تاخ تڑاخ …تحریک انصاف کے اندرونی الیکشن کا جمہوری تھپڑ‘سیلف میڈ دونمبر جمہوری چیمپئنز کے پھولے ہوئے گلابی گالوں پر پانچوں انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا ہے۔ یہ ہے حقیقی تبدیلی کا اعلان جو پاکستان کے غلیظ سیاسی کلچر کا سارا کچرا بہالے جائے گا کہ اب اجارہ دار دکاندار سیاستدانوں کو بھی نامزدگیاں یعنی حرامزدگیاں چھوڑ کر انٹرا پارٹی الیکشنز کی طرف جانا ہوگا اور جواپنی محنت وہمت کے بل بوتے پر پارٹی عہدہ حاصل کرے گا وہ ان ٹکے ٹکے کے فلوکیے لیڈروں کا جی حضوریا نہیں ہوگا۔ یہ جو ’’قدم بڑھائو‘‘ ٹائپ خوشامدیئے اپنی اپنی لیڈر شپ کے تلوے چاٹ کر ٹھاٹھ باٹ سے اپنی پارٹیوں میں مختلف عہدے اچک لیتے ہیں، ان سیاسی اچکوں کے لیے بھی آنے والا وقت بہت مشکل ہوگا کہ تحریک انصاف نے پارٹی کے اندر جینوئین جمہوریت کا جن بوتل سے نکال کر ایک نئی رسم ڈال دی ہے اور اب ہرسیاسی پارٹی کا ورکر توقع کرے گا کہ اس کی لیڈر شپ بھی عمران خان کے نقش قدم پر چلے۔ تحریک انصاف لاہور کے انٹراپارٹی الیکشن کے نتائج سنٹرل پنجاب کے انتخابات پر اثر انداز ہوں گے، سنٹرل پنجاب کے نتائج پنجاب کو متاثر کریں گے اور پنجاب کے نتائج کا اثر پورے پاکستان پر محسوس ہوگا تو ’’گرینڈ ٹوٹل‘‘ کا اندازہ لگانے کے لیے کسی گرینڈ وزڈم کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف سندھ میں ڈینٹ ڈالنے کا شوق پالنے کی بجائے پلٹ کر پنجاب پر نظر ڈالیں جو بند مٹھی سے کھسکتی ریت کی طرح ہاتھ سے نکلا سمجھو کہ اب اس کے رستے میں نہ لیپ ٹاپ نہ سولر لیمپ نہ جنگلا بس…’’بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب۔‘‘’’ترالٹیاشہر بھمبورنی سسیٔے بے خبرے‘‘ کہ اشارہ میرا بھمبور نہیں لاہور کی طرف ہے اور مخاطب بھی سسی نہیں میاں نواز شریف ہے۔ پنجاب میں سچ مچ کی اکلوتی گراس روٹ پارٹی‘ تحریک انصاف لاہور کے نومنتخب عہدیداروں کے لیے میرا محبت بھرا مشورہ یہ ہوگا کہ خود چل کر ہارے ہوئے دوستوں ساتھیوں کے پاس جائیں اور انہیں ساتھ لے کر چلیں کہ ان کا اصل مقابلہ بہت ہی ’’تجربہ کار‘‘ مافیاز کے ساتھ ہے جو بار بار اقتدار میں رہنے کے سبب سسٹم اور اس کی کمزوریوں کے بھیدی ہی نہیں بلکہ ہرجگہ ان کے طفیلیے اور لابیے موجود ہیں جو صورت حال کو ریورس کرنے کے لیے بے عزتی کی ہرحدعبور کرنے پر تیار ہوں گے کہ مسئلہ ان کے اپنے سروائیول کا ہے ۔ پارٹی کے اندر الیکشن کی روایت پارٹی ہیڈز کی سیاسی غنڈہ گردی ختم کرکے ورکرز کی عزت واہمیت کے عہد کا آغاز ہوگا۔ دیگر مقبول جماعتوں کے جینوئین سیاسی ورکرز سے بھی میری اپیل ہوگی کہ اپنی اپنی پارٹیوں کے اندر بتدریج دبائو بڑھانا شروع کریں تاکہ اپنے پسندیدہ چمپوئوں اور خوشامدیوں میں پارٹی عہدوں کی ہڈیاں اور چھیچھڑے بانٹنے کا رواج ختم ہو اور بھائی، بھتیجے ، سالے، بہنوئی ، داماد نواسے کی مکروہ سیاست دفن کرکے حقیقی جمہوریت کی طرف روانگی کا اہتمام کیا جاسکے۔ وہ لوگ جو پی ٹی آئی الیکشن کے دوران دنگے فساد کو ٹی وی پر بیٹھ کر ایشو بنارہے ہیں ، ان کا اپنا ڈیجٹیل ریکارڈ مختلف چینلزپر دستیاب ہے۔ جہاں ہجوم ہو گا وہاں دھول دھپا ہوگا…جہاں کھانا کھلے گا، وہاں یہ بھید بھی کھلے گا کہ بھوک کی بے صبری کتنی شدید ہے چاہے تقریب تحریک انصاف کی ہو، پی پی پی کی ہو یا ن لیگ‘ کہ یہ ہمارا اجتماعی کلچر ہے جسے پارٹیوں سے ماورا سمجھو۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں مجھے جس بات نے حیران بلکہ پریشان کیا وہ ووٹرز کی قسمیں تھیں۔ میرا خیال تھا ممی ڈیڈی بچے بچیاں، برگر فیملیز ، متوسط وزیریں متوسط طبقات کے ووٹرز ہوں گے لیکن ٹی وی کی سکرینوں پر تو منظر ہی اور تھا …جنیوئین عوام جوق درجوق ، ہرا یج گروپ ، ہرطبقہ کا پرجوش ووٹر اور سونے پر سہاگہ خواتین کی شرکت اور شراکت۔ پولنگ بوتھ پر جتنے لوگ تھے اتنے تو اب نوحہ لیگ کے جلسوں میں بھی نہیں ہوتے۔ پٹواری بادشاہ زندہ باد ۔ اور وہ جو یہ پروپیگنڈا کرتے نہ تھکتے تھے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم یا منجمد ہوئی ہے ان کے لیے بھی اس الیکشن میں کافی واضح وپوشیدہ اشارے موجود ہیں لیکن اگر کوئی خود اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی قسم کھائے بیٹھا ہو۔ اس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔ بہرحال مقبولیت میں کمی کی متھ بھی چوروں کے ٹولے کو پریشان کر گئی ہے۔ اس ملک کی سیاست سے موروثیت کی لعنت اور نحوست کے خاتمہ کے لیے پاکستان تحریک انصاف بارش کا وہ پہلا قطرہ ثابت ہوئی ہے جو طوفان میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ عمران نے اپنا کام کردیا، قوم کے ساتھ اک اور ناممکن نہیں تو مشکل ترین وعدہ پورا کردکھایا جو میرے نزدیک عمران خان کی طرف سے قوم کے لیے ورلڈکپ، کینسر ہسپتال اورنمل یونیورسٹی جیسے تحفوں سے کم نہیں کہ فتح و شکست اپنی جگہ۔۔ سیاسی وجمہوری کلچر میں تبدیلی ہی وہ اصل فتح ہے جس کا سہرا عمران کے سر ہے ۔ ویل ڈن پاکستان خان!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved