نوازشریف سے جنگ شروع نہیں کی‘ ابھی مدد کر رہا ہوں: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف سے جنگ شروع نہیں کی‘ ابھی مدد کر رہا ہوں‘‘ کیونکہ وہ بھی حسب توفیق مدد ہی کر رہے ہیں جس کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں کہ سب کچھ عوام کے سامنے ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ نوازشریف کی طرح عوام کو بھی سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے‘ چنانچہ امید ہے کہ جنگ کی نوبت بھی نہیں آئے گی کیونکہ ابھی دونوں طرف متعدد مسائل باقی ہیں جنہیں رفتہ رفتہ حل ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی‘‘ بلکہ میرے علاوہ دیگر معززین مثلاً یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک اور دیگر زعماء کرپشن کے خلاف جنگ لڑتے رہے جس میں ناکام رہنے کے بعد ہم نے بھی اس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور مجبوراً اس کی اطاعت قبول کر لی۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن کرنا اب مشکل ہو گیا ہے‘‘ لیکن مرد مومن کے لیے کوئی مشکل مشکل نہیں ہوتی اور اس میں سے آسانی کا راستہ نکال ہی لیتا ہے‘ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ؎
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے اس کے اندر ڈائیلاگ کے لیے تیار ہوں‘‘ جبکہ دھرنے کے دوران بھی پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے نتیجے میں نوازشریف مضبوط ہو گئے چنانچہ اب انہیں پہلے سے بھی زیادہ لاغری اور نقاہت لاحق ہے جس کے لیے کچھ کرنا ہی پڑے گا بشرطیکہ وہ بھی ہمارے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتے رہیں کیونکہ ابھی دونوں طرف بہت سا کام پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ' 'کوئی بھی گواہ میرے خلاف بیان دینے کو تیار نہ ہوا‘‘ کیونکہ ادھر میں بھی تیار بیٹھا تھا اور اس طرح اُن کا بندوبست بھی ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے چوبیس سال قید کاٹی‘‘ لیکن میرے حوصلے اب بھی جوان ہیں اور پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر کارنامے سرانجام دے سکتا ہوں‘ صرف موقعہ ملنے کی دیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا‘‘ کیونکہ ہم دیگر مفید کاموں ہی میں اس قدر مصروف تھے کہ اس بیکار کام کی طرف توجہ ہی نہیں تھی کیونکہ منافع کو چھوڑ کر گھاٹے کا سودا کون کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مفاہمت کی سیاست ہی کی وجہ سے جمہوریت پروان چڑھی ہے‘‘ اور یہ محض اتفاق ہے کہ ساتھ ساتھ ہم دونوں بھی پروان چڑھ گئے ہیں اور ساری دنیا کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''لغاری دور میں گرفتار کرنے والوں نے میرے ساتھ لنچ کیا‘‘ اور میں اپنے دشمنوں کو عام طور پر لنچ ہی کی مار دیا کرتا ہوں یا ڈنر کی۔ انہوں نے کہا کہ ''اپنے دور میں کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ تاریخ مجھے بھول جائے‘‘ بلکہ گیلانی صاحب اور دیگر زعما کے ساتھ مل کر ایسے ایسے کام کئے کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے جس کے لیے سنہری روشنائی میں مہیا کرنے کو تیار ہوں اور مؤرخوں کو روزانہ لنچ اور ڈنر بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ کرپشن ہے کیا‘‘ کیونکہ مرد تو اچھی طرح سے سمجھ گئے
ہیں اورکبھی ہمارے دام میں نہیں پھنسیں گے اور ہمیں بھی اب ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ کے فضل سے اتنا دال دلیا کر لیا ہے کہ قیامت تک کھلا گزارا ہوتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کا پیسہ چوری ہو رہا ہے‘‘ حالانکہ ہم نے ملک کو اس آلائش سے کافی حد تک پاک کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ساری دنیا جانتی ہے کہ آصف علی زرداری ڈاکو ہے اور اسے چھوڑ دیا گیا‘‘ کیونکہ ویسے بھی یہاں چھوٹے موٹے چوروں پر ہی ہاتھ ڈالا جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اب یہاں ڈاکوئوں کو پکڑنے کا رواج پڑتا جا رہا ہے لیکن ہمیں کوئی خطرہ نہیں کیونکہ نہ ہم نے اقتدار میں آنا ہے اور نہ ہی اس طرح کی صورتحال پیدا ہونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قرضے لینے سے ملک مقروض ہو جاتا ہے‘‘ اور یہ کیسی پتے کی بات بتا رہا ہوں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں‘ میں ایسے انکشافات کرتا ہی رہتا ہوں کیونکہ یہ بھی نیکی کا کام ہے اور اُمید ہے کہ یہ بھی میری سابق اور بڑی بڑی نیکیوں میں شمار کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''تفتیش کا ایکسپرٹ ہوں‘‘ اسی لیے اتنی تفتیش اتنی کامیابی سے بھگتا چکا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
میرے خلاف کرپشن ثابت ہو جائے
تو عوام میرا گریبان پکڑ لیں : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''میرے خلاف کرپشن ثابت ہو جائے تو عوام میرا گریبان پکڑ لیں‘‘ کیونکہ کرپشن کا ثابت ہو جانا کوئی کھیل نہیں ہے اور اگر خدانخواستہ ثابت ہو بھی جائے تو عوام میں سے جس میں ہمت ہو وہ آ کر میرا گریبان پکڑ لے اور اس کے بعد جو کچھ اس کے ساتھ ہو گا اس کا اسے خود بھی اندازہ ہونا چاہیے‘ تاہم میں اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کروں گا کیونکہ میں گریبان پکڑنے کی دعوت دے چکا ہوں اور اُسے جواب میں کچھ کہوں گا بھی نہیں کیونکہ کہنے اور کرنے والے اور جو بہت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عوام کی عدالت میں سرخرو ہوں گے‘‘ اور اگر اس سے بھی پہلے عدلیہ کے ہتھے چڑھ گئے تو بھی ہم اپنے آپ کو سرخرو ہی سمجھیں گے کیونکہ اقتدار اگر انسانوں کے لیے ہے تو جیلیں وغیرہ بھی انسانوں ہی کے لیے بنی ہیں اور کم از کم ہمارے انسان ہونے میں تو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں۔ آپ اگلے روز صوبائی کابینہ کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے ہمارے دوست احمد جلیل کا یہ شعر :
غیر حاضر کو بھی موجود ہی سمجھا جائے
عشق ہے سارا زیاں‘ سُود ہی سمجھا جائے
آج کا مطلع
آدابِ محبّت جو نبھانے کے لیے تھے
ثابت ہُوا آخر کہ دکھانے کے لیے تھے