پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں وہ کونسی شخصیت ہے؟ جو نگران وزیراعظم بننے کے لیے مطلوبہ شرطیں پوری کر سکتی ہے؟ 20ویں آئینی ترمیم کے تحت وہ شرطیں یہ ہیں۔ حکمران جماعت اور پارلیمانی اپوزیشن دونوں اس کے نام پر متفق ہو جائیں۔اگر ایسا نہ ہو‘ تو ایک پارلیمانی کمیٹی ‘ جس میں دونوں یعنی حکمران جماعت اور اپوزیشن کے فراہم کیے گئے‘ دو ناموں میں سے کسی ایک پر متفق ہو جائیں۔ کمیٹی میں دونوں جماعتوں کے اراکین کی تعداد برابر ہو گی۔ اگر کمیٹی میں بھی اتفاق رائے نہ ہو تو وزیراعظم کے انتخاب کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر آ جائے گی۔ اسے دو دن کے اندر ایک نام کے حق میں فیصلہ کرنا ہو گا۔ یہاں سے آگے آئین کوئی راستہ تجویز نہیں کرتا۔ تمام ترسمجھداریوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تلخ تجربوں کو یاد رکھتے ہوئے‘ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے یہ راستہ کھلا کیوں چھوڑ دیا؟ ناقابل فہم ہے۔ اگر دونوں جماعتوں کی قیادت کسی نتیجے پر نہیںپہنچتی‘ تو پھر پارلیمانی کمیٹی جس میں دونوں کی نمائندگی برابر ہو گی‘ وہ کیسے ایک امیدوار کے نام پر متفق ہو سکتی ہے؟ کمیٹی کے اراکین آزاد اور خودمختار نہیں ہوں گے۔ ان کا انتخاب پارٹی لیڈرشپ کرے گی اور اتنے اہم کام کے لیے کوئی بھی سیاسی قیادت لازماً اپنے انتہائی قابل اعتماد اراکین کو منتخب کرے گی۔ یہ اراکین اپنی قیادتوں کے موقف سے علیحدہ کوئی تجویز نہیں دے سکتے۔ اگر قیادت میں اتفاق نہیں ہوتا‘ تو کمیٹی بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی واحد وجہ غوروفکر کے لیے مزید وقت کا حصول ہے تاکہ معاملے کو بگڑتا دیکھ کر دونوں پارٹیوں کی قیادتیں امکانی خطروں کا اندازہ کر لیں اور زیرِ غور ناموں میں سے کسی ایک نام پر متفق ہو جائیں۔ کمیٹی کے پاس اپنا فیصلہ دینے کے لیے صرف تین دن کی مہلت ہو گی۔ عملی طور پر دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو نظرثانی کے لیے یہ تین دن براستہ بٹھنڈہ دے دیے گئے ہیں تاکہ اگر وہ نادیدہ خطروں کو نظرانداز کر کے کوئی غلطی کر بیٹھی ہیں‘ تو تین دن کی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لیں اور کسی ایسے امیدوار پر متفق ہو جائیں‘ جو انہیں دوسرے کی نسبت زیادہ قابل قبول ہو۔ ایسی صورت میں کمیٹی میں شامل دونوں پارٹیوں کے اراکین کو ہدایت دی جا سکتی ہے کہ وہ ایک نام پر متفق ہو جائیں۔ کیونکہ یہیں تک معاملہ ان کے ہاتھ میں رہتا ہے اور اگر کمیٹی میں بھی اتفاق رائے نہ ہوا‘ تو پھر معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اب ذرا الیکشن کمیشن کی صورتحال بھی دیکھ لیں۔ جب آئینی ترمیم کی گئی تھی‘ تو یہ سمجھا گیا ہو گا کہ دونوں کے اتفاق رائے سے مقرر کیا گیا چیف الیکشن کمشنر غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گااور حقیقت پسندی اور سچائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ دے گا۔ جس وقت موجودہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے نام پر اتفاق کیا گیا‘ تو یقینی طور پر وہ دونوں جماعتوں کے قابلِ اعتماد امیدوار تھے۔ لیکن تقرر کے بعد ان کے چند روزہ طرزکار سے دونوں طرف شکایتیں پیدا ہونے لگیں اور ایک موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے چیف الیکشن کمشنر پر اپنا غصّہ بھی نکال دیا۔ سب جانتے ہیں کہ غصّہ خط پر نہیں تھا۔ غصّے کی وجہ اور تھی۔ ہو سکتا ہے وہ پیش بندی پر مبنی کسی دبائو کا حصّہ ہو۔لیکن نتائج برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔یاد رہے فخرو بھائی کا نام ن لیگ نے تجویز کیا تھا۔ فخرالدین جی ابراہیم اپنی ساکھ اور اپنے وقار کے لیے استعفیٰ دینے میں ذرا نہیں جھجکتے۔ ان کی بطور چیف الیکشن کمشنر چند روزہ کارکردگی کے حوالے سے بعض حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات سامنے آ رہے ہیں‘ فخروبھائی کے لیے وہی کافی ہیں اور اگر معاملہ ان کے ہاتھ میں آنے کے بعد‘ آپس میں لڑتی بھڑتی جماعتوں میں سے کسی ایک یا دونوں نے شک کا اظہار کر دیا‘ تو فخروبھائی استعفیٰ دے کے چلتے بنیں گے۔ اس صورتحال کے لیے آئین میں کوئی راستہ تجویز نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہو گیا‘ تو آئین کے مطابق آگے چلنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومتی اختیارات ختم ہو چکے ہوں گے۔ دو چار روز کی حکومت بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی اور ایسا ہو گیا‘ تو سمجھ لیجیے کہ ڈیڈلاک آ گیا۔ آئین اس ڈیڈلاک سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ فراہم نہیں کرتا۔ آئین کی خاموشی اور سیاسی ڈیڈلاک کی حالت میں صورتحال پر کنٹرول کرنے کی طاقت کہاں ہے؟ یہ دو ہی جگہ نظر آتی ہے۔ ایک سپریم کورٹ آف پاکستان اور دوسری جی ایچ کیو۔ ایک طاقت کے پاس آئین کی تشریح و تعبیر کا حق ہے اور دوسری کے پاس اقتدار سنبھالنے کی طاقت ہے۔ پہلی طاقت بروئے عمل آئے‘ تو اس کے فیصلے کو ہی آئینی قرار دینا پڑے گا۔ہرچند سپریم کورٹ کو ایسے معاملات میں فیصلہ دینے کا حق نہیں ‘ جن پر آئین خاموش ہو۔ لیکن آئین میں درجنوں شقیں ایسی ہیں‘ جنہیں گھما پھرا کے سپریم کورٹ کے اختیارات کا جواز نکالا جا سکتا ہے۔ مجھ میں یہ اہلیت نہیں کہ اتنے نازک اور پیچیدہ سوال کا جواب ڈھونڈ سکوں۔ محدود علم اور تجربے کی روشنی میں صرف تیر یا تُکا قسم کا حل دے سکتا ہوں اور وہ بہت آسان ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے سوال یہ ہو گا کہ کیئرٹیکر وزیراعظم کے انتخاب کے لیے جو تین مرحلے رکھے گئے تھے‘ ان تینوں میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ لہٰذا عدالت عظمیٰ آئینی خلا کی اس صورت میں آئین کی فلاں فلاں دفعہ کو ملا کر پڑھتے ہوئے‘ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آئینی خلا کی یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور اگر فوری طور پر کیئرٹیکر پرائم منسٹرذمہ داریاں نہیں سنبھالے گا‘ تو ایک بہت بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا عدالت فلاں شخص کو شخص کو کیئرٹیکر وزیراعظم بنانے کا حکم دیتی ہے۔ اس کے بعد تمام راستے کھل جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس نام کو نہیں مانتیں‘ تو اپنے لیے طویل مدت کی صحرانوردی کا انتخاب کریں گی اور کیئرٹیکر وزیراعظم کے لیے‘ نہ صرف اس کے اقتدار کی مدت میں اضافے کا جواز پیدا ہو جائے گا بلکہ جمہوریت کی رخصت کی راہیں بھی خود نکل آئیں گی۔ دوسری طاقت جی ایچ کیو ہے۔ میرا خیال ہے کہ عدالتی مداخلت کا راستہ زیادہ قابل قبول ہو سکتا ہے۔ جی ایچ کیو گزشتہ پانچ سالہ شہرت کی موجودگی میں ‘ بری شہرت کا پرانابوجھ کیوں اٹھائے گا؟ پچھلے پانچ سال اس نے یہ بوجھ اٹھائے بغیر اچھی طرح گزارے ہیں۔باربار کے تلخ تجربوں کے بعد‘ یہ بہترین طریقہ دریافت کیا جا سکا ہے۔ 90ء کے عشرے میں اسے کامیابی سے آزمایا گیا تھا۔ افسوس کہ اس طریقے کو اختیار کرنے والے فوجی رہنما‘ ہنرمندی کا ثبوت نہیں دے سکے۔ اگر وہ صبر سے کام لیتے اور منتخب حکومتوں کواپنی مقررہ مدت تک کام کرنے دیتے تو انتظام اچھی طرح چل سکتا تھا۔ لیکن جنرل حضرات کی سیاسی بے ہنری اور بے صبری کے نتیجے میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اگر جنرل پرویزمشرف کارگل کا پنگا نہ لیتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ نوازشریف نہ صرف ‘انہیں اپنی ملازمت پوری کرنے کا موقع دیتے بلکہ مشرف اپنی حدود میں رہ کر طاقت کا استعمال کرتے رہتے تو انہیں توسیع بھی مل سکتی تھی۔ جنرل کیانی نے ماضی کے تجربات کا گہرے غوروفکر کے ساتھ تجزیہ کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت اور حکومت انہیں‘ ساتھ ساتھ چلا رہی ہے۔ جنرل کیانی کا یہ کامیاب تجربہ‘ آنے والی فوجی قیادت کو یقینا متاثر کرے گا۔ آخر میں ایک اور مشکل کا ذکر بھی مناسب ہو گا۔ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی باہمی محاذآرائی کی وجہ سے آئی ایم ایف شدید الجھن میں مبتلا ہے۔ جس کا اندازہ اس اشارے کی صورت میں سامنے آیا ہے‘ جو اس نے پاکستان کو مالیاتی بحران سے نکالنے کے نام پر دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کی امید ظاہر کی‘ جو عالمی مالیاتی اداروں میں اپنی ساکھ رکھتا ہو۔ معین قریشی اسی صورتحال میں آئے تھے۔ آج پھر وہی صورتحال ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے مابین باہمی تعاون کی امیدیں روزبروز کم ہوتی جا رہی ہیں اور عالمی ساکھ رکھنے والے مالیاتی ماہرین کے جتنے نام سامنے آئے ہیں‘ ان پر اتفاق رائے ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ این جی اوز کی برادری سے چُنے گئے‘ کسی وزیراعظم میں عالمی مالیاتی اداروں کو دلچسپی نہیں۔ ---------------
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved