تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-09-2017

عامر سہیل کی شاعری‘ ایک چیلنج

نئی شاعری کے حوالے سے اپنی پہچان بنا لینے والا یہ شاعر بہاولنگر (میری جائے پیدائش) کے گورنمنٹ کالج کے شعبہ تدریس سے منسلک ہے۔ ''اک نخرا باغ سے چنتا ہوں‘‘ اس کا تازہ مجموعہ کلام ہے۔ کم و بیش 20 نظم و نثر کے مجموعے ان کے کریڈ میں پہلے ہی سے موجود ہیں جن میں زیادہ تر شائع شدہ ہیں اور کچھ زیرِ طبع۔ میں ان کا شروع ہی سے قائل چلا آ رہا ہوں جبکہ میرا ایک شعری مجموعہ ان کے اور سلیم شہزاد کے نام سے منسوب بھی ہے۔ یہ کتاب بُک ہوم نے چھاپ کر اس کی قیمت 600 روپے رکھی ہے۔ اس کا کوئی دیباچہ ہے نہ سرورق کی تحریر‘ شاید اس لیے کہ اسے ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
میں نے ایک جگہ کہہ رکھا ہے کہ شاعر کا پہلا کام یہ ہے کہ دوسروں سے مختلف ہو۔ یہ نہ صرف مختلف ہے بلکہ ہم عصروں کو آنکھیں بھی دکھا رہا ہے کہ یہ شاعری صحیح معنوں میں ایک چیلنج ہے۔ اس کا نہ صرف ڈکشن مختلف ہے بلکہ اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی‘ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ طرز اظہار خود موضوع ہے اگر زیادہ اہم نہیں تو اس کے برابر ضرور ہے۔ یہ ''بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے‘‘ سے سراسر الگ قسم کی شاعری ہے جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نئی شاعری کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوتی ہے ان کے لیے کتاب ایک خوشخبری سے کم نہیں ہو گی۔ اس میں نظمیں غزلوں سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذائقہ آپ کو چکھاتے ہیں۔
گیلے گیت کی حمد
ایک سُرمہ تیری آنکھ میں؍ اک سُرمہ میرا گیت؍ میں پنکھ پجاری جسم کا؍ مری فلکاں وچ مسیت ؍ چت نار کا جسم اُچھالنا؍ جو میراؔں کی تصویر؍ چت ماہی کے دربار میں؍ مری گدڑی لیرولیر؍ مرے جسم میں تیرا آہلنا؍ اس دنیا سے دلگیر؍مرے اندر ڈیرے ڈالنا ؍ جب رات ہو زلف اسیر؍ مرے اشک سے چولہے بالنا ؍ جب بھادوں جائے بیت؍ مرارتھ دیوی ارسالنا؍ جب گیلا ہو ہر گیت
ایشیا بیرکوں میں نواسنج ہے
لگ کے گھُٹنے سے بیٹھو! مصائب سنو؍ ایشیا بیرکوں میں نواسنج ہے؍ ایشیا نیلی آنکھوں کی شطرنج ہے؍ ہم نے اقبالؔ کی شاعری سے کہا؍ ایشیا کو تری ہوک درکار ہے؍ ایشیا آبلوں سے اٹی نار ہے؍ ایشیا تن سے بارود جھٹکے کبھی؍ ایشیا کے محافظ خدائی پہ ہیں؍ ایشیا سینکوں سے نہ چٹخے کبھی؍ سینکوں سے اٹی سر کٹی سرحدیں؍ ایشیا جیسے غصہ کلیجے میں ہو؍ جیسے نفرت برہمن کے بھیجے میں ہو؍ ایشیا جیسے بارود مرلی میں ہے؍ جیسے ناجائز اولاد پھینکی ہوئی؍ ایشیا اس طرح شب کی کھرلی میں ہے؍ وہ کلب ڈانسر جھک کے ٹیڑھی ہوئی؍ پیٹ پھر پاپ سے پھوٹنے لگ گیا؍ ایشیا جاپ سے جھولنے لگ گیا؍ ایشیا؍ تیرے بالوں کی لیئر کٹنگ؍ درد کی فاسٹنگ؍ ایشیا تجھ کو زنخوں نے جنما نہیں؍ رام سیتا کی گُت میں ہے؍ بن ما نہیں؍ فیل بانوں نے جھانکا ہے شطرنج سے؍ نار پیروں کو دھوتی ہے اسفنج سے؍ ایشیا سر اُٹھاتا نہیں رنج سے؍ ایشیا پوشکن کے علاوہ سنو؍ اشک پاشی ہو سلگی ہوئی راکھ پر؍ میری گدڑی میں جلتا ہے جاوا سنو؍ فوجی مشقوں کی وردی سے پھوٹا ہوا؍ ایشیا اپنی زردی سے ٹوٹا ہوا؍ اپنی گرمی سے سردی سے رُوٹھا ہوا؍ ایشیا کی شرابوں میں شکوا سہی؍ ایشیا کے فسوں کار جاگے نہیں؍ ایشیا کے اُجالوں کا اغوا سہی؍ ایشیا گدڑی میں چھپائے ہوئے لعل؍اندھی ہوائوں میں روتا رہا؍ ایشیابخت کی تیرگی اپنے ماتھے سے؍ دھوتا رہا؍ بچیاں اپنے کرتوتوں پہ دھبّے لیے؍ خون کے کوریڈروں میں بچھتی رہیں؍ کوئی مغرب نہ مشرق؍نہ دمڑ ی نہ چمڑی؍ مگر شرک کی لالٹینوں میں انفاس جلتے رہے؍ لوگ کاندھوں پہ اپنے جنازے لیے؍ ایشیا کی گپھائوں میں چلتے رہے (نامکمل)
یروشلم
صبا بندقبا کو ڈھیل دیتے ہیں؍ سلیماں کے مصاحب‘ حضرت دائود کے حاجب؍ سماوی ناشتہ کرتے ہیں اُن کی آل اور احباب کے جبیُ؍ کلیجی عصمتوں کو چھیل دیتے ہیں؍ عرب کے طائروں اور زائروں کو تب پتا چلتا ہے ؍ جب کفار کچی اوجھڑی مصحف کی گردن سے چھوا کر؍ عورتوں میں بانٹتے ہیں‘ بے جلے چولہوں کو (عامر کاسنی کولہوں کو) ٹھوکر مارتے ہیں سگرٹوں کے کش لگا کر؍بچیاں تبدیل‘ کر دیتے ہیں؍ ہمیں احرام کے لٹھے میں نیلی موت عزرائیل دیتے ہیں؍ کوئی تاوان اور قصاص ایسا ہو؍ کہ تم ہم سے کہو؍ ہم بھی فلسطینی یمن کی عزتوں؍ لبنان کے بوسوں کی گیلی شدتوں؍ کورے کٹورے خون بہا کی حد میں اسرائیل دیتے ہیں۔
حُسن پہ ڈاکا
ناف ہے کوئی؍ ناف میں اُڑتی تتلی کا اک گھایل نخرا؍ جیون کا اسراف ہے کوئی؍ جسم پہ اتنے نیل ہیں جتنے؍سانس بگھارے گوری نے؍ کیا کیا جتن دکھائے آنسو؍سانس رجھائے چھوری نے؍ حُسن پہ ڈاکا رات پڑا وہ؍ توڑا ازوا زوری نے؍ سانپوں کا انصاف ہے کوئی ،ناف ہے کوئی!
اور‘ اب ان کی غزل کے تیور دیکھیے:
علاوہ تیری آنکھوں کے علاوہ؍مرے سینے پہ ہے راتوں کا دھاوا؍تری باتوں کے پھولوں سے غزل گوں؍ مری گارے کی سانسوں کی کجاوا؍ مجھے نیکی کے زخموں سے گلہ ہے؍ کوئی توہین ہے یا اک دکھاوا؍ چہار اطراف سے باندھے گا مشکیں؍تری آواز کا جھوٹا بلاوا؍ پری ہو‘ قاف کے گجرے پہن کر؍ کرو آ کر گلی کوچوں کو ساوا؍ مری پسلی میں تیرا سانولا پن؍مرے جوتے میں دھوکے کا پتاوا؍کبھی سولی کے تختے پر پرکھنا ؍ پری زادو! مرے عشقے کا دعویٰ؍ ابھی ڈوبی نہیں آنکھوں کی نعمت؍ ابھی چہرے تلک پہنچا ہے لاوا؍ میں گھر میں قید ہوں سالوں سے عامر؍ ترے نخرے کریں گے کب مداوا۔ ان کا مزید کلام بھی گاہے بگاہے پیش کرتا رہوں گا‘ انشاء اللہ
آج کا مطلع
دل کی تختی سے مٹایا ہُوا تُو
یاد آتا ہے بُھلایا ہُوا تُو

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved