تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-09-2017

کرشنا مینن‘ سرور سُکھیرا اور زکریا شاذ کا شعر

جن دنوں شری کرشنا مینن اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے خدمات سرانجام دے رہے تھے‘ امریکہ میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا جس میں المیہ اور مکمل تباہی کا فرق واضح کیا گیا تھا کہ اگر کرشنا مینن سمندر میں ڈوب جائیں تو وہ ایک المیہ ہو گا‘ اور اگر انہیں زندہ نکال لیا جائے تو مکمل تباہی!
ہمارے پیارے میاں صاحبان کے بارے میں بھی یہی بات بہت احترام کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ پاناما وغیرہ میں خدانخواستہ سزایاب ہو جائیں تو یہ یقیناً ایک المیہ ہو گا‘ اور وہ یہاں سے بچ نکلیں تو یوں سمجھیے کہ یہ مکمل تباہی ہو گی چنانچہ خدا نہ کرے کہ اس کے بعد بڑے میاں صاحب ہر جگہ یا ہر کسی سے یہ پوچھتے پھریں کہ مجھے قید کیوں کیا؟ چھوٹے میاں بھی کچھ کم نہیں ہیں کیونکہ ان کے خلاف معاملات تعداد میں شاید اور بھی زیادہ نکل آئیں۔ ویسے تو انہوں نے آج بھی کہا ہے کہ بے بنیاد الزامات میں مت اُلجھائیں‘ اور یہ بسا غنیمت ہے کہ انہوں نے اس کے ساتھ یہ نہیں کہا کہ کوئی الزام ثابت ہو جائے تو ان کا گریبان پکڑ لیں یا اُن کا نام بدل دیا جائے۔ البتہ ملتان میٹرو بس والے الزام کے حوالے سے جو موصوف نے ایک ادارے کے خلاف 48 گھنٹوں کے اندر اندر مقدمہ دائر کرنے کا چیلنج کیا تھا‘ اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا‘ اور جو انہوں نے چینی نائب سفیر‘ اپنے دوست سے اپنے حق میں بیان دلوایا ہے وہ بھی خاصا غیر متعلقہ ہے کیونکہ معاملہ وقوع پذیر تو پاکستان میں ہوا تھا‘ چین میں نہیں۔ البتہ اس کے حوالے سے جو اطلاع انہیں چینی حکومت کی طرف سے موصول ہوئی تھی‘ کسی ذمہ دار ادارے سے اس کی تحقیقات کروانے کی بجائے انہوں نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر اس کے سپرد کر کے کلین چٹ لے لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں برادران اسلام مینیجر تو بلا کے ہیں اور یہ ہر معاملے کو Manage کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن اب صورتحال ان کے بس سے باہر اس لیے ہو چکی ہے کہ اس دفعہ یہ براہ راست اللہ میاں کی پکڑ میں آئے ہیں جن کی لاٹھی تو بے آواز ہے اور وہ اپنی رسیّ دراز بھی کرتے ہیں لیکن آخر ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔
بہرحال‘ یہ موضوع اب اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اب اس پر خامہ فرسائی کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ اس لیے آج کچھ اور بات کریں گے۔ کل ہی ہمدم دیرینہ سرور سکھیرا کا فون آ گیا وہ جس بات کا رونا رو رہے تھے وہ اُن کی ہی نہیں‘ ہماری بلکہ ہم سب کی ہے کہ جگہ جگہ شہروں کے اطراف میں انتہائی زرخیز زمین کاٹ کاٹ کر کالونیاں بنائی جا رہی ہیں اور تیزرفتاری سے چلنے والا یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو آئندہ بیس برس سے پہلے ہی ہم ایک خوفناک غذائی قحط سے دوچار ہو سکتے ہیں اور کسی معقول ٹائون پلاننگ کے بغیر ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اوپر سے دیہات کی طرف سے شہروں میں نقل مکانی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے‘ اس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے‘ پھر اس سے بھی بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ اول تو پینے کا صاف پانی پہلے ہی مفقود ہے‘ اس پر طُرہّ یہ کہ زیرزمین پانی کی سطح بھی روز بروز انتہائی خطرناک حد تک کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہم پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں گے۔ بھارتی حرکات وسکنات کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی تو پہلے ہی ضرورت سے بہت کم ہے‘ پینے کے پانی کی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں ہے‘ چنانچہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ پانی ہمیں بھارت سے خریدنا پڑ جائے۔
اس سے بھی زیادہ المناک صورتحال ایک اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے چار کروڑ بچوں نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ وہ بڑے ہو کر چور اور ڈکیت نہیں تو اور کیا بنیں گے کیونکہ اب تو یہاں مزدوری بھی کرنے کو نہیں ملتی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض بارونق چوراہوں پر سو سو پچاس آدمی کھڑے ہوتے ہیں جو صرف اور صرف مزدوری کے متلاشی ہوتے ہیں اور اُن میں سے بھی زیادہ تر شام کو بے نیل و مرام اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ سو‘ ان مثالوں سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ہماری ہر حکومت کی ترجیحات ہی کچھ اور ہوتی ہیں اور انہیں عوامی مسائل کی ہرگز کوئی فکر نہیں ہوتی اور یہ صرف ان منصوبوں میں دلچسپی رکھتی ہیں‘ جن میں ان کے لیے یافت کا امکان زیادہ سے زیادہ ہو۔ ہمارے حکمران ملک میں ہسپتال‘ سکول اور کالج وغیرہ قائم کرنے‘ یا جو موجود ہیں‘ ان کی حالت بہتر بنانے کی بجائے موٹرویز‘ میٹروبس اور اورنج لائن ٹرین میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عام آدمی اپنے مسائل کے بوجھ تلے کس طرح کراہ رہا ہے۔ چنانچہ یہ زعما خود ملک کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن چکے ہیں کہ ہمیں باہر سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور ہمیں دشمن کے کسی حملے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ ہمارے لیے ہمارے اپنے حکمران ہی کافی ہیں!
زیادہ دُور نہیںِ‘ کوئی بیس پچیس برس پہلے ہی کی بات ہے کہ سرور سکھیرا کا رسالہ ماہ نامہ ''دھنک‘‘ ایک لیجنڈ جریدے کے طور پر جہاں تہاں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے تھا۔ اس کا اداریہ ''ان اینڈ آئوٹ‘‘ ایسا زوردار ہوا کرتا کہ سیاستدانوں اور بیورو کریسی سمیت سب کو اس کا انتظار رہتا، یہ صحیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا کرتا۔ خود بھٹو صاحب کا حکم تھا کہ رسالہ شائع ہوتے ہی اُن کی ٹیبل پر ہونا چاہیے۔ حکومت کی اندرونی کہانیاں اس میں دلچسپ پیرائے کے اندر بیان ہوا کرتیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ کہانیاں خود بیگم نصرت بھٹو مہیا کیا کرتی تھیں۔ اس میں ادب کی چاشنی کا بھی پورا پورا اہتمام ہوتا۔ میں نے اپنی نام نہاد کالم نویسی کا آغاز سکھیرا صاحب ہی کی فرمائش پر اُن کے پرچے میں کیا تھا جس کا معاوضہ وہ سٹیشنری کے خرچے کے طور پر مبلغ 70 روپے فی کالم ادا کرتے۔
اور‘ اب آخر میں زکریا شاذ (آزاد کشمیر) کا یہ خوبصورت شعر :
ایسے طوفان میں گھرتا چلا جاتا ہوں کہ بس
تیرے ہونٹوں کے کنارے نظر آتے ہیں مجھے
آج کا مقطع
مُکر بھی سکتا ہوں میں صاف شاعری سے‘ ظفرؔ
کہ دستخط ہی نہیں ہیں بیان کے نیچے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved