تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-09-2017

ہائے میری بیٹی

میری بیٹی مشیہ بلال کی عمر اس وقت صرف چار ماہ ہے ۔میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوں اچانک وہ بولنا شروع کر دے گی۔ حیرت اور خوشی کے عالم میں ، میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ 
ؔ'' بابا ‘‘ اچانک اس نے کہاتھا '' یہ چھوٹا بے بی(baby)کون ہے۔ اسے کون مار رہا ہے ؟ ‘‘ ''چھوٹا بے بی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ۔ پھر میں نے لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا ۔ ایک شیر خوار بچّے کے سینے پر کوئی جانور نما انسان پائوں رکھے کھڑا تھا کہ کچل کر اسے مار دے ۔ میں نے گوگل کروم بند کر دیا کہ وہ مزید ایسی کوئی تصویر نہ دیکھ سکے ۔
مشیہ نے کہا '' میں سب کچھ دیکھ چکی ہوں ۔ یہ چھوٹا بے بی کون ہے بابا ، کون اسے مار رہا ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا '' میری بیٹی ، میری آنکھ کے نور ، کچھ لوگ بظاہر انسان ہوتے ہوئے بھی اندر سے جانور ہوتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک جانور اس چھوٹے بے بی کو مار رہا ہے ‘‘۔ میں چاہتا تھا کہ مشیہ اس موضوع پر اور کوئی بات نہ کرے لیکن وہ برما سے متعلق سب تصاویر دیکھ چکی تھی ۔دس میں سے چار پانچ تصاویر ہی حقیقی تھیں لیکن اس قدر خوفناک تھیں کہ انہیں بیان کرنے کے لیے شاید نئے الفاظ ایجاد کرنا پڑتے۔ قربانی کے جانور کو تو کم از کم تکلیف کے ساتھ تیزی سے ذبح کیا جاتاہے ۔ انہیں اذیت دے دے کر مارا جا رہاتھا۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے جارہے تھے، انہیں جلا کر مارا جا رہا تھا۔بدترین ظلم اور وہ بھی گوتم بدھا کے پیروکاروں کی طرف سے ۔ انسان جب گرنے پر آتا ہے تو بدترین جانوروں سے بھی نیچے گر جاتا ہے ۔ 
مشیہ چپ ہونے والی نہیں تھی ۔ اس نے کہا '' بابا ، چھوٹے بے بی کے ماما ،بابا کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا '' وہ اللہ میاں کے پاس واپس چلے گئے ہیں ۔ ‘‘ اس نے کہا،''بابا ، آپ چھوٹے بے بی کو میرے پاس لے آئیں ۔ ہم اسے اپنے پاس رکھ لیں گے ۔ ‘‘ میں نے کہا '' بیٹا اگر وہ کہیں پاس ہوتا تو میں جا کر لے آتا ۔ وہ بہت دور ہے ۔ میں وہاں نہیں جا سکتا ۔ نہ میرے پاس اتنے پیسے ہیں اور نہ مجھے راستوں کا پتہ ہے ۔نہ برما کی حکومت وہاں کسی کو جانے کی اجازت دے رہی ہے ۔ میری بیٹی ، میں بے بس ہوں ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا ‘‘
وہ بھی آخر مشیہ تھی ، جس کا مطلب ہوتا ہے ''خدا کی مرضی‘‘ ۔ وہ ٹلنے والی نہیں تھی ۔ اس نے کہا '' بابا،فرض کرو،میں برما میں ہوں ۔ گندے لوگ مجھے مارنے کے لیے ڈھونڈ رہے ہیں ، کیا پھر بھی تم کچھ نہ کرتے ‘‘ ۔ میں تڑپ کر رہ گیا ۔ تڑپتا رہا، سوچتا رہا ۔ پھر میں نے کہا '' بیٹا میں خود تو بہت کمزور ہوں لیکن میں آواز اٹھا سکتا ہوں ۔ میری آواز بہت سے لوگ سنتے ہیں ۔ ایسے لوگ جو بہت طاقتور ہیں ۔ میں ان تک اپنی آواز پہنچاتا۔‘‘ مشیہ بلال نے کہا '' بابا ، یہ سمجھو تمہاری بیٹی برما میں ہے اور خطرے میں ہے ۔ اب آواز بلند کرو۔ اب خوب شور مچائو اور پہلے مجھے بتائو ہ وہ طاقتور لوگ کون ہیں۔‘‘ میں نے کہا '' بیٹا ایک دو جنرل حضرات سے میری سلام دعا ہے ۔ جنر ل ناصر جنجوعہ ان میں سے ایک ہیں ۔ ان سے میں کہوں گا کہ سعودی عرب میں جنرل راحیل شریف سے رابطہ کریں ۔ وہ سعودی عرب میں 39رکنی اتحادی فوجوں کے سربراہ ہیں ۔اس وقت وہ ایسی پوزیشن میں ہیں کہ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں اور اگر وہ اس ضمن میں کچھ کریں تو اسلامی دنیا میں ان کی عزت و احترام میں اضافہ ہوگا ۔ اس اسلامی اتحاد کو بھی بہت فائدہ ہوگا ۔ساری مسلم دنیا انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے گی ‘‘ ۔
