تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-08-2017

ڈُبکی اور سُبکی

عجیب و غریب خبروں نے شاید طے کر رکھا ہے کہ اُن کی آمد ہوگی تو پڑوس کی سرزمین ہی سے ہوگی۔ بھارتی معاشرے میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جسے دیکھ دیکھ کر انسان ع 
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے 
کی منزل سے گزرتا رہتا ہے۔ بہت سوچنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور جو نہیں ہو رہا وہ کیوں نہیں ہو پارہا۔ 
ایک طرف بھارتی قیادت ہے اور دوسری طرف بھارتی عوام۔ دونوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ قدم قدم پر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے دنیا کو حیران و پریشان کریں گے۔ اب ہریانہ میں ڈیرا سَچّا سودا کے گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کا لڑکی سے زیادتی کا معاملہ ہی لیجیے۔ اس حوالے سے احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں 35 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے ہیں۔ ہریانہ، پنجاب اور راجستھان میں کئی شہروں کی سکیورٹی داؤ پر لگی ہے۔ دو ریلوے اسٹیشنز، متعدد پولیس اسٹیشنز اورسینکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کیا جاچکا ہے۔ فوج کو بھی طلب کرنا پڑا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو شرم بھی نہ آئی کہ اُس گرو کے لیے میدان میں آئے ہیں جس پر کوئی معمولی نہیں بلکہ لڑکی سے زیادتی کا الزام ثابت ہوا ہے! پیر کو سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کورٹ کے جج جگدیپ سنگھ نے روہتک جیل میں عدالت سجاکر گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو 2002 کے کیس میں 10 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ عدالت میں سزا سُن کر گرو گرمیت رام رحیم سنگھ نے پُھوٹ پُھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ 
پُھوٹ پُھوٹ کر رونے کا معاملہ ڈیرا سَچّا سودا کے سربراہ تک محدود نہیں رہا۔ بھارتی فوج بھی رو رہی ہے۔ اب ڈوکلام ہی کی مثال لیجیے۔ اِس علاقے میں چین، بھارت اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اِس تکون کو ''مُربّا‘‘ بنانے کی بھارتی کوششیں اب تک ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ چینی فوج نے ڈوکلام میں ایک بڑی سڑک بنانے کی بھارتی کوششوں پر اب تک تندہی اور مہارت سے پانی پھیرا ہے۔ سُنا ہے بھارتی فوج ایک بار پھر سڑک تعمیر کرنے پر تُلی ہوئی ہے جبکہ اِس سے قبل یہ اطلاعات ملی تھیں کہ چینی فوجیوں نے بھارتی علاقے میںکئی کلومیٹر تک داخل ہوکر بھارتی فورسز کے اہلکاروں کی ٹُھکائی بھی کی تھی۔ لاتوں کے بھوت چونکہ باتوں سے نہ ماننے کے عادی ہوتے ہیں اِس لیے چینیوں نے سوچا لاتیں ہی آزمالی جائیں اور لاتوں کو آزمانے کا آپشن وہ خوب بروئے کار لائے۔ 
ایک طرف بھارت کی بری فوج ہے جسے چین کی فوج ڈھنگ سے کام نہیں کرنے دے رہی۔ ڈوکلام اور دیگر سرحدی مقامات پر خوب سُبکی ہو رہی ہے اور دوسری طرف بحریہ ہے جس کے لیے پانی کی کمی نہیں مگر پھر بھی آنسو بہا بہاکر دامن تَر کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ جی نہیں، آپ عجلت میں کوئی غلط اندازہ نہ لگائیں۔ بحری اُمور میں چین نے کچھ ایسا ویسا نہیں کیا۔ بحرِ ہند کے خطے میں بھی بھارت کے لیے پریشانیاں اور بحران کم نہیں مگر خیر، اِس بار کسی اور کو کچھ کرنے کی ضرورت نہ پڑی کیونکہ بحریہ ہی کے ایک اہلکار نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ 
کسی بھی بڑی طاقت کے سامنے بھارتی قیادت جو کچھ کرتی ہے وہ بحریہ کے ایک اہلکار نے کیا اور اِس طرح کیا کہ اب فورس کا ڈسپلن خطرے میں پڑگیا ہے! 
بھارتی بحریہ کے ایک سیلر (ملاح) نے سات سال قبل بحریہ سے وابستہ ہونے کے بعد تمام متعلقہ امور کی تربیت حاصل کی۔ عہدہ ملاح کا تھا اِس لیے ڈُبکی لگانا اور تیرنا اُس کے معمولات کا حصہ تھا۔ اِس معاملے میں اُس کی مہارت اِس قدر تھی کہ کوئی شک نہیں کرسکتا تھا۔ مگر یہ کیا؟ اِس سیلر نے ڈبکیاں لگاتے لگاتے کچھ زیادہ ہی گہرائی میں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اور فیصلہ بھی ایسا کہ پوری بحریہ کا سَر شرم سے جُھک گیا۔ سیلر نے کسی کو بتائے بغیر گزشتہ برس کے اواخر میں ممبئی کے ایک معیاری اسپتال کے ڈاکٹرز کی مدد سے اپنی دُنیا بدل ڈالی۔ بحریہ کے سلیکشن بورڈ نے جسے ''بھائی‘‘ سمجھ کر اپنایا تھا اُس نے باقی زندگی اپنے ساتھیوں کی کلائی پر راکھی باندھنے کا فیصلہ کرلیا اور جنس کی تبدیلی کا آپریشن کرالیا! 
بحریہ کی ہائی کمان پتا نہیں کیسے کیسے آپریشنز کی پلاننگ کر رہی تھی۔ اُس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بحریہ کی صفوں میں موجود ایک سیلر وکھری ٹائپ کا آپریشن کراکے ایسی ڈُبکی لگائے گا کہ سب کی سُبکی ہوجائے گی! جب نیول ہائی کمان کو سیلر کے ''آپریشن زیرو زیرو زیرو‘‘ کا علم ہوا تو ہاہاکار مچ گئی۔ مچنا ہی تھی۔ ایک طرف چین کی فوج کُٹ لگا رہی ہے اور دوسری طرف بحریہ کا ''جوان‘‘ دشمن کے سامنے ''ہمت مرداں مددِ خدا‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرنے کے بجائے باقی عمر ''دیدی‘‘ کی حیثیت سے گزارنا چاہتا ہے! 
آپریشن کے بعد سے سیلر نے بال بھی بڑھا لیے ہیں اور ساری میں ملبوس ہونا شروع کردیا ہے۔ کل تک وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوتا تھا، اب حاضر ہوتی ہے! ع 
ہائے کیا چیز ''عجیب العجبی‘‘ ہوتی ہے! 
نیول ہائی کمان کئی ماہ سے شدید مخمصے کا شکار ہے۔ جنس کی تبدیلی واقع ہونے کی صورت میںکس اہلکار کے ساتھ کیا کیا جائے، اِس حوالے سے نیوی کے پاس کوئی پروسیجر نہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب کریں تو کیا کریں؟ پہلے شوکاز نوٹس دیا گیا، پھر مشاورت ہوئی۔ متعدد میٹنگز میں اِس مسئلے پر بحث و تمحیص کے بعد اب طے کیا گیا ہے کہ متعلقہ اہلکار کو فارغ کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے SNLR کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یعنی 
Services No Longer Required 
(آپ کی خدمات مزید درکار نہیں) کا ٹیگ لگاکر اہلکار کو فارغ کیا جائے گا۔ جنس تبدیل کرانے کی پاداش میں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے خطرے سے دوچار اہلکار کی طرف سے اس معاملے میں کیا کیا جائے گا یہ اب تک واضح نہیں! 
اہلکار پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ بحریہ سے وابستہ ہوتے وقت اُس نے جن اُمور سے اتفاق کیا تھا اُن سے رُو گردانی کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اُس نے بحریہ کو ''بھارتی اور مرد باشندے‘‘ کی حیثیت سے جوائن کیا تھا۔ اور یہ بھی کہ بحریہ میں سیلرز کی درجہ بندی میں خواتین کو بھرتی نہیں کیا جاتا۔ 
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ بات کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے۔ ڈوکلام کا ''تِراہا‘‘ بحریہ میں بھی پیدا کیا جارہا ہے۔ بات اِتنی سی ہے کہ سیلر نے محسوس کرلیا تھا کہ وہ عورت ہے مگر مرد کے جسم کے پنجرے میں بند ہے۔ اِس پنجرے کو توڑ کر سیلر نے اب آزادی اور روحانی سُکون کے سمندر میں غوطہ زن ہونا شروع کیا ہے تو نیول ہائی کمان اُسے بے روزگاری کے سمندر میں غرق کرنے پر تُل گئی ہے! 
سیلر نے جنس کی تبدیلی کا آپریشن کرواکے دراصل نیول سلیکشن بورڈ کی ''مردم شناسی‘‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ سلیکشن کے وقت بورڈ کے ارکان متعلقہ ''شری مان‘‘ میں ''شری متی‘‘ ہونے کے آثار کیوں نہیں دیکھ پائے! اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پتا نہیں بھارتی بحریہ میں اور کتنے جوان ہوں جو باقی عمر ''دیدی‘‘ کی حیثیت سے گزارنے کے لیے بے تاب ہوں! یہ کوئی اچھی بات تو نہیں کہ میدان میں دشمن کے سامنے کوئی یہ محسوس کرے کہ وہ دراصل عورت ہے جو مرد کے جسم کے پنجرے میں بند ہے! اس ایک کیس کے ہاتھوں یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں پروفیشنل آپریشنز ایک طرف نہ رہ جائیں اور تعداد و کامیابی کے لحاظ سے جنس کی تبدیلی کے آپریشنز بازی لے جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved