نجابت اس کی شخصیت میں گندھی ہے۔ وہ سراب کو دریا نہیں کہتی اور دلوں کو فریب دینے والا کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کرتی۔ داتا کے شہر میں‘ کیا اسے ناکام ہونا چاہیے؟
داتا دربار میں جو پیش کیا گیا‘ وہ خسارے کا سودا ہے۔ اہلِ لاہور کے لیے‘ پنجاب کے لیے‘ جمہوریت کے لیے‘ اور خود شریف خاندان کے لیے بھی۔ کوئی دن میں یہ بات واضح ہو جائے گی۔ مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آتی ہے۔ خواہشات کے غلام بھی۔
دلیل وہ سنتا ہے‘ جو جذبات سے مغلوب نہ ہو‘ وگرنہ اس کے لیے، یہ وحشت خیز ہوتی ہے۔ قرائن یہ ہیں کہ اگر باقی ماندہ ایّام میں تحریکِ انصاف کی مہم مربوط رہی۔ دھڑے بندی میں بٹی پارٹی کے تمام رہنما‘ خوش دلی سے شریک رہے تو بالآخر ڈاکٹر یاسمین راشد جیت جائیں گی۔ اگر نہیں تو ووٹوں کا فرق اس قدر کم ہو گا کہ جشن منانے کے لیے ن لیگ کو اداکاری کے جوہر دکھانا ہوں گے‘ معمول سے کہیں زیادہ!
یہ وہی نعرہ فروشی ہے‘ وہی شعبدہ بازی‘ بھٹو نے جسے عروج پر پہنچایا تھا۔ فرق یہ ہے کہ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی تھے۔ عالمی سیاست اور ملک کی سیاسی تاریخ کے شناور۔ شریف خاندان جوڑ توڑ پہ زیادہ انحصار کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی متحرک کارکنوں پہ تکیہ کیا کرتی‘ اپنے لیڈر کو جو دیوتا سمجھتے تھے۔ نون لیگ کے پاس ووٹر تو یقینا ہیں‘ کارکن برائے نام۔ اس لیے کہ وہ کسی نظریے کی حامل نہیں۔
شریف خاندان‘ کبھی پیپلز پارٹی کی مخالفت کا مظہر تھا‘ افواجِ پاکستان کی سرپرستی میں۔ اب وہ عمران خان‘ افواج اور عدلیہ کی مزاحمت کا نام ہے۔ تبدیلی کا جو آ کر رہتی ہے جسے کبھی کوئی روک نہیں سکا۔
اکثریت عدلیہ کی مخالف نہیں۔ فوج کی تو قطعی نہیں‘ سولہ برس سے جو دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہے۔ سیاست میں ننگی مداخلت سے اس کی قیادت نے گریز کیا ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور ان کے دام میں گرفتار‘ سجدہ ریز ہو کر، امن خریدنے کا مشورہ دینے والے‘ اس فوج سے نبردآزما ہیں۔ شریف خاندان کی پذیرائی کا دعویٰ اگر تسلیم کر لیا جائے‘ تب بھی عسکری قیادت کی مقبولیت‘ اس سے کم از کم دوگنا ہے۔ اس کی تحقیر کسی پاکستانی کو خوش نہیں آتی۔ کاغذوں پر لکھا گیا آئین نہیں‘ بلکہ سربکف سپاہی قومی بقا کی ضمانت ہیں۔ آئین تب کارگر ہوتا ہے‘ جب اس کی تقدیس دلوں میں ہو۔ اس سے محبت کی جانے لگے۔
''روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ محترمہ مریم نواز نے رٹی ہوئی تقریر میں کہا تھا‘ تناظر ان کا محدود ہے۔ اتنا محدود کہ جاتی عمرہ اور ایوانِ وزیر اعظم سے باہر کبھی نہ جھانک سکا۔ دربار‘ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ کتنے ہی کشادہ‘ دلآویز اور وسیع ہوں‘ تازہ ہوا کبھی اُدھر نہیں جاتی۔ درباروں میں تصورات اور نظریات کو بھی وردیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ وردی والے ہی گوارا کرنے ہوں تو وہ کیوں نہ کیے جائیں‘ ابتلا اور آزمائش میں جو جانیں ہتھیلیوں پہ رکھتے اور اپنے لہو سے قندیل جلاتے ہیں۔ سیاچن‘ وزیرستان‘ بلوچستان اور کراچی میں‘ جن کے جیتے جاگتے لہو نے ہمیشہ زندہ رہنے والی کہانیاں لکھ دی ہیں۔ دو اور دو چار والے کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ جذبہء شہادت کا طلسم کیا ہوتا ہے۔ اس کا جادو فقط سر چڑھ کے نہیں بولتا بلکہ والہانہ وفور کے ساتھ‘ صدیوں کو محیط ہو جاتا ہے۔ سورج ڈوب بھی جائے تو چاند ستاروں میں چمکتا رہتا ہے۔ درودیوار ہی پر نہیں دمکتا‘ یادوں اور خیالوں میں گندھ جاتا ہے۔ شعور ہی نہیں‘ لاشعور کی وسعتوں میں جگمگاتا رہتا ہے۔ اجتماعی مزاج میں گھل جاتا ہے اور نسل در نسل فروغ پایا کرتا ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو کبھی نہیں بجھتا۔
ایک ایسی فوج کی تحقیر کیسے کی جا سکتی ہے‘ محلّات جس کی دسترس میں ہوں اور وہ ان سے گریز کا کرشمہ کر دکھائے۔ ان عدالتوں کی تذلیل کس طرح ممکن ہے‘ جن کے امین ثابت قدم اور اجلے ہوں۔ بادشاہوں کی عظمت و شوکت کو جو صداقت شعاری سے حقیر کر دکھائیں۔ جسٹس کھوسہ کے لیے‘ دعا کے بے شمار ہاتھ بلند ہیں اور پاک فوج کی تکریم بے پایاں ہے۔
یہ مسلمان قوم کا مزاج ہے کہ اپنے سالاروں سے وہ محبت کیا کرتی ہے‘ الّا یہ کہ حماقت کے وہ مرتکب ہوں‘ تکبر کا شکار ہو جائیں اور کوسِ لمن الملک بجانے کی کوشش کریں۔ سوچنے سمجھنے والے کو‘ اب یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ جلال‘ زعم اور تکبر کا مظاہرہ کون فرما رہا ہے؟ کس کے لہجے میں انکسار ہے اور کون دیوتائوں کی بولی بولتا ہے؟
محترمہ مریم نواز پہ اللہ رحم کرے‘ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے مزار پر وہ کھڑی تھیں‘ اقبالؔ نے جنہیں مخدومِ امم کہا تھا... امتوں کا سردار! ایک بار بھی مگر ''انشاء اللہ‘‘ کہنے کی توفیق انہیں ارزاں نہ ہو سکی۔ کس چیز کی یہ نشانی ہے؟ ناگہانی آفت ایسی شکست یا رفتہ رفتہ بتدریج پیچھے دھکیل کر‘ پسپا کر دینے والی ناکامی۔ دوسری صورت اور بھی اذیت خیز... اور بھی عبرتناک ہوا کرتی ہے۔
جی ہاں! یہ داتا کی نگری ہے۔ آج بھی اس کے دروبام پہ کچھ روشنی اگر باقی ہے۔ اس کے خستہ گھروندوں یا چمک دار دولت کدوں میں‘ میزبانی کا کچھ ذوق کارفرما ہے‘ تو اس میں ان کا حصہ ہے جو سراپا الفت اور سراپا انس تھے۔ جو ایثار کے بنے تھے، برگد کی طرح سایہ دار۔ اس کا مگر کیا جواز کہ پھوٹوہار کی ڈسپنسریوں اور جنوب کے قبرستانوں کا رزق داتا نگری میں چمک دمک پہ لٹا دیا جائے؟ اہلِ لاہور کیا ایسے خود غرض ہیں کہ سب دیاروامصار میں لوگ بھوک کاٹیں اور ان کے لیے سطوت کے مینار تعمیر کیے جاتے رہیں۔ کیا وہ ایسے ہیں؟
حلقہ 120 کے ہزاروں مساکین کو سرکاری ملازمتیں اس لیے نہیں بخشی گئیں کہ شریف خاندان کو ان سے والہانہ محبت ہے۔ ایسا ہوتا تو شاہدرہ کی گلیوں میں عشروں سے گندا پانی نہ بہا کرتا۔ ان سب کی رگوں میں ایک سا خون ہے۔ ان کی امنگیں اور امیدیں‘ وہی ایک ہیں۔ یہ کیا کہ لکیر کے اس طرف دست سخا‘ سرکاری خزانے میں‘ حاتم طائی کا ہاتھ ہو جائے۔ لکیر کی دوسری طرف بخیل کا تنگ و تاریک دل۔ اہلِ لاہور کو لاہور کے نام پر اکسانے کی تاویل اس قدر بودی ہے کہ درودیوار سے ٹکرا کے گر پڑے گی۔ کوڑا کرکٹ کی طرح سمیٹ کر پھینک دی جائے گی۔
ڈاکٹر یاسمین راشد میں کوتاہی کہاں ہے؟ خاندان ان کا معزز ہے اور زندگی ان کی صاف ستھری۔ لیڈر کے لیے یہ کیوں ضروری ہے کہ ہٹو بچو کی صدائوں کے درمیان سے پیدا ہو۔ درباریوں کے جھرمٹ میں جاگے اور محلّات میں بسر کرے۔ ایثار ہی اگر پیمانہ ہے تو اس معالج کی سیرت مثال سے کم نہیں۔ انکسار اگر وصف ہے تو اس کے ہم رکاب ہے۔ جرأت اگر معیار ہے تو کس امتحان میں یہ سادہ مزاج خاتون اس سے محروم ہوئیں؟
''اپنی ماں کو جتائو گے؟‘‘ داتا دربار کے باہر سوال کیا گیا۔ جی جناب! محترمہ کلثوم نواز بھی ایک ماں ہیں مگر ممتا کے تیور ڈاکٹر یاسمین میں زیادہ ہیں، اور ایک بے ساختگی کے ساتھ۔ ان کی ماں مسیحا تھیں‘ ان کی صاحبزادی بھی معالج ہیں۔ اس معصومیت اور حیرت کے ساتھ وہ زندگی کرتی ہیں‘ جو بچوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ بڑوں میں ہو تو ایک عجب شانِ دلآویزی عطا کرتی ہے۔
مشاورت تو ڈاکٹر یاسمین راشد بھی کرتی ہوں گی۔ تمام ہوش مند کیا کرتے ہیں۔ ذہنی قلیوں کی لکھی ہوئی تقاریر کی بجائے، وہ اپنے دل کی بات کہتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے‘ اثر رکھتی ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکومتیں ایک طرف ہیں اور اپنے بل پر زندگی بسر کرنے والی ایک ماں‘ ایک بہن اور ایک بیٹی دوسری طرف۔ ملکہ عالیہ بھی ماں ہیں مگر یاسمین تو سر تا پا ماں ہی ماں ہیں۔ اہلِ لاہور ان میں سے کس کا انتخاب کریں گے؟
نجابت اس کی شخصیت میں گندھی ہے۔ وہ سراب کو دریا نہیں کہتی اور دلوں کو فریب دینے والا کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کرتی۔ داتا کے شہر میں‘ کیا اسے ناکام ہونا چاہیے؟