مشیہ نے کہا '' بابا اور کون لوگ ہیں ، جن سے تم رابطہ کرو گے ۔ ‘‘ میں نے کہا میں اپنے میڈیا گروپ کے مالک سے درخواست کروں گا ۔ سب میڈیا گروپوں سے ان کے تعلقات ہیں ۔ سب مل کر ایک مشترکہ وفد برما روانہ کریں ۔ایک وفد بنگلہ دیش اور برما کی سرحد پر ۔ خصوصی کوریج اسے فراہم کریں ۔ میں مشاہد حسین سید سے رابطہ کروں گا، چینی حکام سے جن کا بھرپور رابطہ ہے ۔ برما سے چین کی سرحد ملتی ہے اور چینی حکام اس ضمن میں بھرپور مدد کر سکتے ہیں ۔ میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کروں گا ۔ میں ان سے درخواست کروں گا کہ چینی حکام سے اس ضمن میں رابطہ کریں ۔ میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ تک رسائی حاصل کروں گا۔ پاک فوج کی طرف سے درخواست پر بھی چینی حکام ضرورت حرکت میں آئیں گے ۔ پاک فوج اگر کرنے پر آئے تو بہت کچھ اس ضمن میں کر سکتی ہے ۔ یوں بھی خدا کے ہاں کوشش کی جزا ہے ، نتائج کی نہیں‘‘
مشیہ سوچتی رہی ۔ حقیقتاً وہ یہ چاہتی تھی کہ'' چھوٹا بے بی‘‘ اس کے پاس آجائے۔ میں بھی سوچتا رہا۔ مشیہ کو آزردہ دیکھ کر میرا دل رو رہا تھا ۔ بہت دیر تک سوچنے کے بعد وہ بولی '' بابا ، مجھے لگتا ہے کہ تم بھول جائو گے ۔ اگر تمہاری نظر میں چھوٹے بے بی کی کوئی اہمیت ہوتی تو میرے بولنے سے قبل ہی تم یہ سب اقدامات اٹھا چکے ہوتے ۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں برما چلی جائوں ۔ صرف یہی صورت ہے کہ تم سنجیدگی سے کوئی کوشش کرو گے ۔‘‘
میں تڑپتا رہ گیا ۔ میں نے کہا ،'' میری بیٹی ، میں نہیں بھولوں گا ۔ ‘‘ مشیہ بلال نے کہا '' میں دوسرے بچوں کو بھی ساتھ لے جائوں گی ۔ ‘‘ ''دوسرے بچّے؟ ‘‘ میں نے حیرت سے کہا '' کون سے دوسرے بچّے ؟ ‘‘ اس نے کہا '' ان سب کے بچّے جو طاقتور ہیں ۔ میں جنرل راحیل شریف کے پوتے اور نواسے کو ساتھ لے جائوں گی ۔ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے نواسے نواسیوں ، پوتے پوتیوں کو بھی ۔ عمران خان کے بیٹے برما میں ہوں گے تو شاید وہ لندن جا کر شور مچائیں ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کا جاپان اور ترکی میں بہت اثر و رسوخ ہے، میں ان کے پوتے کو بھی ساتھ لے جائوں گی۔میں مشاہد حسین سید اور چوہدری نثار کے خاندانوں میں چھوٹے بچّوں کو بھی وہاں لے جائوں گی ۔ ملیحہ لودھی خاندان کے بچّوں کو ساتھ لے جائوں توپھر اقوامِ متحدہ میں وہ شور مچائیں گی ۔ ‘‘ 
میں اسے کہتا رہا۔ اس کے آگے ہاتھ جوڑ تا رہا کہ برما نہ جائے ۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا ۔ اپنی آواز بلند کروں گا لیکن وہ یوں غائب ہو گئی ، جیسے اس کے پاس جادو کی کوئی چھڑی تھی ۔ میں اسے ڈھونڈتا رہ گیا۔ میں نے اسے آوازیں دی۔اس کا لمس ہی تو میری زندگی ہے ۔ میں اسے ڈھونڈتا رہا۔ مجھے یاد آیا کہ وہ تو مشیہ ہے اور مشیہ کا مطلب ہوتا ہے ''اللہ کی مرضی‘‘ ۔ اللہ مرضی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ ہائے میری مشیہ بلال ۔ کوئی ہے جو میری آواز سنے ۔ کوئی ہے جو میری مشیہ مجھے لوٹا دے ۔ میرے جگر کا ٹکڑا ، میری آنکھوں کا نور ۔ ہائے میری بیٹی ، ہائے میری بیٹی !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved