تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     02-09-2017

دانشمندی کی فتح

چین اور بھارت کے مابین ڈوکلام کے مقام پر دو ماہ سے زائد عرصہ سے جاری رہنے والا سرحدی تنازعہ پُرامن طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ بھارتی فوجی دستوں نے علاقہ خالی کر دیا ہے ۔ چین کی طرف سے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے یہ پیشگی شرط تھی۔ چین نے بھی اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کیا اور علاقے میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہوئے‘ متنازعہ سڑک کی تعمیر روک دی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی اور اس میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہے‘ دونوں ملکوں میں بھوٹان‘ چین اور سکم کے جنکشن پر واقع مقام پر کشیدگی کا خاتمہ دراصل دانش مندی کی فتح ہے۔ اس لئے کہ چین اور بھارت کے فوجی دستے آمنے سامنے کھڑے تھے اور فریقین میں سے کسی کی ذرا سی غلطی بھی ایک بڑی جنگ کا باعث بن سکتی تھی۔ دونوں اطراف سے سخت بیانات اور کشیدگی کے باوجود ڈھائی ماہ تک جس حوصلے ‘ صبر‘ استقامت اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو ڈی فیوز کیا گیا‘ وہ ڈپلومیسی اور پُرامن ذرائع سے بین الاقوامی تنازعات حل کرنے کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔16جون کو جب سکّم کی طرف سے بھارتی فوجی دستوں نے ڈوکلام کی سطح مرتفع میں داخل ہو کر ‘ چینی انجینئرز اور مزدوروں کو ایک نئی سڑک تعمیر کرنے سے روک دیا‘ تو اغلب امکان یہی تھا کہ آمنے سامنے کھڑے فوجی دستوں میں جھڑپیں اور فائرنگ کا تبادلہ ہو گا‘ کیونکہ بھارت کا اقدام صریحاً بلا جواز تھا۔ نہ تو ڈوکلام کی سرحد براہ راست بھارت سے ملتی ہے اور نہ ہی اس علاقے پر اس نے کبھی اپنا حق جتلایا ہے۔ اگر ڈوکلام پر کوئی تنازعہ ہے تو وہ محض بھوٹان اور چین کے مابین ہے۔ بھارت نے اپنی فوجیں صرف بھوٹان کی حمایت میں بھیجی تھیں‘ جس کے ساتھ اس کا ایک دفاعی معاہدہ ہے۔ نتیجتاً چین کی طرف سے بھارتی اقدام کو نہ صرف چین کی علاقائی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی بلکہ مسلمہ بین الاقوامی قوانین کی نفی بھی قرار دیا گیا۔ چین نے بھارت کو اس مہم جوئی سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اس کے فوجی دستوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بصورتِ دیگر چین کی طرف سے سخت اقدام ناگزیر ہو جائے گا۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی طرف سے بھارتی اقدام کی سخت مذمت کی گئی اور بھارت کو یاد دلایا کہ وہ 1962ء کی جنگ نہ بھولے‘ جب چین کے ہاتھوں اسے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی نے جواب دیا کہ 2017ء کا بھارت 1962ء کا بھارت نہیں ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے دعویٰ کیا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی جنگ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب دونوں طرف سے سخت بیانات کے باعث ڈوکلام سٹینڈ آف نے خطرناک صورت اختیار کر لی ‘ تو بھارت اور چین ‘ دونوں نے مزید فوجی دستوں کو متحرک کیا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تصادم کسی بھی وقت ہو سکتا ہے‘ مگر فریقین کے ضبط اور ہوش مندی پر مبنی رویے کی داد دینی چاہئے کہ ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ یہاں تک کہ جب سڑک کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے پر چینی ٹیم نے بلڈوزر زکی مدد سے قریب واقع بھارت کے دو مورچوں کو تہس نہس کر دیا ‘ تو بھی بھارتی فوجیوں نے گولی چلانے کے بجائے سپاہیوں کی باڑ بنا کر چینیوں کو مزید بھارتی مورچے تباہ کرنے سے روک دیا۔ بعد میں بھارت کی وزارتِ دفاع نے انکشاف کیا کہ آرمی ہائی کمانڈ کی طرف سے جوانوں کو گولی چلانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔ چین کی 3500- 4000کلومیٹر طویل سرحد پر کم از کم 12مقامات ایسے ہیں‘ جو متنازعہ ہیں اور دونوں ملکوں میں اختلافات کی وجہ سے ابھی حتمی طور پر سرحد کی نشاندہی نہیں ہو سکی۔ اس لئے کبھی چین کی طرف سے فوجی دستے ان علاقوں میں گھس آتے ہیں ‘ جو بھارت کے قبضہ میں ہیں اور بھارت ان پر اپنا حق جتلاتا ہے‘ اور کبھی بھارت چین کے زیر تسلط علاقوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے‘ چنانچہ بھارت اور چین کے فوجی دستوں میں بعض اوقات کئی دن تک سٹینڈ آف کی کیفیت رہتی ہے‘ لیکن آخر کار بحث و تمحیص اور دلائل سے ایک دوسرے کو قائل کرکے معاملے کو ٹھندا کر لیا جاتا ہے۔ڈوکلام میں سٹینڈ آف کو بھی اسی سپرٹ میں ڈی فیوز کیا گیا‘تاہم بہت سے لوگ اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ اس کے پس پردہ ڈیڑھ ماہ کی سرتوڑ سفارتی کوششوں اور گفت و شنید کے علاوہ چینی صدر ژی چن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی ملاقات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔دونوںرہنمائوں میں یہ ملاقات اوائل جولائی میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ہوئی تھی‘جہاں جی 20اور BRICSکی سربراہی کانفرنسوں میں چین اور بھارت بھی شریک تھے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نے پہل کرتے ہوئے چینی صدر سے ڈوکلام کا تنازعہ جلد حل کرنے کی درخواست کی تھی۔ چینی صدر نے اس سے اتفاق کیا اور اس کے بعد تنازعہ کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بات چیت میں بھارت اور چین کے علاوہ بھوٹان بھی شریک تھا۔اطلاعات کے مطابق بھوٹان ‘ جس کے ایک طرف چین اور دوسری طرف بھارت واقع ہے‘ نے اس بات چیت کی کامیابی میں سب سے اہم کردار ادا کیا‘ کیونکہ اسے اندیشہ تھا کہ ان دو بڑے ممالک ' جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں‘ کے درمیان تصادم کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان بھوٹان کو ہو گا۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے ‘ اس کی بھی خواہش تھی کہ یہ تنازعہ پُرامن طریقے سے اور جلد حل ہو ‘ کیونکہ 31اگست سے چین میں برکس (BRICS)‘ جس میں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چائنا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں‘ کی نویں سالانہ سربراہی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی‘ اور چین اس کے نہ صرف کامیاب بلکہ پُرامن انعقاد کا متمنی تھا۔ اس کے علاوہ چین کی موجودہ علاقائی اور عالمی حکمت عملی میں بھارت کے ساتھ محاذ آرائی فٹ نہیں بیٹھتی تھی‘ بلکہ چین تو سی پیک منصوبے میں بھارت کی شمولیت کا بھی خواہاں ہے‘ کیونکہ بھارت کی طرف سے مخالفت اس منصوبے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے‘ لیکن ڈوکلام سٹینڈ آف نے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیا‘ اور نئی حقیقتوں سے پردہ بھی ہٹایا ہے۔ سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ 70 سال میں پہلی مرتبہ بھارت نے چین کے دبائو میں آنے سے انکار کیا۔ دوسرے‘ بھوٹان کو پہلی مرتبہ شدید احساس ہوا کہ ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اس کی سالمیت اور معیشت کو کتنے خطرات لاحق ہیں۔ تیسرے یہ کہ جوں جوں ڈوکلام کا تنازعہ طول پکڑتا گیا‘ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی اور ممالک بھی اس میں ملوث ہونے لگے تھے۔ پاکستان نے کھل کر چین کی حمایت کی‘ جبکہ جاپان نے بھارت کے موقف کو درست قرار دیا۔ اس تنازعے سے یہ ثابت ہوا کہ جنگ اور امن‘ دونوں صورتوں میں جنوبی ایشیا نہ صرف اپنے خطے کے ممالک بلکہ خطے سے باہر واقع ممالک کے لئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ 
ڈوکلام کا سٹینڈ آف اگرچہ ڈھائی ماہ بعد بغیر کوئی گولی چلائے ختم ہو گیا ہے‘ تاہم دفاعی اور بین الاقوامی امور کی اکیڈمیوں میں اس پر ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت سے بحث ہوتی رہے گی۔ اس سے نہ صرف بھارت بلکہ چین بھی اپنی علاقائی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو جائے گا۔ بھارت میں تو کئی حلقوں کی جانب سے یہ آرا آنا شروع ہو گئی ہیں کہ نئی حقیقتوںکی روشنی میں اسے چین کے بارے میں اپنی پالیسی کا از سرِنو جائزہ لینا چاہئے‘ کیونکہ گزشتہ چار دہائیویں میں جنوبی ایشیا میں بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ ان میں بھارت ‘ امریکہ اور جاپان کے درمیان ایک ایسے اتحاد کی تشکیل بھی شامل ہے‘ جس کا مقصد جنوبی ایشیا اور اس سے آگے دیگر خطوں یعنی جنوب مشرقی ایشیا ‘ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے علاقوں میں چینی اثرورسوخ کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ ڈوکلام کے سٹینڈ آف نے علاقے میں بہت سی حقیقتوں پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ اب خطے میں تمام ممالک خصوصاً بھارت اور چین کو ان نئی حقیقتوں کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved