تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-09-2017

سینٹ انتھونی چرچ اور سیاست

مسلم لیگ نواز کی جانب سے حلقہ این اے 120 کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم کے سلسلے میں لارنس روڈ پر واقع سینٹ انتھونی چرچ میں ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی دوسری سیا سی جماعتوں اور خصوصی طور پر تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان پر سخت تنقید کی گئی۔ اس خطاب میں مخالفین پر تنقید کے دوران بار بار تالیاں بجانے کا بھی خاص اہتمام اور بندو بست کیا گیا ...بتایا تو یہی گیا کہ چرچ کو دعائیہ تقریب کیلئے استعمال کیا جائے گا لیکن ایک مرکزی وزیر کامران مائیکل الیکشن کمیشن کے قوانین کا سب کے سامنے منہ چڑاتے رہے اور ابھی تک انہیں کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا؟ یکم ستمبر کو اس دعائیہ تقریب کے نام پر کئے جانے والے جلسے سے لگتا تھا کہ یہ رومن کیتھولک کا کوئی چرچ نہیں بلکہ موچی دروازہ یا ناصر باغ جیسا کوئی سیا سی میدان ہے۔ وہاں موجود میڈیا کے نمائندے اپنی زندگی میں ہونے والی اس پہلی اور انوکھی قسم کے دعائیہ اجتماع کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے کہ کیامسلم لیگ نواز مسیحی برادری کے ووٹروں سے مدد مانگ رہی ہے جن کے شانتی نگر، گوجرہ، سمبڑیال اورسینٹ جوزف بادامی باغ میں گھر بار بہن بھائی اور ماں باپ کو انہی کے دورِ حکومت میں راکھ کیا گیا...اور گڑھی شاہو لاہور کے گوشہ امن کا واقعہ تو ابھی چند روز پہلے کا ہے جس کے زخم ابھی تک ہرے ہیں...کیتھولک چرچ سے متعلق حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد نے حکومتی شخصیات کی چرچ کو الیکشن مہم کیلئے استعمال کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔جس بات پرانتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا وہ ملک بھر کے میڈیا کی طرف سے چرچ کی اس سروس کی وسیع پیمانے پر کوریج کرتے ہوئے اسے این اے120 کے ضمنی الیکشن کی کمپین کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرنا تھا۔مسیحی برادری
سے تعلق رکھنے والوں کے دعا کے نام پر اکٹھے کئے گئے اجتماع سے خطاب میں ان سے اپیل کی گئی کہ وہ 17 ستمبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نواز کو ووٹ دیں کیونکہ ان کے محبوب لیڈر کو ناجائز طریقے سے وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا ہے حالانکہ ان پر الزام تو ڈھیروں لگائے گئے لیکن نااہل اس پر کیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟ اس دعائیہ تقریب میں مسیحی برادری کو بار بار یہ بتایا گیا کہ اس ملک میں سوائے میاں نواز شریف کے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا اور کوئی بھی نہیں...یہ تو اب اس حلقہ انتخاب کے مسیحی ووٹرز پر منحصر ہے کہ وہ اپنا ووٹ کس کے کھاتے میں ڈالتے ہیں لیکن مزنگ کے بہت سے ایسے مسیحی ووٹرز، جنہیں پنجاب کی میونسپل کارپوریشن یا صفائی سے متعلق لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میںملازمت دی گئی ہے، نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب حکومت کے وزراء اور میئر ان کے شناختی کارڈ یہ کہتے ہوئے اپنے قبضے میں لے رہے ہیں کہ پولنگ کی صبح آپ کو ہم اپنی گاڑیوں میں ووٹ کاسٹ کرانے کیلئے لے کر جاتے ہوئے یہ کارڈ آپ کے حوالے کر دیں گے...اور ان کارڈز کی فوٹو کاپیاں ہمارے پاس ہیں اگر کسی نے بھی شیر کے علا وہ کسی اور انتخابی نشان پر مہر لگائی تو حکومت کو اسی وقت پتہ چل جائے گا اور اس شخص کی ملازمت فوری طور پر ختم کر دی جائے گی،اگر کسی گھرانے نے شراب کے پرمٹ بنوائے ہوئے ہیں تو ایکسائز کے دفتر سے ان کے یہ پرمٹ بھی منسوخ کرا دیئے جائیں گے۔
کیا مسجد اور چرچ کو انتخابی مہم کیلئے استعمال کرناالیکشن قوانین کے تحت جائز ہے؟ اگر مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنا جائز نہیں تو پھر الیکشن کمیشن یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش کیوں ہے؟کیا یہ ضروری ہے کہ جب تک کوئی فریق الیکشن کمیشن کو شکایت نہ کرے الیکشن کمیشن اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوگا؟یہ کہنے یا بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پنجاب کا الیکشن کمیشن در اصل رائے ونڈ کا ہی ایک حصہ لگ رہا ہے؟ پنجاب کا چیف سیکرٹری اور سی سی پی او بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ بھی فواد حسن فواد کی طرح میاں شہباز شریف اور میاںنواز شریف کے گھرانے کے ادنیٰ ورکر ہیں اس لئے ایسے اہل کار جن کے ضمیر ابھی زندہ ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ ایک دن انہیں خدا کے حضور جواب دہ ہونا ہے، وہ بر ملا کہہ رہے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت لیسکو، ایل ڈی اے ، واسا، پولیس اور انتظامیہ بیگم کلثوم نواز کے ووٹوں کے حصول کیلئے جو کچھ کر سکتی ہے کر رہی ہے اور روکنے والا کوئی نہیں! 
الیکشن کمیشن کی مصلحت اپنی جگہ لیکن عیسائی تنظیموں نےRev. Sebastian Shaw Bishop of Archdiocese of Lahore سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان مسیحی لیڈروںمیں ملک کے نامور محقق،سول اور آرمڈ فورسز سے تعلق رکھنے والے سابق افسران کا کہنا ہے کہ سینٹ انتھونی چرچ جیسی قابل احترام عبا دت گاہ کو ایک سیا سی جماعت کے پلیٹ فارم کے طور استعمال کرنے کوپاکستان اور پاکستان سے باہر ہزاروں مسیحی خواتین و حضرات نے انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے...چرچ کاMotive کبھی بھی کسی کے سیا سی ایجنڈے پر عمل کرنا نہیں رہا کیونکہ چرچ پاکستان کے تمام لوگوں کیلئے احترام کی جگہ ہے نہ کہ کسی ایک شخص یا ایک سیاسی جماعت کیلئے۔
پاکستان کرسچین کمیونٹی کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے Staging controversial political compaign of PMLN in St. Anthony's Church عیسائی برادری اس عمل کو مسیحؑ کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہوئے ،اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی اور مسلم لیگ نوازسے پوچھتی ہے کہ کل کو جب وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے تو کیا وہ برداشت کریں گے کہ مسیحی عبادت گاہوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جائے؟
بریگیڈئر ریٹائرڈ سیمسن سائمن شرف نے سینٹ انتھونی چرچ کو مسلم لیگ نواز کی انتخابی مدد اور اعانت کیلئے استعمال کرنے پرVATICAN AND THE AMBASSADOR OF THE HOLY SEE IN PAKISTAN کے نام لکھے گئے اپنے خط میں درخواست کی ہے کہ'' ایک کرسچین لیڈر اور کیتھولک ممبر ہونے کے ناطے آپ کو انتہائی افسوس سے اطلاع دی جا رہی ہے کہ یکم ستمبر کو لاہور کے سینٹ انتھونی چرچ میں چرچ انتظامیہ اور آرچ بشپ Sebastin Frances Shaw نے مسلم لیگ نواز کی قیا دت کو لاہور میں ہونے والے ایک ضمنی الیکشن کیلئے ایک با وقار ادارے کو استعمال کیا جس میں کرسچین کمیونٹی کیلئے ملک کی دوسری قابل احترام مذہبی اور سیا سی جماعتوں کو مسلم لیگ نواز نے ناشائستہ تنقید کا نشانہ بنانے کے علا وہ پاکستان کی سپریم کورٹ جیسے قابل احترام ادارے کے بارے میں بھی انتہائی نا مناسب الفاظ استعمال کیے ۔غیر جانبدارمیڈیا کے ذریعے اب تک حاصل کی جانے والی معلومات کے ذریعے ،آپ کے نوٹس میں ہو گا کہ مسلم لیگ نواز کی اسی حکومت کے دور میں شانتی نگر،گوجرہ،کوریاں اور سینٹ جوزف بادامی باغ کے گرجاگھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا اور اس میں مارے جانے والوں کی تعداد بتانا ضرروی نہیں کیونکہ یہ سب آپ کے ریکارڈ میں ہے؟۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سیمسن سائمن شرف نے اپنے خط میںVatican کو اس صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سینٹ انتھونی چرچ کو اس حکومتی جماعت کی انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا گیا، جس نے حال ہی میں لاہور کی آبادی گڑھی شاہو میں جائنٹ کیتھولک چرچ آف پاکستان کے اولڈ ہوم'' گوشہ امن‘‘ کو بھی زبردستی کرسچین کمیونٹی سے چھین لیا ہے۔۔۔۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved