تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-09-2017

جنگل

نواز شریف اگر اپنے سب سے بڑے محسن ضیا ء الحق اور اپنی منہ بولی بہن بے نظیر کے قتل کی تفتیش نہیں کرتے۔ آصف علی زرداری اگر اپنی کل متاع خاک ہونے پہ پریشاں نہیں ہوتے۔ قاتل نہیں ڈھونڈتے تو بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل کیونکر انہیں سونپا جا سکتا ہے؟
کچھ دن بیت چکے تھے کہ ایک ممتاز اخبار نویس جنرل نصیراللہ بابر سے ملنے گیا۔ پوچھا کہ وہ زرداری صاحب سے تعزیت کرنے کیوں نہ گئے؟ ان کا جواب یہ تھا: کیا میں قاتلوں سے تعزیت کروں؟ 
1995ء کے کراچی میں جنرل نے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ۔ پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی شہ رگ کو انہوں نے آزاد کرایا۔ فوراً بعد میاں محمد نواز شریف برسرِ اقتدار آ کر اگر قاتلوں کو معاف نہ کر دیتے تو ملک شاید تبھی عفریت سے نجات پا لیتا۔ اس لافانی کارنامے کے باوجود مرحوم کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے خوفناک اور وسیع آپریشن کی منصوبہ بندی اور خود کش بمباروں کا بندوبست زرداری صاحب کے بس کی بات نہیں تھی۔ بھنک بھی پڑ جاتی تو جان کے لالے پڑ جاتے۔ ہاں مگر قاتلوں کو چھپانے کی ڈٹ کر کوشش کی ۔ ادنیٰ صلاحیت اور ادنیٰ شہرت کے رحمٰن ملک کو وزارتِ داخلہ سونپی گئی۔ ایکسٹرا کو ہیرو کون بناتا ہے؟ اب تک اپنی رنگ برنگی نکٹائیوں کی نمائش وہ کرتے چلے آئے ہیں۔ اپنی خیرہ کن کامیابیوں پر ان کی مسرت چھپائے نہیں چھپتی۔ 
معاشرہ ژولیدہ فکری اور مایوسی کا شکار ہو کر فرار کی راہ اختیار کرتا ہے تو ایسے ہی کردار ابھرتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دھوکہ دینے پر تلی، ایک خود فراموش سوسائٹی۔ لیاقت باغ سے، موصوف فرار ہوئے اور کبھی کوئی جواز پیش نہ کر سکے۔ کچھ دیر بعد ٹیلی فون پر کسی نے بات کی تو فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ میں محفوظ ہوں اور بی بی بھی۔
زرداری ان سے نالاں تھے مگر چند دن بعد انہیں اپنے نئے لیڈر کے جوتوں کے تسمے باندھتے دیکھا گیا۔ ایک رفیق نے جب تعجب کیا تو کہا: یہاں کیا کیمرے نصب ہیں؟ باہر تو اپنی ہی ٹھاٹ باٹ ہے... اس آدمی کو تفتیش میں کیوں شامل نہ کیا گیا جو بیتے برسوں کا محرم تھا۔ 
آصف علی زرداری جانتے بہت کچھ تھے۔ علی الاعلان کہا تھا: قاتلوں کو میں جانتا ہوں۔ مجھ سے ان کا نام نہ پوچھو، میرا ساتھ دو۔ ایک ایسا شخص موجود تھا ، جو قتل کے محرکات سے واقف تھا اور شاید قاتلوں سے بھی۔ پوچھ گچھ ہوتی تو اس قدر یقینی معلومات ضرور مل جاتیں کہ قاتلوں کا سراغ ممکن ہو جاتا۔ یہ پیپلز پارٹی کا شہنشاہ نامی رکن تھا۔ باریک بین اور متجسس لوگوں نے لیاقت باغ جلسے کی روداد فلم کے فیتے پر انہماک سے دیکھی تو اسے مشکوک پایا بلکہ اس سے بہت زیادہ۔ بالکل واضح طور پر وہ کچھ کر گزرنے اور ایک بار تو گلا کاٹنے کا اشارہ دے رہا تھا۔ اس آدمی کو آزاد کیوں چھوڑ دیا گیا؟ پورے ملک میں وہ گھومتا پھرتا رہا۔ کسی نے اس سے تعرض نہ کیا؛ حتیٰ کہ پُراسرار انداز میں وہ قتل کر دیا گیا۔ اس سے پوچھ گچھ کیوں نہ ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پھر اس کے قاتلوں کا سراغ لگانے کی سرتوڑ سعی کیوں نہ ہوئی۔ اس رسان سے معاملے کو فراموش کیسے کر دیا گیا؟ 
کیا جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو کے قاتل ہیں؟ ان کا لہجہ تو کچھ اور کہتا ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ذرا سی جھجک اور تامل کا شکار وہ نہیں ہوتے۔ جنرل کے حق میں سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ قتل کے واقعہ سے ایک شام پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ کو انہوں نے خاتون کے پاس بھیجا۔ مطلع کیا گیا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ جلسہ گاہ میں جانے سے وہ گریز کریں۔ محترمہ کی جان لینے کے اگر وہ درپے تھے تو کسی عام افسر نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا کرتا دھرتا ان کے پاس کیوں جاتا۔ باور کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں وہ اپنی نوعیت کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔ مشرف کے مخالفین کا کہنا البتہ یہ ہے کہ جس طرح کی سکیورٹی محترمہ کو دی جانی چاہیے تھی، وہ اس نے نہیں دی بلکہ بعض کے مطابق سکیورٹی کو بارگیننگ آلے کے طور پر استعمال کیا۔ 
یہ تو آشکار ہے کہ سب کے سب لوگ، خصوصاً آصف علی زرداری قاتلوں کی پردہ پوشی کا تہیہ کر چکے تھے۔ اقوامِ متحدہ کا کمیشن کیوں بنایا گیا؟ ان اجنبیوں کو گھسیٹ کر اس معاملے میں کیوں لایا گیا، جو اس دیار کے خم و پیچ اور نشیب و فراز سے واقف ہی نہ تھے۔ پھر قاتلوں کا سراغ لگانے کی بجائے، انہیں محض پسِ پردہ عوامل کا تعین کرنے کے احکامات کیوں دئیے گئے؟ پھر اس کے بعد تفتیش آگے کیوں نہ بڑھی؟ 
ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ، سندھ میں سب سے زیادہ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشتعل ہجوم سرکاری عمارتوں پہ پل پڑے۔ بینک لوٹ کر تباہ کر دئیے گئے ۔ راہ چلتے ٹرک نذرِ آتش ہوئے۔ ریلوے سٹیشنوں کی ایک صدی پرانی عمارتوں کو آگ کے شعلے آزادی سے چاٹتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور لیاقت علی خان کی شہادت سمیت ، اس طرح کا ردّعمل تو کبھی نہ آیا تھا۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے ہنگام اس وقت بھی نہیں، جب پولیس پسپا ہو گئی تھی ۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے بعد میں سراغ لگایا کہ ایک یورپی خفیہ ایجنسی کے مقامی کارندے اس کارِ خیر میں پیش پیش تھے۔ وہ ملک ، جہاں ہمارے کئی لیڈر براجتے اور آسودگی پاتے ہیں۔ جو بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے خفیہ مذاکرات کا موید تھا۔
قرائن یہ کہتے ہیں کہ معاملے کا تعلق افغانستان اور خطے میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے والوں سے تھا۔ مغرب کی مخالف تو بے نظیر بھٹو بھی نہ تھیں۔ مگر اس سطح کی آلہء کار وہ کبھی نہ بنیں ، جس طرح دوسرے بنے ، اقتدار کی بھوک میں جو مرے جاتے تھے۔ غیر ملکیوں سے بھرے جہاز اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترتے اور شب کی تاریکی میں گم ہو جاتے۔ وہ لوگ اقتدار میں تھے، سالہا سال جنہوں نے امریکہ میں بتائے تھے اور وہ بھی حسین حقانی کی معیت میں ۔ حقانی کے بارے میں کیا کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟ 
بیت اللہ محسود؟ نصیراللہ نے پیام بھیجا تو اس نے کہا تھا: میں نے قتل کی دھمکی ہرگز نہیں دی۔ اگر وہ قاتل تھا تو گرفتاری کا منصوبہ بنانے کی بجائے قتل کیوں کر دیا گیا؟ ہر طرف ہر سراغ مٹا دیا گیا۔ فلم میں قاتلوں کے جو سائے نظر آتے ہیں، ان کی بدن بولی قبائلیوں سے بالکل ہی مختلف ہے۔ ایسے حساس کوچے میں بیت اللہ محسو د کے لوگ کیسے پناہ پا سکتے تھے؟ 
الیکشن 2008ء کے بعد کون غیر ملکی پاکستان میں دندناتے رہے؟ ان کے کارندے کون تھے؟ ان کے وکیل کون؟ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔ 
اگر کوئی حقائق سے چشم پوشی کا عزم ہی کر لے؟ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کا سامنا کرنا ہوتا ہے، تب وہ اپنے بھید کھولتی ہے۔ تب کھلتا ہے کہ بحرانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ تب آشکار ہوتا ہے کہ المناک حادثوں کی تاریکی سے سویر پھوٹ سکتی ہے۔ حقائق کا ادراک ہی معاشروں کی منزل مرتب کرتا ہے ۔ وگرنہ جنگل ہی جنگل، ریت ہی ریت۔
نواز شریف اگر اپنے سب سے بڑے محسن ضیاء الحق اور اپنی منہ بولی بہن بے نظیر کے قتل کی تفتیش نہیں کرتے۔ آصف علی زرداری اگر اپنی کل متاع خاک ہونے پہ پریشاں نہیں ہوتے۔ قاتل نہیں ڈھونڈتے تو بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل کیونکر انہیں سونپا جا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved