تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-09-2017

عینک اُتار کر پڑھیے!

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے پورے سماج نے میلے والی عینک پہن رکھی ہے۔ دیہاتی بچوں کے لیے کانے کی بنی ہوئی عینک کے سامنے سُرخ، سبز، نیلے، پیلے رنگین کاغذ لگائے جاتے ہیں۔ ان میں سے صرف اُسی کاغذ کا رنگ نظر آتا ہے۔ دنیا اور اس کی حقیقتوں کے اصلی رنگ غائب ہو جاتے ہیں۔ اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اس عینک کو پوٹھوہاری زبان میں ‘‘کھوپہ‘‘ کہتے ہیں۔ کھوپہ ٹانگے والے گھوڑے کی عینک کو بھی کہا جاتا ہے‘ جس میں سے گھوڑا صرف وہ راستہ یا منظر دیکھ سکتا ہے‘ جو اسے کوچوان دکھانا چاہے۔ ٹانگے کا گھوڑا مُنہ کے ساتھ لٹکے ہوئے دانے والے ''توبرے‘‘ کے لالچ میں چابک بھی کھاتا ہے‘ اور کوچوان کی مرضی کی عینک پہن کرصرف اتنا ہی دیکھتا ہے جس قدر کوچوان اُسے دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
آج کل امریکہ کے توبرے میں سے کھانے والے، گورے کوچوان کے چابکوں تلے تانگے کے گھوڑے والی عینک پہن کر خُوب بول رہے ہیں۔ کرائے پر دستیاب یہ گھوڑے کہتے ہیں‘ پاکستان کو امریکہ نے 12 ارب ڈالر دئیے‘ لیکن پاکستان سے دہشت گردی ختم نہ ہو سکی۔ یہ حقیقت بھی اب کھل ہی جانی چاہیے کہ نیٹو افواج دنیا کا سب سے بڑا فوجی الائنس ہے‘ جس کے صرف ایک پارٹنر امریکہ نے افغانستان میں 143 ارب یو ایس ڈالر انویسٹ کئے ہیں۔ یہ کتنے کھرب یا پَدم پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ آپ خود حساب کر لیں۔ مغرب کی سب سے بڑی جنگی مشین۔ ڈیڑھ لاکھ ''ہارڈ کور‘‘ فوجی۔ جدید ترین بمبار طیارے۔ مدر آف آل بم۔ نئے نویلے ہیلی کاپٹر۔ میزائل، آتش و آہن۔ کروڑوں ٹن بارود کے ڈھیر مل کر بھی ابھی تک افغانستان کا 60 فیصد علاقہ قبضے میں نہیں لا سکے۔ دوسری جانب پاکستان کے چپے چپے پر پاکستان کی رِٹ قائم ہے‘ جہاں ہمارا سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے۔ پھر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے مغربی بارڈر سے بدامنی کی جو بھی لہر اُٹھتی ہے‘ اس کی فنڈنگ اور اسلحہ‘ دونوں بذریعہ افغانستان سپلائی ہوتے ہیں۔ سب جانتے ہیں‘ دُنیا کے جدید ترین ہتھیار افغانستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں پر نہیں اُگتے‘ نہ ہی کابل، ہرات، مزارِ شریف، وادیٔ پنج شیر، پکتا اور پکتیکا میں ڈالروں کے درخت ہیں۔
80 ارب ڈالر تو محض افغان فوج منظم کرنے پر خرچ ہوئے۔ اتنی منظم فوج‘ جو اکثر اپنے گورے اُستادوں پر ہی گولیاں برساتی رہتی ہے۔ کابل کے حکمران کابل کے 2 عدد بم پروف محلات اور باغِ بالا میں واقع ایک پنج ستارہ ہوٹل سے باہر کہیں آ جا نہیں سکتے۔
نیٹو کا ایک ایک فوجی چلتا پھرتا خیمہ ہے۔ ایسا خیمہ جس میں دستی بم، نائٹ ویژن، خنجر، بیٹریاں، دوائیاں، ہر طرح کے آرمر اور وہ کچھ ہوتا ہے جو پاک فوج کی ایک پوری بٹالین کے پاس شاید ہی دستیاب ہو۔ 
اب آئیے ذرا امریکی مہربانی سے ملنے والے 12ارب ڈالر کی حقیقت کی طرف۔ امریکہ نے یو ایس ایڈ کے ذریعے مخصوص علاقوں میں کچھ اچھے پراجیکٹس بنائے۔ یہ پراجیکٹس ان کی اپنی این جی او، اپنے کنسلٹنٹ اور اُن کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ سوشل سیکٹر کے ان اچھے پراجیکٹس پر امریکہ کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے‘ لیکن ان سے بہتر پراجیکٹس جاپان کی JIAICA بناتی آئی ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایسے پراجیکٹس کسی ایک پورے ضلعے کے لیے بھی معاشی یا سماجی انفراسٹرکچر میں تبدیلی کا پیغام نہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان پہنچنے والا ہر ڈالر اپنے ساتھ امریکی ایجنڈا لے کر آتا ہے۔ امداد پر پلنے والے ملک پہلے امریکی ورلڈ آرڈر پر بیعت کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اِنٹرنیشنل بھکاریوں کو انکل سام ڈالر کے درشن کراتا ہے۔ اس مرحلے پر ایک اور سچی بات‘ جو بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی، وہ بھی کر لیتے ہیں۔ جس طرح امریکہ کے ہر ایک ڈالر میں ایک عدد مچھلی پکڑنے والا کانٹا چُھپا ہوتا ہے‘ اسی طرح خلیجِ عرب سے آنے والی ہر کھجور میں ایک فرمائش پوشیدہ ملتی ہے‘ جبکہ خلیجِ فارس سے آنے والے ہر قالین میں سے ''الفُو جِنّ‘‘ لپیٹا ہوا نکلتا ہے۔ 
عینک اتار کر دیوار کا لکھا پڑھیں تو امریکہ کی ترجیحات بہت واضح ہیں۔ ان میں سے اولین ترجیح روس اور چین کو مصروف رکھنا ہے۔ چین کو الجھائے رکھنے کے لیے امریکہ کبھی تائیوان اور کبھی برما پہنچتا ہے۔ چین کے بارڈر تک رسائی کے لیے تازہ مہم پیانگ یانگ کے خلاف چل رہی ہے۔ روس نے حال ہی میں پاکستان کو پہاڑی علاقوں کے صحیح معنوں میں جنگجو ہیلی کاپٹر فراہم کیے ہیں۔ مستحکم پاکستان روس کی بھی ضرورت ہے۔ حالات کی اسی گمبھیرتا نے صدر ٹرمپ کو بیرونِ ملک بھیجی گئی امریکی فوج کے حوالے سے یو ٹرن لینے پر مجبور کر ڈالا۔ امریکہ کے سارے آزاد ذرائع ایک حوالے سے ایک پیج پر ہیں‘ اور وہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں بُری طرح جنگ ہار چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے Afpak پالیسی تبدیل کرنے کا اعلان تو ہوا‘ لیکن صدر ٹرمپ یہ نہ بتا سکے کہ افغانستان میں مزید رہ کر نیٹو یا امریکہ کون سا نیا تیر مارے گا۔ مغرب کی جانب سے دشمن کو مار دو کی پالیسی نے مسلم ملکوں میں نامعلوم دشمن پر بمباریاں کیں‘ اور معلوم جنگجوئوں سے رابطے رکھے۔ ایک روز پہلے ایک معتبر خبر رساں ایجنسی نے ایک امریکی اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے اس بات کی پھر تصدیق کی ہے کہ امریکہ افغانستان میں لڑنے والے گروپوں سے رابطے میں ہے۔ مسلم ممالک کے ٹوڈی حکمران سب کچھ جانتے ہوئے بھی عالمی استعمار کے ہاتھوں میں کٹھ پُتلی کی طرح ناچ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اتنا سادہ نہیں کہ امریکہ کے سٹریٹیجک اہداف سے نا واقف ہو۔ 
امریکہ کے اندر صدر ٹرمپ ابھرتے ہوئے نئے نازی اِزم کے حوالے سے سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ سرد جنگ کے بعد پہلے روس، پھر ویتنام، کوریا اور مسلم ممالک میں دشمن تراش کر ان کی آڑ میں آگ برسانے سے دنیا کا امن نذرِ آتش ہو گیا ہے‘ جس کا مظاہرہ محفوظ ترین ملکوں میں بھی ہوتا ہے اور غریب ترین ممالک کے گلی کُوچوں میں بھی ہو رہا ہے۔ 
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے امریکی بڑوں کے اعلانات سے تین بڑے مواقع دے دیئے ہیں۔ 
پہلا: قوم کو پاکستان کی محبت اور سلامتی ہمیشہ یک جا کر دیتی ہے۔ اسے مستقل ریاستی پالیسی کا محرک بنایا جائے۔
دوسرا: روس اور چین کے ساتھ ساتھ مسلم بلاک میں نئے سِرے سے مشترکہ مفادات پر ڈائیلاگ ہو۔ 
تیسرا: روس اور چین سے علاقائی سلامتی اور عسکری ٹیکنالوجی کے لانگ ٹرم معاہدے کیے جائیں۔ 
جبینِ لشکرِ اسلام داغدار نہ کر
کوئی بھی عارضی اقدام اختیار نہ کر
ہو جان بل کہ چچا سام دونوں جُھوٹے ہیں
بہشت بھی جو یہ بُت دیں تو اعتبار نہ کر
یہی ہے تیری فراست، یہی ہے تیرا کمال
برہمنوں کی سیاست پہ اعتبار نہ کر
سفید فام خدائوں سے درگزر لازم
دَنی مزاج مشیروں پہ اعتبار نہ کر 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved