جب سے عالمی حالات تبدیل ہوئے ہیں تب سے چند اُبھرتی ہوئی قوتوں میں بہت کچھ بہت تیزی سے پانے کا ذوق و شوق بھی پروان چڑھا ہے۔ راتوں رات بہت کچھ پانے کی تمنّا نے ایسے گل کھلائے ہیںکہ عالمی سیاست و سفارت کا چمن اُن کی ''خوشبو‘‘ سے بے حال ہوا جاتا ہے۔ دور کیوں جائیے، بھارت ہی کی مثال لیجیے۔ امریکا اور یورپ نے بہت سے معاملات میں اپنی دلچسپی کا گراف نیچے لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی تو بھارتی قیادت نے سوچا موقع اچھا ہے، کچھ ہاتھ پیر مار لیے جائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ کچھ طاقتیں گئی ہیں تو ایک نئی طاقت اُبھر کر سامنے آئی ہے۔
علاقائی سطح پر ڈھنگ سے اُبھرنے اور پڑوس کے چھوٹے ممالک کو دبوچنے کی کوشش ابھی پوری طرح کامیابی سے ہمکنار نہیںہوئی تھی کہ بھارتی قیادت نے عالمی سطح پر اُبھرنے کی ٹھان لی۔ اور ایسا کرنے کا وہی نتیجہ برآمد ہوا ہے جو برآمد ہوا کرتا ہے۔ قدم قدم پر دنیا کہہ رہی ہے ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو!
کسی بھی اُبھرتی ہوئی معاشی قوت کے لیے سب سے بڑا امتحان اپنے ہاں ترقی اور خوش حالی کا ایک قابلِ رشک معیار برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ جن ممالک نے پوری دنیا کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اُنہوں نے پہلے اندرونی معاملات درست کیے ہیں۔ امریکا ہو یا یا یورپ، جاپان ہو یا آسٹریلیا، چین ہو یا شمالی کوریا ... سبھی نے پہلے اپنے لوگوں کو بہتر زندگی دی ہے۔ اِس کے بعد ہی وہ دنیا کو کچھ دینے یا متاثر کرنے کی دوڑ میں شریک ہوئے ہیں۔
نئی دہلی کے پالیسی میکرز قدم قدم پر بھول جاتے ہیں کہ ابھی اُن کے اپنے آنگن میں پُھول ڈھنگ سے کِھلے نہیں ہیں اور وہ دنیا کو گلزار کرنے نکل پڑے ہیں۔ بھارت نے نالج ورکرز کی فوج تیار کرکے بڑے پیمانے پر زرِ مبادلہ کمایا ہے۔ صنعتی ڈھانچے نے بھی معیشت کو مضبوط کیا ہے۔ ٹھیک ہے، اِس کے نتیجے میں ملک کی بنیادوںکو مضبوط تو ہونا ہی تھا مگر کیا ملک ،صرف زرِ مبادلہ کمانے اور صنعتی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کا نام ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی کس سطح پر جی رہی ہے۔ بھارت کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہاں عام آدمی اِس طور جی رہا ہے کہ جینے سے نہ جینا بہتر لگتا ہے۔ زمانے بھر کے معاشی اور معاشرتی مسائل پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ آج بھی 90 کروڑ سے زائد بھارتی باشندے ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جسے زندگی کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔
بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ افلاس اور بے روزگاری سے ہٹ کر، تعلیم و صحتِ عامہ کے ساتھ ساتھ پینے کے صافی پانی کا حصول اور صفائی ستھرائی کا بہتر انتظام اب تک ایک بہت بڑا دردِ سر ہے۔ عمومی معیارِ زندگی یقینی بنانے کے لیے جو بنیادی سہولتیں درکار ہوا کرتی ہیں وہ بھی ڈھنگ سے میسر نہیں اور بھارتی قیادت ہے کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کو بے تاب ہوئی جارہی ہے۔
آئیے، ذرا دیکھیں کہ بھارت میں تقریباً 85 فیصد افراد کو رہائش یا سکونت کے حوالے سے کس طرح کی ''سہولتیں‘‘ میسر ہیں۔ نیشنل سیمپل سروے آفس نے 69 ویں راؤنڈ کے سروے میں بتایا ہے کہ جیل مینیوئل کے مطابق کسی بھی قیدی کے لیے جو کم سے کم رہائشی رقبہ (96 مربع فٹ) تجویز کیا گیا ہے اُس سے بھی کم رقبے میں عام بھارتی باشندے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سروے کے مطابق بھارت کے انتہائی پس ماندہ دیہی ماحول میں 80 فیصد سے زائد مکانات ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کا رقبہ 449 مربع فٹ سے زیادہ نہیں۔ دیہات میں اوسط گھرانہ 4.8 نفوس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے ایک فرد کو رہنے کے لیے 94 مربع فٹ سے زیادہ رقبہ میسر نہیں!
نیشنل سیمپل سروے آفس نے بتایا ہے کہ شہری علاقوں میں 60 فیصد سے زائد انتہائی غریب گھرانے عموماً ایسے مکانات میں رہتے ہیں جن کا رقبہ 380 مربع فٹ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ شہروں میں اوسط گھرانہ 4.1 نفوس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ شہری علاقوں میں گھر کے ہر فرد کو رہائش کے لیے میسر رقبہ 83 مربع فٹ سے زیادہ نہیں۔ ایسے میں کیفیت یہ ہے کہ گھر کے بیشتر افراد زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اتنے چھوٹے سے مکان میں کوئی ڈھنگ سوئے گا تو کیا خاک، سانس لینا بھی آزمائش ٹھہرتا ہے! بھارت کے بڑے شہروں میں کھانا پکانے اور کپڑے دھونے کا سسٹم گھر سے باہر رکھنے کا رواج اِسی لیے پروان چڑھا ہے کہ گھر کے اندر تو اِس کی گنجائش ہے ہی نہیں! بیت الخلاء بھی اِسی لیے گھر سے باہر رکھا جاتا ہے اور عام طور پر چار پانچ مکانات کے رہنے والوں کے لیے ایک بیت الخلاء ہوا کرتا ہے۔ کہیں کہیں یوں بھی ہے کہ حکومت نے اجتماعی بیت الخلاء بنادیئے ہیں جو پورے بلاک کے لیے مختص ہوتے ہیں۔یہ تمام معاملات عمومی حالت کے حوالے سے ہیں۔ اور اگر دو چار دن کے لیے تین چار مہمان آجائیں تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں! اُنہیں ٹھہرائیں تو اپنے بیٹھنے کو بھی جگہ نہیں رہتی!
نیشنل سیمپل سروے آفس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے لوگوں (نچلی ذات کے ہندوؤں) کے لیے فی کس دستیاب رہائشی رقبہ بالترتیب 70.3 مربع فٹ اور 85.7 مربع فٹ سے زیادہ نہیں۔ مشرقی ریاست بہار کے دیہی علاقوںمیں فی کس دستیاب رہائشی رقبہ 66 مربع فٹ سے زیادہ نہیں!
اس وقت بھارت کی 15 ریاستوں میں لوگ انتہائی مشکل حالات میں جی رہے ہیں۔ اُنہیں رہائش کے لیے دستیاب رقبہ اس قدر کم ہے اور عمومی حالات اتنے پس ماندہ و حوصلہ شکن ہیں کہ رات کی نیند ڈھنگ سے پوری کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ معمولی سے رقبے والے کمرے میں پانچ چھ افراد سوتے ہیں تو گھٹن بڑھ جاتی ہے اور ڈھنگ سے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہتا۔ اس وقت بھارت کی آٹھ ریاستوں کے شہری علاقوں میں فی کس دستیاب رہائشی رقبہ جیل مینیوئل میں ہر قیدی کے لیے تجویز کردہ رہائشی رقبے سے بھی کم ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ''چمکتا دمکتا بھارت‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے اپنے لوگوں کو کیا دیا ہے اور کس بند گلی میں پھنساکر ایک طرف ہٹ گئے ہیں۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ اور چنئی جیسے بڑے شہروں کے بیشتر افراد حیوانی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی زندگی ایسی ہے جیسے تمام چیزیں نکالنے کے بعد کسی کارٹن کو پھینک دیا گیا ہو! حکومت اُن کے لیے ڈھنگ کی رہائش کا انتظام کر پاتی ہے نہ پانی، بجلی اور ایندھن جیسی بنیادی سہولتوں کا۔ ایسے میں ترقی اور خوش حالی کے دعوے صرف دعوے ہیں۔ عوام کو دعووں سے کیا؟ وہ تو نتائج چاہتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں کوئی بڑی، مثبت تبدیلی آتی ہے تو ٹھیک ورنہ یہ رونق اور شور شرابہ اُن کے کس کام کا۔
حالات ہمارے ہاں بھی بہت اچھے نہیں مگر پھر بھی بہت اچھے ہیں۔ رہائش کا عمومی معیار بالکل یا بہت گیا گزرا نہیں۔ بنیادی سہولتوں کا انتظام بُری حالت میں ہے مگر پھر بھی معاشرتی سطح پر ہم وہ پستی نہیں دیکھ رہے جو پڑوس میں دکھائی دے رہی ہے۔ زیر نظر کالم میں صرف طبعی معاملات کی بات ہوئی ہے۔ معاشرتی، نفسی اور روحانی پستی کا ذکر پھر کبھی سہی۔ انتہائے افلاس بھارت میںجو گل کِھلا رہی ہے اُن کا ذکر کُھل کر کیا جائے تو سُن اور پڑھ کر دل و دماغ کی چُولیں ہِل جائیں!