تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-09-2017

جھوٹ کے بازار میں

جہاں آوے کا آوا بگڑ چکا ہو وہاں اگر کوئی اصولوں کی بات کرے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور سیّارے سے وارد ہوا ہو! چاروں طرف فریب کا چلن ہو تو ایمان داری کے قدر دان خال خال ملیں گے۔ سب کچھ غلط ہو تو صحیح بھی غلط ٹھہرتا ہے۔ جھوٹ کے بازار میں سچ تنہا رہ جاتا ہے بلکہ اکیلا پڑ جاتا ہے۔ کوئی ساتھ دینے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ سچ یہ ہے کہ جہاں صرف اور صرف جھوٹ کا چلن ہو وہاں اگر سچ کو چلانے کی کوشش کیجیے تو لوگ پہلے حیرت سے دیکھیں گے، پھر چہ می گوئیاں کریں گے اور آخر میں سنگ باری پر اتر آئیں گے لیلٰی و مجنوں کے زمانے سے اب تک جُنوں گرفتہ ذہن کا یہی علاج تجویز ہوتا آیا ہے! 
ایک دودھ والے کو گرفتار کیا گیا۔ قصہ یہ تھا کہ اُس کی دکان سے دودھ لے جانے والے کئی افراد دودھ پی کر اَدھ موئے ہوگئے۔ لیب ٹیسٹ سے بھی یہی ثابت ہوا کہ اُن کی حالت دودھ پینے ہی سے بگڑی تھی۔ پولیس انسپکٹر نے دودھ فروش کو گُدّی سے پکڑ کر کہا ''سچ سچ بتا، تونے دودھ میں کیا ملایا تھا؟ 
دودھ والا بے چارہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اپنی صفائی میں کہے تو کیا کہے۔ اُس نے قسمیں کھائیں کہ اُس کے دودھ میں کوئی کھوٹ نہیں تھی، کوئی خرابی نہیں تھی۔ مگر انسپکٹر ماننے کو تیار نہ تھا۔ لیب ٹیسٹ کی رپورٹ اُس کے پاس تھی۔ اُس نے جب ڈرایا دھمکایا تو دکاندار نے سچ اگل ہی دیا۔ اُس غریب کے پاس سچ اگلنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ دکاندار نے حلفیہ بیان دیا کہ ایک دن اُس نے دودھ میں پانی نہیں ملایا تو لوگوں کا یہ حال ہوگیا، خالص دودھ پینے کو ملا تو سب کے ہاضمے کا نظام جواب دے گیا! ہاضمہ بالکل خالص دودھ کا عادی نہیں تھا اِس لیے ہضم نہ کرسکا اور معاملہ لیب ٹیسٹ تک پہنچ گیا! 
دودھ فروش نے یہ بھی بتایا کہ لوگ کہتے تھے زیادہ پیسے لو اور خالص دودھ دو۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ خالص دودھ پی لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے! مگر وہ نہ مانے اور خواہ مخواہ ''مِلک اسکینڈل‘‘ کھڑا ہوگیا۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ اُس وقت بھی سامنے آتا ہے جب لوگ فرمائش کرکے یعنی زور دے کر دیسی گھی خریدتے ہیں اور پھر پیٹ پکڑے بھاگتے پھرتے ہیں! 
کالم کی ابتداء میں عرض کیا گیا کہ جہاں سب کچھ آپس میں الجھ چکا ہو وہاں کچھ سیدھا کرنے کی کوشش کیجیے تو معاملہ زیادہ الٹا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ اُس نوجوان کا ہے جس کی حماقت کے ہاتھوں سڑک پر کئی گاڑیاں آپس میں ٹکراگئیں۔ سڑک پر جتنی بھی گاڑیاں آپس میں ٹکرائی تھیں اُن سب کے مالکان نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ یہ سب اُس نوجوان کا کیا دھرا ہے۔ پولیس نے نوجوان کو پکڑا تو اُس نے قصور پوچھا۔ جب ٹریفک پولیس نے بتایا کہ اُسی نے کچھ ایسا کیا ہے جس سے کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرائی ہیں۔ نوجوان کی سمجھ میں نہ آیا کہ وضاحت کس طور کرے۔ اُس نے بتایا کہ وہ تو تمام متعلقہ قواعد کا احترام کرتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا۔ لوگوں نے چیخ کر کہا یہی تو ہے خرابی کی جڑ! سب ٹیڑھے میڑھے چل رہے تھے اور وہ ایک لائن میں سفر کر رہا تھا۔ لوگ سگنل توڑ رہے تھے مگر وہ نہیں توڑ رہا تھا۔ سب اوور ٹیکنگ کر رہے تھے مگر وہ اوور ٹیکنگ سے بہت دور تھا۔ ایک سگنل پر اُس نے زرد بتی دیکھ کر گاڑی کی رفتار کم کی اور بتی کے سرخ ہونے تک زیبرا کراسنگ کے نزدیک پہنچا اور گاڑی کو بریک لگادیا۔ بس یہی تو تھی اُس کی غلطی یا حماقت! پچھے آنے والی تمام گاڑیاں بریک لگانے کی کوشش میں توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور آپس میں ٹکراگئیں! 
سرکاری دفاتر میں سب سے بڑی غیر ارضی مخلوق کسے کہا جائے گا؟ اُسی کو جو دوسروں سے ہٹ کر چل رہا ہوگا۔ جو صبح نو بجے دفتر میں داخل ہو اور شام بجے گھر روانہ ہو، جو بلا ضرورت اور بلا جواز چھٹی نہ کرے، کبھی رشوت نہ لے، اپنے حصے کا کام بخوبی اور بروقت مکمل کرے، کبھی کوئی بہانہ گھڑ کر مقررہ وقت سے قبل گھر نہ جائے وہ اگر سب کو عجیب و غریب محسوس ہو تو حیرت کیسی؟ حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ ایسا انسان چلتا پھرتا تماشا بن جاتا ہے۔ اب تو یہ ڈر ہے کہ کسی سرکاری دفتر میں وقت کی پابندی کرنے اور اپنے سارے کام پوری ایمان داری، لگن اور ڈیڈ لائن کے مطابق انجام کو پہنچانے والے کو کہیں عجائب گھر والے نہ لے اُڑیں کیونکہ معاشرے کے نوعیت اور کیفیت کچھ ایسی ہے کہ اب ایسے لوگ عجائب گھر ہی کے قابل لگتے ہیں! 
ناصرؔ کاظمی مرحوم نے کہا تھا ؎ 
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ 
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے 
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف بے اصولی اور بے حِسی بال کھولے سو رہی ہے۔ اور یہ نیند ہے بھی ایسی پختہ کہ توڑے نہیں ٹوٹ رہی۔ لوگ اپنے حصے کے انتہائی ضروری، بلکہ لازم گردانے جانے والے کام سے بھی جان چھڑاتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی کام نہ کرنے دیا جائے۔ اور یہ کوشش اس لیے ہوتی ہے کہ اگر دوسرے کام کرتے ہوں تو ایک واضح مثال بن جاتی ہے یعنی سب کو کم از کم اُتنا کام تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ 
جہاں سچ اور حقیقت سے اس قدر گریز کیا جارہا ہو وہاں کوئی اگر اُصول پسندی کی راہ پر گامزن ہونے کی ٹھان لے تو؟ سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں! ایسے ماحول میں زندگی بسر کرنا تَنے ہوئے رسّے پر چلنے سے کم تو ہرگز نہیں۔ قدم قدم پر الجھن، بات بات پر احتیاط۔ کچھ کہنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائے بغیر چارہ نہیں۔ ذرا سی اصول پسندی دکھائی اور کٹی پتنگ کَنّوں سے۔ سراسر گئے گزرے ماحول میں بھی کبھی اصول پسندی اور راست بازی کے ہاتھوں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ معاملہ ''نہ جائے رفتن، پائے ماندن‘‘ کی منزل تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ انسان کے لیے حقیقی آزمائش تو یہی ہے کہ وہ اصولوں کا دامن تھام کر چلتا رہے۔ مزا تب ہی تو ہے کہ ماحول اصولوں سے یکسر گریزاں ہو مگر پھر بھی انسان اصولوں کا ساتھ نہ چھوڑے، راست بازی سے رُو گردانی نہ کرے! ماحول کیسا ہی گیا گزرا ہو، اِنسان کو اپنی اصل فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ ہماری اصل ایمان، اصول پسندی اور راست بازی ہی ہے۔ جھوٹ کے بازار میں سچ کا سِکّہ چلانے والوں کے لیے لاکھ مشکلات بھی ہوں تو کوئی غم نہیں کہ اِن تمام مشکلات کا اَجر اللہ کے ہاں لکھ دیا گیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved