تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-09-2017

سامری جادوگر کی پریشانی

خواب دیکھنا انسان کا انتہائی بنیادی حق ہے اور اِس حق کو بہت سے لوگ فریضے کا بھی درجہ دے دیتے ہیں۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی تو ہے نہیں اور یہ کسی کی شخصی جاگیر بھی نہیں بس وہی خواب دیکھے گا، کوئی اور نہیں۔ ہاں، کچھ لوگ خوش نصیب ہیں کہ اُن کے حصے میں زیادہ مزے کے خواب لکھ دیئے گئے ہیں۔ مثلاً منظور وسان کے خواب۔ یہ سیاسی خواب خاصے رس دار ہوتے ہیں یعنی اِن میں پیش گوئیاں بھی ہوتی ہیں، حقیقت کی تھوڑی بہت عکاسی بھی اور سب سے بڑھ کر اپنی مرضی کے چُورن چٹنی بھی۔ یہ خواب قلم کے ذریعے مُو شِگافی کے فن کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے نعمت کا درجہ رکھتے ہیں۔ منظور وسان جب اپنا کوئی خواب بیان کرتے ہیں تو رپورٹر خبر بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کالم نگار اپنے قلم کی جولانیاں دکھانے کی راہ پاتے ہیں۔ 
ویسے تو آج کل بیشتر خواب عجیب ہی ہوتے ہیں مگر ہم نے کل واقعی عجیب خواب دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ سامری دونوں ہاتھوں سے (اپنا) سَر تھامے جادوگر پریشان بیٹھا ہے۔ سامری جادوگر کے حوالے سے جو کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں یا پھیلائی گئی ہیں اُنہیں پڑھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو پریشان کرنے کا ماہر ہے۔ کہانیوں اور داستانوں میں جادو کے کمالات دکھا دکھاکر ایک خلقت کو پریشانی میں مبتلا کرنے والا خود پریشان ہے، یہ دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ ہم نے مزاج پُرسی کے بعد اُداسی اور پریشانی کا سبب پوچھا تو سامری جادوگر نے ایسی روتی شکل بنائی کہ ہمارا دل یوں بھر آیا گویا کسی نے مٹھی میں جکڑ کر بھینچ دیا ہو! ہماری طرف سے استفسار کی دیر تھی، سامری جادوگر بے چارہ تو بھرا بیٹھا تھا۔ گنجائش پیدا ہوتے ہی داستانِ امیر حمزہ لے کر بیٹھ گیا۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا ''میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ میں ایسا کون سا کمال ہے۔ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں جادوگر ہوں تو پتا نہیں کیسے کیسے کمالات دکھاتا ہوں گا اور ایک خلقت حیرت زدہ رہ جاتی ہوگی۔ دنیا کی سیر کو نکلا تھا۔ کئی ملک گھوم چکا ہوں۔ اب کچھ دن سے پاکستان میںہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب احساس ہوا ہے کہ مجھے تو کوئی کمال آتا ہی نہیں۔ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اب اُسے دیکھ کر پریشان اور پشیمان ہو رہا ہوں۔ میں کہاں اور جادو وادو کہاں؟‘‘ 
ہم نے پوچھا ایسی کیا بات ہوگئی کہ آپ کو اپنے جادوئی کمالات ہیچ دکھائی دے رہے ہیں۔ جواب ملا ''بات یہ ہے بھائی! پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر دیکھا ہے تو کچھ اندازہ ہوا ہے کہ جادو ہوتا کیا ہے۔ یہاں کے لوگ ... اُف توبہ! میری ہستی کیا اور میرے جادو کی حقیقت کیا؟ ہماری جادو نگری میں جو بڑے کمالات پائے جاتے ہیں وہ تو یہاں بچوں کے لیے بھی بائیں ہاتھ کے کھیل سے بڑھ کر کچھ نہیں! جادو نگری میں جو زیادہ بک بک کرتا ہے اُسے ایک طرف بٹھا دیتے ہیں۔ اہمیت کچھ کر دکھانے کی ہے، محض بتانے اور بَتیانے کی نہیں۔ اور یہاں آپ کے پاکستان میں؟ یہاں جو بہت زیادہ اور لایعنی باتیںکرے وہ تجزیہ کار بن کر سیلیبریٹی بن جاتا ہے! ہم جادوگروں نے تو کبھی سوچا نہ تھا کہ بات کا بتنگڑ بنانے والوں کی بھی ایسی چاندی ہوجائے گی! سوچا تھا تھوڑی بہت ٹریننگ لے کر میں بھی یہی کام کرنے لگوں مگر کیا کروں، عادت سے مجبور ہوں۔ مجھے محض باتوں کی کمائی سے پیٹ بھرنے کی عادت نہیں۔ میں تو باضابطہ فن دکھاکر کچھ کھا کماتا ہوں!‘‘ 
یہ تو ہوا تجزیہ کاری کا تذکرہ۔ اور کون کون سی باتیں ہیں جو سامری جادوگر کو پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں؟ سامری جادوگر نے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا ''بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان کی جادو نگری میں تو ہر معاملہ ایسا جادو ہے کہ سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس معاملے کو کتنے مارکس دیئے جائیں! یہی دیکھ لو کہ یار لوگ پچیس تیس ہزار کی سرکاری نوکری میں دو ڈھائی کروڑ کا مکان خرید لیتے ہیں اور پندرہ بیس لاکھ کی گاڑی میں گھومتے پھرتے ہیں! اب یہ جادو نہیں اور کیا ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ جادو وہ ہے کہ ہر دیکھنے والے کے سَر چڑھ کر بولتا ہے! دیکھنے والے پہلے واہ کرکے اور پھر آہ بھرکے رہ جاتے ہیں! زمانے بھر سے معاشیات کے شعبے کے اعلٰی ترین دماغ بھی جمع کیجیے تو سمجھ نہیں پائیں گے کہ اِتنی سی تنخواہ میں اِتنے اللّے تللّے کیونکر ممکن ہیں! معاشیات سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے جادوگر سے کم نہیں ہوتے مگر پاکستان کے معاملات کا جائزہ لینے پر وہ بھی اپنی کم مائیگی کو پوری شدت سے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے! اُن کی بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک معمولی سی نوکری میںکوئی فیکٹریوں، بنگلوں اور گاڑیوں کا مالک کیونکر ہوسکتا ہے! اور اگر اِس کی توجیہ کے لیے وہ جادو نگری کی طرف دیکھیں گے تو جادوگروں کو بھی لاچار ہی پائیں گے! ہم بھلا ایسے 'کمالات‘ کی حقیقت کو کیا جانیں؟‘‘ 
سامری جادوگر بے چارہ کیا جانے کہ کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانے کا فن پاکستانیوں پر ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ قومی خزانہ خالی ہے اور پیٹ بھرے ہوئے ہیں! کبھی خزانے کو بھرنے میں اتنی الجھن ہوتی ہے کہ اس منزل سے گزرنا جادو نگری کا کوئی بڑا کمال معلوم ہوتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بھرا ہوا خزانہ چٹکی بجاتے ہی یوں خالی ہو جاتا ہے کہ قدیم داستانوں میں پائی جانے والی جادو نگری کا سربراہ بھی آکر دیکھے تو اُس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے اور وہ چکراکر گِر پڑے! وسائل برائے نام ہیں مگر ملک دھما دھم اور چکا چک چل رہا ہے۔ ایسا تو شاید جادو نگری میں بھی ممکن نہیں! 
سامری جادوگر نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے ہم سے ایک فرمائش بھی کی۔ ہم اُس کی فرمائش سُن کر پہلے اور پھر شرمندہ ہوگئے۔ کہنے لگا ''ہم پاکستان سے اور کچھ نہیں چاہتے۔ بس یہ ہے کہ وزیر خزانہ اور پندرہ بیس سرکاری ملازمین ہماری جھولی میں ڈال دیئے جائیں۔‘‘ 
وزیر خزانہ؟ ہم پھر حیران ہوگئے۔ سامری جادوگر بولا ''ہاں، وزیر خزانہ۔ جادو نگری میں لوگ کمالات سیکھنے کے لیے محنت کر کرکے تھک گئے ہیں۔ پندرہ بیس سرکاری ملازمین کی خدمات میسر ہوں گی تو وہ پُرسکون اور آرام دہ زندگی بسر کرنے کا ہُنر ہمیں بھی سکھاکر ہماری مشکلات کچھ تو کم کریں گے۔ اور وزیر خزانہ؟ اُن کی مدد سے ہم سیکھ پائیں گے کہ خزانہ خالی ہو تو کیسے بھرا جائے اور بھرا ہوا خزانہ خالی کیسے کیا جائے!‘‘ 
خالی پڑے ہوئے خزانے کو بھرنا اور بھرے ہوئے خزانے کو خالی کرنا دو طرفہ ہُنر ہے۔ بہ قول خواجہ میر دردؔ ع 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے! 
ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ خواب میں آکر سامری جادوگر نے اپنی بے بسی و کم مائیگی کا اظہار کیا ہے یا ہمارے قومی وجود پر فردِ جرم عائد کی ہے۔ کوئی بتائے کہ جو کچھ اُس نے کہا اُس پر شرمسار ہوں یا فخر سے سَر بلند کریں! ہم تو سامری جادوگر سے یہ عرض کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں کہ بھائی! جن باتوں نے تمہیں حیران و پریشان کر رکھا ہے اُنہی باتوں سے ہمارے دماغوں میں بھی گھنٹے بجتے رہتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved