تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-09-2017

طلبا تنظیمیں اور یونینز

دارالعلوم دیوبند نے حال ہی میں اپنے طلبا کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔میرے نزدیک اس میں ہم سب کے لیے بہت روشنی ہے۔
دارالعلوم کے بارے میں ہم جا نتے ہیں کہ یہ مادرِ علمی برصغیر میں ابھرنے والے خاص سیاسی، دعوتی اور علمی رجحانات کی ماخذہے۔مو لانا محمد الیاس اور مو لا نا محمد زکریایہیں کے فیض یافتہ تھے ،جنہوںنے تبلیغی جماعت کے عنوان سے دعوت و تبلیغ کی ایک تحریک بر پا کی۔مو لانا قاسم نانوتوی اور شیخ الہند مولانا محمودحسن بھی یہاں کے بزرگ تھے ،جنہوں نے جمعیت علمائے ہندکی بنیاد رکھی۔اسی روایت سے وابستہ لاکھوں مدارس ہیں جو جنوبی ایشیا میں آباد ہیں۔پچھلے دنوں یہ افسوس ناک واقعہ ہوا کہ بھارت کی تبلیغی جماعت دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔جب اس نوعیت کی کوئی تقسیم ہوتی ہے تو ایک تلخی جنم لیتی ہے اور یوں مقابلہ آرائی کی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے۔تبلیغی جماعت کے باب میں بھی ایسا ہی ہوا۔
اس کے اثرات دارالعلوم تک بھی پہنچے۔اس پر مدرسے کی انتظامیہ نے ایک اہم فیصلہ کیا۔منتظمین نے طلبا پر یہ پابندی عائد کر دی کہ دارالعلوم کے احاطے میں کسی طرح کی کوئی تبلیغی سرگرمی نہیں ہوگی۔طلبا کو یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ کسی ایک گروہ سے وابستہ ہو جا ئیں۔انتظامیہ نے طلبا پر یہ پابندی بھی نافذ کی کہ وہ جمعیت علمائے ہند کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ان کی پہلی اور آخری ترجیح تعلیم ہو گی۔فراغت کے بعد وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ جس جماعت میں چاہیں، اس میں شامل ہو جا ئیں۔ 
میرے نزدیک یہ بہت ہی حکیمانہ فیصلہ ہے جو دارلعلوم کی انتظامیہ نے کیا۔چند روز پیشتر جب سینیٹ نے طلبا یونینز کی بحالی کے حق میں قراردار منظور کی تومجھے دارالعلوم کا یہ فیصلہ یاد آیا اورمجھے یہ خیال ہوا کہ کاش ہمارے ہاں بھی لوگ ان خطوط پر سوچتے۔طلبا یونینز کی بحالی کو اس زاویے سے بھی دیکھا جا تا۔ممکن ہے کہ اس کے بعد یہاں بھی لوگ اس نتیجے تک پہنچتے ،جس پر مدرسے کے ذمہ داران پہنچے ہیں۔
پاکستان کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کا سب سے تباہ کن فیصلہ تعلیمی اداروں میں اپنی جماعتوں کے لیے کارکن تلاش کر نا تھا۔ان جماعتوں نے تعلیم کے اداروں کو حصولِ علم کے مرکز کے بجائے اپنی نرسری میںبدل دیا۔تعلیم کو سیاسی تلخیوں سے اس طرح آلودہ کیا کہ درس گاہیں قتل گاہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ کم از کم تین نسلیں تو ایسی گزریں جن کا ذہین ترین حصہ طلبا سیاست کی نذر ہو گیا۔بصورتِ دیگر یہ قوم کا اثاثہ ثابت ہو سکتا تھا۔دلیل یہ دی جا تی ہے کہ اس سے قوم کو باصلاحیت قیادت ملتی ہے۔میں اس ملک کے کسی ایسے سیاست دان کو نہیں جا نتا جس نے مثبت طور پر قومی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہوں اور وہ کسی طلبا تنظیم کا فیض یافتہ ہو۔جنہوں نے کیے،ان میں سے نوے فیصد کا طلبا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ایک فکری کجی یہ بھی رہی کہ بعض تعلیمی اداروں کو مخصوص نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔دنیا بھر میںاعلیٰ تعلیم کے اداروں میں نظریات پڑھائے تو جاتے ہیں لیکن ان کے فروغ کے لیے تنظیمیں نہیں بنتیں۔نظریات کا علمی مطالعہ ہو تا ہے۔اعلیٰ تعلیم کا اصل مقصد انسان میں غور وفکر کی صلاحیت کو جلا دینا ہے۔افسوس کہ ہم نئی نسل کی اس صلاحیت کو پروان نہ چڑھا سکے۔فکری انتہا پسندی پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کو یہاں سے خام مال کیوں میسر آتا ہے؟
میں اس کے حق میں ہوں کہ طلباو طالبات کوغیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ ان میں موجود صلاحیتوں کو ابھارنا چاہیے۔اس کے لیے طلبا یونینز بھی بنائی جا سکتی ہیں،لیکن اس کے لیے دو باتیں لازم ہیں۔ایک یہ کہ طلبا تنظیمیں نہ ہوں اور سیاسی جماعتوں کو قانوناً اس سے روکا جا ئے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس ونگ بنائیں۔دوسرا یہ کہ طلبا یونینز کی سرگرمیاں طلبا کی صلاحیتوں کی نشوو نماکے لیے ہوں۔ان میں فنون لطیفہ اورتحریر وتقریرسمیت دوسری صلاحیتوں کو پر وان چڑھا نے کا اہتمام ہو۔
ہمارے مدارس اگر چہ مسلکی بنیادوں پر منظم ہیں لیکن ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ طلبا کو مسلک کی سیاست سے آزاد رکھتے ہیں۔مثال کے طورپروفاق المدارس دیوبندی مسلک کا تعلیمی بورڈ ہے لیکن اس میں مو لانا فضل الرحمٰن اورمو لانا سمیع الحق سمیت جمعیت علمائے پاکستان کے سب دھڑوں سے وابستہ افراد کے مدارس شامل ہیں۔ گویا یہ مدارس دارالعلوم دیوبند ہی کی روایت کو آگے بڑھارہے ہیں۔ یہی بریلوی اور دوسرے مسالک کا معاملہ ہے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے۔جب طلبا یونینز کی بحالی کی بات ہوتی ہے تو اس مطالبے کا تعلق سرکاری تعلیمی اداروں سے ہوتا ہے جہاں عام پاکستانیوں کے بچے پڑھتے ہیں۔وہ تعلیمی ادارے جو نجی شعبے میں ہیں اورجہاں اشرافیہ کے بچے زیرِتعلیم ہیں، وہاں طلبا تنظیموں یا یونینز کے قیام کا کبھی مطالبہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہ ادارے اس پر آ مادہ ہیں۔میں اکثر یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ یہ تنظیمیں اگر خیر کا ماخذہیں تو معاشرے کا یہ طبقہ اس سے کیوں محروم ہے اور اگر اس میں کوئی غیر نہیں تو عام پاکستانیوں کے بچوں کو اس آگ کا ایندھن کیوں بنایا جا تا ہے؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ بعض طلبا تنظیموںکے راہنما خود تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں اور ان میں تنظیموں کو کام کر نے کی اجازت نہیں دیتے۔ 
اس بحث میں جو نکتہ سرے سے نظر انداز کیا جا رہاہے، وہ یہ ہے کہ ایک طالب علم کی پہلی اور آخری ترجیح تعلیم ہونی چاہیے۔ دیگر باتیں ضمنی ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی پستی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے ریاست اور معاشرہ ،دونوں نے نظر انداز کیا ہے۔ طلبا تنظیمیں اس کی واحد وجہ نہیں ہیں۔ طلبا تنظیموں اور یونینز پر پابندی کے باوجود، اگر تعلیم میں بہتری نہیں آئی تو یہ مشاہدہ خود اس بات کی دلیل ہے۔ اب اگر ان اداروں کا دروازہ ان تنظیموں کے لیے بھی کھول دیا گیا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا تعلیمی مستقبل کیا ہو گا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ طلبا یونینز پر پابندی رہی لیکن اس سارے عرصے میں طلبا تنظیمیں پوری طرح متحرک رہیں اور اب بھی ہیں۔ ان کی سرگرمیاں علانیہ جاری ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں میں موجود ہیں اور شہری علاقوں میں بھی۔ ان کے مابین تصادم بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی سے لے کرمردان یونیورسٹی تک کے حالیہ واقعات اس بات کی شہادت ہیں۔ خرابی کا اصل سبب تو تنظیمیں تھیں۔طلبا یونین اپنی ذات میں تو کوئی برائی نہیں۔اب تنظیمیں آزاد ہیں اوریونینز کے دروازے بند۔ یہاں بھی قانون اسی طرح بے بس ہے جس طرح ان تنظیموں کے بارے میں بے بس ہے، جن پر انتہا پسندی کا الزام ہے۔ حکومت ان پرکبھی کبھی پابندی لگاتی ہے اور وہ اگلے دن ایک نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہیں۔
میرا احساس یہ بھی ہے کہ طلبا یونینز پر اصراراس نظامِ فکر کاایک نتیجہ ہے، جس میں ہماری اصلاحی کوششوں کا مرکز ریاست ہے، معاشرہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کے لیے اچھے رجالِ کار یہاں سے ملیں گے۔ اگر ہم معاشرے کی بنیاد پر سوچتے تو پھر دیکھتے کہ معاشرتی ترقی کے لیے تعلیم سب سے اہم ہے اور ہماری ساری تگ و دو اس کے لیے ہونی چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ جب بنیادی اینٹ غلط رکھ دی جائے تو دیوار کی کجی تادیر باقی رہتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved