تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-02-2013

پاک ایران گیس منصوبہ اور گوادر

چین مہم جُو ملک نہیں لیکن پاکستان کی سلامتی اس کی مجبوری ہے امریکی افغانستان سے لوٹ جائیں تو پاک فوج سکھ کا سانس لے گی۔ گزرے گیارہ برسوں میں دشمن کئی طرف سے حملہ آور تھا۔ مشرق میں بھارت ، مغرب میں غضب آلود امریکہ اور دانت نکوستی کرزئی حکومت،نام نہاد پاکستان طالبان ، محاذ پہ محاذ کھولتی وفاقی حکومت اور طعنہ زن میڈیا ۔ امریکی جنگ سمیٹ لی گئی تو طالبان کا رسوخ بڑھ جائے گااور بھارت نواز کرزئی حکومت تحلیل ہو جائے گی۔ تب افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کم ہوگی۔ ڈرون حملے بتدریج ختم ہو جائیں گے اور پاکستانی طالبان سے نمٹنا آسان ہو گا۔ میڈیا پر امریکی سرمایہ کاری گرے گی اور کئی زبانیں خاموش ہوجائیں گی۔ ہمار ے مالی معاملات مگر بدتر ہو جائیں گے۔ بجٹ خسارے کے سلسلے میں ہم عالمی مدد خصوصاً امریکہ پر منحصر ہیں۔ امریکی امداد اسی طرح کم ہو جائے گی جیسے افغان جہاد کے بعدوہ برائے نام رہ گئی تھی۔ سویت یونین لوٹ گیا تھا، امریکہ کو چلے جانا ہے لیکن پاکستان کو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ رہنا ہے۔ اُن سے بہتر تعلقات نہایت اہم ہیں۔ بھارت ایک بُرا پڑوسی ہے۔ پاکستان کے علاوہ وہ چین سے اُلجھتا اور خطے کے چھوٹے ممالک کو ہراساں کرتا رہا ہے۔ خارجہ پالیسی اور معیشت کے حوالے سے پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادربندرگاہ بہت اہم ہیں۔ ملک میں بجلی اور گیس ناپید ہیں؛ لہٰذا چولہے بجھ رہے ہیں اور مشینیں ساکت۔ صورتِ حال یہی رہی تو بیروزگاری بڑھے گی۔ مقامی مصنوعات ناکافی ہوں گی اور درآمدات بڑھیں گی۔ ناموزوں حالات میں برآمدات کے لیے سامان تیار نہ ہو سکے گا۔ ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مزید گریں گے؛ لہٰذا ایندھن درکار ہے۔ بحران اتنا شدید ہے کہ عام طور پر امریکہ کے سامنے بچھ جانے والی پاکستانی حکومت امریکی دبائو خاطر میں نہیں لا رہی۔ پاکستان کے قدرتی گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ درآمد واحد راستہ ہے۔ سب سے زیادہ ذخائر روس کے پاس ہیں لیکن وہ دوسرے کنارے پر بیٹھا ہے۔ ترکمانستان بھی مالا مال ہے، امریکہ جس سے معاملات پر زوردیتا رہا ہے لیکن ترکمانستان اور پاکستان کے درمیان افغانستان آباد ہے۔ وہاں امن اور استحکام کی خواہش تاحال ایک خواب ہے۔ ایرانی گیس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ گوادر دو سو سال اومان کے زیرِ تسلّط رہا۔ 1958ء میں پاکستان نے اسے خریدا۔ اردگرد دنیا کا دو تہائی تیل دھرا ہے۔ ایک طرف ایران اور عرب ممالک ہیں اور دوسری طرف افغانستان اور وسطِ ایشیا کی قدرتی وسائل سے بھرپور ریاستیں، جو سمندر سے محروم ہیں۔ سمندری تجارت کے لیے اب انہیں ایک متبادل میسّر ہو گا۔ افغانستان پہلے ہی پاکستان پہ منحصر ہے۔ چین اور دوسرے ممالک کو صرف راستہ دے کر پاکستان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ سنگار پور کی کمپنی واپس چلی گئی کہ پاکستان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ چین جانتا ہے کہ سب کچھ اسے خود ہی کرنا ہے۔ بھارت بہت بے چین ہے۔ وہ تیل ایران سے لے یا عراق اور سعودی عرب سے،گوادر راستہ ہے۔ چین پھو نک پھونک کر قدم اٹھاتا ہے۔ محتاط ایسا ہے کہ عالمی طاقت پڑوس میں بارہ سال جھک مارتی رہی اور پاکستان اس کے سامنے لیٹ گیا لیکن اس نے اپنے دامن پر ایک چھینٹ پڑنے نہیں دی۔ خاموشی سے وہ امریکی ناکامی کا انتظار کرتا رہا۔ چین بھارت کی طرح بَڑ نہیں ہانکتا لیکن اس کے لیے گوادر بہت اہم ہے، درحقیقت پورا پاکستان۔ مشرقِ وسطیٰ اور ایران کا تیل گوادر سے پورا پاکستان ماپ کر چین کا رخ کرے گا۔ فی الوقت اس کے بحری جہاز ویت نام، ملایشیا اور بھارت کا چکر لگا کر ایران اور مشرقِ وسطیٰ تک پہنچتے ہیں۔ پاک بھارت جنگ چھڑتی ہے تو وہ اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالنے پر مجبور ہو گا۔ گوادر چین کے پاس ہو گا تو وہ بھارت کا تیل روک سکتا ہے۔ وہ مہم جُو نہیں لیکن پاکستان کی سلامتی اس کی مجبوری ہے۔ امریکہ خطے میں بھارتی بالادستی چاہتا ہے لیکن امریکی بے چینی کا سبب کچھ اور بھی ہے۔ گوادر آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔ ایک تنگ سمندری راستہ، جہاں سے دنیا کا 35 فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایران عراق جنگ کے دوران ایک امریکی جہاز کی تباہی پر ایرانی بحریہ خون سے نہا گئی تھی۔ ایران اس راستے کو بند کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ ایران کے بالمقابل برادر اسلامی ملک بحرین میں امریکی لشکر کھڑے ہیں۔ دوسری طرف ایران بھی اپنی بحری قوت میں ہر ممکن اضافہ کر رہا ہے۔ ایران سخت مصیبت میں ہے۔ ایٹمی پروگرام کی قیمت ساری دنیا کی شدید مخالفت ہے۔ وہ بروقت ایٹم بم بنا نہ سکا اور اب تنہا ہے۔ دنیا کے چوتھے بڑے تیل اور دوسرے بڑے گیس کے ذخائر رکھنے والے ملک کو توانائی کے لیے ایٹم توڑنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان سے تجارتی تعلقات اس کی سخت ضرورت ہیں۔ ہر اس چیز میں اس کا فائدہ ہے جس میں امریکہ کو خفّت ہو۔ عالمی اداروں نے معاونت سے انکار کیا تو اس نے خود پیسوں کا بندوبست کیا۔ معاملات گھمبیر ہیں اور ہر ملک اپنے مفادات کے لیے سرگرم مثلاً سعودی عرب‘ جو ایران کے ایٹمی پروگرام کو عربوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے‘ ایران پر امریکی حملہ چاہتا ہے اور پاکستان کو ایرانی گیس سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ مثلاً روس‘ جو امریکی بے بسی سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے اور مثلاً خود ایران، جس کی خارجہ پالیسی قابلِ غور ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آتش بیاں ایران نے عملاً افغانستان اور عراق میں امریکی مفادات کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا۔ زرداری حکومت گیس کی درآمد کے سلسلے میں اور گوادر پر بالکل درست فیصلے کر رہی ہے لیکن اس کا وقت تو تمام ہو چکا۔ دُعا ہے کہ آنے والے حکمران پاکستان کے مفادکو ملحوظ رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved