب و جگر کا درد اس ٹانگ میں منتقل ہو گیا، جو اوساکا میں ٹوٹی تھی اور میں نے اپنے غیرملکی معالجین پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستانی اپنے قومی وقار کی خاطر جاپانیوں سے بھی زیادہ خود کُش ہو سکتے ہیں، وہیل چیئر پر تیسرے دن یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ اگر آپ کسی کرسی اور دفتر سے محروم ہونے کے بعد لنگڑانا شروع کر دیں تو حاسدین کی باچھیں ڈریکولا جیسی لگتی ہیں، اس لیے اپنی دانست میں ’بہادروں‘ کی طرح جو چلنا شروع کیا تو معاملہ ’اگلے سے چگلا‘ ہو گیا۔ اس مرتبہ فراز سیمینار کے لیے اسلام آباد آیا تو دو ایک ڈاکٹروں سے چیک اپ کرایا۔ جب انہوں نے ایک ہی سبب بڑی سفاکی سے بیان کیا ’بڑھاپا‘ تو میں نے اسی شہر میں اپنے تین بزرگ دوستوں ڈاکٹر انور نسیم، پروفیسر فتح محمد ملک اور سیّد فروغ نوید، کی زیارت کا فیصلہ کیا‘ جن کے سرہانے تیماردار ہوتے ہیں، نہ دوائوں کے نُسخے اور وہ کسی نہ کسی کام میں لنگڑائے بغیر مشغول بھی رہتے ہیں۔ انور نسیم ابھی پاکستان سائنس اکادمی کے سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں، افسانے بھی لکھتے ہیں اور جب بھی ملیں، گرم جوش اور ہنستے مسکراتے۔ ممکن ہے کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کینیڈا سے ملنے والی پنشن کا بھی دخل ہو۔ اُن کی حس مزاح، مجلسی زندگی اور دکھوں کی فوری تدفین کی عادت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ امرتسر کے ہیں، مگر ڈاکٹر صاحب دینہ کے ہیں، ضمیر جعفری اور گلزار کے آس پاس کے۔ پروفیسر فتح محمد ملک مختلف منصبوں پر رہ کر بھی لکھنے پڑھنے میں مشغول رہے ہیں۔ حنیف رامے کی طرح اسلامی سوشلزم کے قائل ہیں، جس کی وجہ سے مولوی صاحبان بھی اُن سے ناراض رہتے ہیں اور سوشلسٹ بھی جبکہ سیّد فروغ نوید ایمرسن کالج ملتان میں انگریزی کے استاد رہے ہیں اور اسی کالج میں اس مضمون کے یادگار استادوں کی اس کہکشاں میں شامل ہیں جس کا آغاز مرزا رشید دہلوی سے ہوا تھا۔ عرش صدیقی، نذیر احمد، فرخ درّانی، ظفر اقبال فاروقی، شعیب بن حسن، فیاض تحسین اور عبدالرشید بھی اسی کہکشاں کے دمکتے ستارے ہیں۔ سیّد فروغ نوید ’ایمرسونیّنز‘ کے بانی صدر ہیں، سول سروس میں بھی رہے ہیں، شاید اسی لیے حسِ مزاح کے باوجود سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے اُن سے ذکر کیا کہ رحیم یار خان میں مقیم میرے فارسی کے ایک اُستاد عبدالعزیز جاوید بھی آپ کے شہر میں آئے ہوئے ہیں‘ جن کی فارسی، اردو اور پنجابی منظومات کا ایک مجموعہ راہ آورد سوغات شائع ہو چکا ہے۔ وہ سیّد عابد علی عابد کے براہ راست شاگرد ہیں۔ آج کل امام غزالی کی ’کیمیائے سعادت ‘ کے بعض ناقص ترجموں کے سبب مستند متن سے اس کا ترجمہ کر رہے ہیں، جس سے امام کی حکمت و منطق کی روح کو ویسا گزند نہ پہنچے، جیسا ایک مترجم نے پہنچایا کہ امام نے انسان کی تین ضرورتوں، روٹی، کپڑا اور مکان کی نسبت سے تین صنعتوں کے فروغ پر زور دیا مگر ترجمے میں’کیمیا‘ کے معروف تلازمات کے زیرِ اثر نان بائی کو سنار کر دیا گیا۔ جب میں اپنی دانست میںجاوید صاحب کا علمی تعارف کرا چکا تو ناچار بزرگوں میں اشتیاقِ دید پیدا کرنے کے لیے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے کوئی دو برس پہلے یعنی پچاسی برس کی عمر میں ایک اور شادی بھی کی ہے تو نہ صرف میرے مذکورہ بزرگوں میں سے دو نے بلکہ ملک صاحب کے پاس تشریف لائے ہوئے ایک اور بزرگ نے بھی کہا: ’جاوید صاحب کی زیارت تو کیا بیعت بھی ضروری ہے‘۔ وہ دستاویزات سے یہ ثابت کرنے آئے تھے کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، اصغر خان کی تحریک ِ استقلال میں ایک اہم عہدہ قبول کر چکے تھے، ضیاء الحق نے مقتدرہ قومی زبان بنا کر ڈاکٹر صاحب کو صدر نشیں بنا دیا تھا، اسی لیے اس ادارے کے سابق سربراہوں کو چاہیے کہ وہ اصغر خان کے سیاسی جانشیں عمران خان کی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اسی محفل میں میَں نے رئوف کلاسرا کے درویش منش بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کی اچانک وفات کی دل دوز خبر سُنی اور اسلام آباد سے لیّہ جانے کا فیصلہ کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved