غزلوں اور نظموں پر مشتمل یہ کتاب بُک ہوم نے چھاپی اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ اندرون سرورق میں ہمارے دوست اور شاعر زاہد مسعود لکھتے ہیں :
''صبحِ وصال‘‘ شاہد رائو کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ اس سے پہلے ''متاعِ عشق‘‘ کے نام سے ان کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے۔ شاہد رائو ہماری نئی نسل کے سخن ور ہیں‘ ایسی نسل جو متاع عشق لے کر نکلی تھی اور وصال کی صبح کے انتظار میں قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ شاہد رائو نے اس سفر میں جو محسوس کیا ہے‘ من و عن تحریر کر دیا ہے۔ قارئین ان کے تجربے کی صداقتوں کی گواہی دے سکیں گے۔
میں نے نئی نسل کے لوگوں کو اظہار کے حوالے سے خوداعتمادی سے مالا مال پایا ہے اور ہمیشہ انہیں شاعری کے فنی تقاضوں کو سیکھنے سمجھنے کی تلقین کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ حوصلہ شکنی میرے خیال میں دل شکنی ہے۔ میں شاہد رائو کے شعری تسلسل کو سراہتے ہوئے انہیں شاعری کے میدان میں خوش آمدید کہتا ہوں اور ان کی محنتوں کی کامیابیوں کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ نئی نسل کے ایسے چشم و چراغ ہیں جو کتاب سے جُڑے ہوتے ہیں...‘‘۔
ہمارے دوست نے شاعر کو شاعری کے فنی تقاضوں کو سیکھنے سمجھنے کی جو تلقین کی ہے‘ بہت بہتر ہوتا اگر وہ شاعر میں وزن کی ابتدائی شرط کے حوالے سے بھی کچھ بتاتے کیونکہ کتاب وزن کی غلطیوں سے بھری پڑی ہے‘ یا کم از کم ان غلطیوں کی نشاندہی ہی کر دیتے تاکہ شاعر اس کتاب پر نظرثانی کر کے‘ یا کروا کر اس کا بنیادی عیب دور کر لیتا۔ چنانچہ زاہد مسعود صاحب کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہ شاعر کو شاعری کے فنی تقاضے سیکھنے چاہئیں‘ میں محض ان غلطیوں کی نشاندہی کر رہا ہوں تاکہ وہ آئندہ اس کا خیال رکھیں‘ اور یہ دل شکنی نہیں‘ محض اصلاح احوال کے لیے ہے۔ لہٰذا میں اس کتاب کی غزلوں سے چند اشعار پیش کر رہا ہوں جن کا وزن درست کرنے کی ضرورت ہے :
طلوعِ سحرِ وصال جاناں
خمارِ رنگ و جمالِ جاناں
بجنابِ عشقِ دلِ شکست
لو‘ اُٹھا ہے پھر سے سوالِ جاناں
وہ پگلا مر گیا شاہد
اُس پگلی کو بتا دینا
شعورِ عشق ہوتا ہے‘ تو
بھلا ہم عشق کیوں کرتے
تم بھی اچھے طبیب ہو صاحب
مرض کو لا علاج کہتے ہو
دریدہ دامنِ دل میں دُکھوں کا اِک خزینہ ہے
مری چشمِ آب میں جانے یہ کیسا آبگینہ ہے
دلِ معصوم کس جگہ کھویا
تلاشِ بسیار کو چلو شاہد
اِک ترے خواب سے جُڑی آنکھیں
دیکھ ایسے ہوئے ہم سودائی
شعر و نغمہ میں ڈھل گئے ہو تم
موضوع سُخن تیری رعنائی
چوٹ لگی تو یاد آئے
دوست بہت پرانے سے
آس اُمید کی باتیں کرنا
بسر یوں کالی راتیں کرنا
حُسنِ یوسف نہ عشق زلیخا سا
پھر بھی جانے کیا زعم ہے دل کو
سرِبازار مطلوب ہوا‘ وہ
جس دل میں بھی عشق سمایا
اک نگہِ دلبر پہ ہوں نچھاور
ہزار جانیں‘ ہزاروں منصب
نہ کچھ اسلوب غالبؔ سے نہ ناصرؔ سی غزل کوئی
ادب کے نام پر اب تحریر ہوتی ہیں خرافاتیں
اللہ رے‘ یہ کیسے مسلماں
اسلام نہ مانیں‘ تکفیریں ڈھونڈیں
دل کہ بغاوت پر آمادہ
حُکام شہر تقصیرمیں ڈھونڈیں
دراصل یہ سرورق نویس زاہد مسعود صاحب کا کام تھا جو ہم نے کر دیا ہے اس لیے شاعر ہو نہ ہو‘ زاہد مسعود کو ہمارا شکرگزار ضرور ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ نشاندہی کا یہ تردد کر دیتے تو شاید کتاب وزن کی غلطیوں سے پاک اور بہتر انداز میں شائع ہوتی۔ ارے ہاں! یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ اس کتاب کا انتساب ''پڑھنے والوں کے نام‘‘ ہے‘ جن میں اب یہ خاکسار بھی شامل ہے!
اور‘ اب آخر میں احمد مشتاق کے یہ دو شعر :
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں‘ یہ ہوا‘ یہ رات
اُس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
ہوتی ہے شام‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
آج کا مطلع
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہُوا تُو