تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     08-09-2017

17 روزہ اور کئی سالہ جنگ

پاکستان بھر میں 6 ستمبر کا دن حسب معمول خوب منایا گیا مگر اس بار اس کا رنگ نرالا بھی تھا اور خوب گاڑھا بھی تھا۔ چھ ستمبر کے شہداء کی یادیں بھی تھیں۔ عزم و حوصلہ کا اظہار بھی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ان 80 ہزار شہداء کا تذکرہ بھی تھا کہ جو پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ ان میں دس ہزار کے قریب پاک فوج کے شہداء بھی ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ جی ہاں! 80 ہزار شہداء ایک ایسی جنگ کے شہید ہیں جو کسی بارڈر پر نہیں لڑی گئی‘ کسی ملک کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا گیا کہ اس میں ہمارے لوگ شہید ہو گئے۔ نہ ہی کسی ملک نے ہمارے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور نہ ہی اپنی بری‘ بحری اور فضائی فوج کو ہم پر حملہ آور کیا کہ ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہو گئے۔ یہ جنگ انوکھی قسم کی ہے جو ہفتوں‘ مہینوں اور دو تین سال کے دورانیے پر مشتمل نہیں‘ بلکہ ہم یہ جنگ گزشتہ دس بارہ سال سے لڑتے چلے آ رہے ہیں اور اب بھی لڑ رہے ہیں۔ 1965ء کی جنگ، سترہ دن کی جنگ تھی۔ ہم چھ ستمبر کو اس فتح کا جشن مناتے ہیں اور پچھلے 52 سال سے مسلسل منا رہے ہیں ۔ہم قوم کو بتاتے ہیں کہ انڈیا ،جو ہم سے تین چار گنا بڑا ملک ہے،کی جارحیت کے خلاف ہم نے کیسے بند باندھا اور ہمارے جانبازوں نے کیسے پاکستان کے ایک ایک انچ کا تحفظ کیا۔ ہم نے کئی سال پر محیط جنگ کو بھی مذکورہ جنگ کے دن ہی اس طرح منا لیا کہ اس جنگ کے شہداء کا تذکرہ بھی چھ ستمبر کے دن میں ہی شامل کر لیا ۔میں کہتا ہوں یہ اچھی بات ہے پاکستان کے شہداء ایک ہی ہیں چاہے ان کا کسی بھی جنگ سے تعلق ہو مگر برسوں پر محیط جنگ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے ایک الگ دن مختص کیا جائے کیونکہ یہ جنگ لمبی بھی ہے، پاکستان کے اندر لڑی گئی ہے، قربانیاں بھی کہیں زیادہ ہیں اور ہمارا معاشی نقصان بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
مذکورہ جنگ کے شہداء کی یاد کو منانے کے لیے ہمیں جس دن کا تعین کرنا چاہیے ،میرے خیال میں اس کے لئے وہی دن مناسب رہے گا جس دن آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا تھا۔ تب آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔ ضرب عضب کی صورت میں جواب سامنے آیا۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میںجو ''ردالفساد‘‘ کی شکل میں جاری ہے۔ جنگ کا عمومی اصول یہ ہے کہ شہداء کی تعداد کی نسبت زخمیوں کی تعداد تین گنا ہوتی ہے یعنی پاک فوج کے دس ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں تو تقریباً 30 ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس سمیت ، پاکستان کے 70 ہزار شہری شہید ہوئے ہیں تو مذکورہ اصول کے تحت ہمارے زخمیوں کی تعداد دو لاکھ دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ پاک افواج کے جوان اور سکیورٹی فورسز کے لوگ ہوتے تھے ،یوں وہ ہر لمحے ایک انجانے دشمن کی زد میں ہوتے تھے۔ وہ اپنی پوسٹوں پر خطرات میں بھی ہوتے تھے اور دہشت گردوں کے خلاف موقع ملنے پر برسرپیکار بھی ۔یہ 20 کروڑ عوام کی پہرہ داری بھی کرتے اور دشمن سے لڑائی بھی ۔ جو جنگ ہم کر رہے ہیں وہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں نے ہمارے خلاف شروع کر رکھی ہے اس کا Base camp افغانستان بھی بنا اور پاکستان کے اندر بھی ،یہیں سے لوگ خرید کر ہماری ہی بستیاں اور محلے بیس کیمپ بنائے گئے۔ پاکستان اس جنگ کو اسی نوے فیصد تک جیت چکا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایسی بڑی کامیابی موجودہ دور میں کوئی ملک حاصل نہیں کر سکا۔ اس لیے میری رائے ہے کہ اس جنگ کے تمام پہلوئوں کو سامنے لا کر اس پر چھ ستمبر کی طرح ایک دن مقرر ہونا چاہیے۔ اس جنگ کے ہیروز کو تمغے بھی ملنے چاہئیں۔ اس پر لکھاریوں نے جونظریاتی کام کیا ہے، اس کام کو بھی سامنے لانا چاہیے۔ یعنی ہمیں اپنے کام کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک اور کام بھی کرنا چاہیے کہ جب ہم یہ دن منائیں تو دنیا بھر کے وہ ممالک جو دہشت گردی کا شکار ہیں ان کے نمائندگان کو شرکت کی دعوت دیں۔ یواین کے نمائندے‘ یورپی یونین‘ او آئی سی‘ شنگھائی تعاون تنظیم‘ برکس ہو یا سارک ہمیں سب کو دعوت دینی چاہیے کہ آئیں ہمارے اخلاص اور کام کو دیکھیں ، ہم سے اپنے تجربات شیئر کریں۔ میری رائے ہے کہ ہمیں دہشتگردی کیخلاف ایک عالمی ادارہ بنانا چاہیے۔ اس کا مرکز اسلام آباد میں ہو اور ہم اس ادارے سے دنیا بھر کو بتلائیں کہ ہم نے کیسے دہشت گردی ختم کی اور کیسے اس کو دنیا بھر سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی ،سیاسی ،علاقائی اور لسانی دہشت گردیوں کی اقسام کو ہمیں اپنی تحقیق کا موضوع بنانا ہو گا۔ جب ہم یہ کام کریں گے تو دنیا کیسے ہمیں دہشت گردی کا طعنہ دے سکے گی؟ جی ہاں! ہم تو وہ ہوں گے جو خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور سب سے بڑھ کر کامیاب ہیں اور پھر دنیا بھر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے رہنمائی اور مشاورت کا تحقیقی مرکز بنائے بیٹھے ہیں۔
اللہ کے رسول حضرت محمدؐ سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ کیا شک کہ امن سب سے بڑی رحمت ہے ہم یہ امن دنیا کو دینے والے بن کر سامنے آئیں۔ ہمارے حضور حضرت محمدؐ نے اعلان نبوت سے بھی قبل قبائل کی باہمی مبارزت کے خاتمے اور قیام امن کے لئے کئے جانے والے معاہدے '' حلف الفضول‘‘ میں شرکت فرمائی تھی۔ آپؐ مدینہ کے حکمران بن کر بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس امن معاہدے کے لیے آج بھی اگر مجھے وہ لوگ بلائیں تو میں اس کے لیے موجود ہوں یعنی سب سے مل کر امن قائم کرنا ہمارے رسول ِرحمت ؐ کا فرمان اور شاندار کردار ہے۔ آج ہمارے شہداء نے اپنے پیارے رسولؐ کی پیروی میں یہی کردار ادا کیا ہے ۔لہٰذا جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہداء کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ وہ سب سے بڑھ کر ہیں ،شہدائے وطن کے وارثوں کا احسان مند ہوں ،جن کے پیاروں کی قربانیوں کی بدولت آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں وطن پر چھائے اندھیرے چھٹ رہے ہیں اور ایک روشن مستقبل کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں‘‘ جی ہاں! سی پیک جیسے منصوبوں سے پاکستان روشنی سے جگمگانے جا رہا ہے اور اس چراغ کو جو تیل ملا ہے وہ شہداء کے خون کا ہے ۔لہٰذا ہمیں اپنے سکیورٹی اداروں کے شہداء کی یاد کے دن کوبرسوں پر محیط جنگ کے حوالے سے مستقل طور پر منانا ہو گا۔
ہمارے یہ لوگ جو وردیاں پہنے چیک پوسٹوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان میں مورچے بنائے اور سینوں پر بلٹ پروف جیکٹس پہنے۔ خطرات میں گھرے دن رات پہرہ دیتے ہیں۔ یہ کس کا پہرہ دیتے ہیں ؟یہ اس پاکستان کا پہرہ دیتے ہیں جس پاکستان کا تذکرہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے چھ ستمبر کے خطاب میں اس طرح کیا ''ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کے وارث ہونے پر ہمیں فخر ہے‘‘ جی ہاں! اس ورثہ کی حفاظت کے لیے جو لوگ کھڑے ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں ''دو آنکھیں ایسی ہیں کہ ان کو جہنم کی آگ نہیں لگے گی‘‘ ایک آنکھ وہ ہے جو اللہ کے ڈر سے رو دی اور ایک آنکھ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی‘‘ (ترمذی؟:1639 حسن) اس راہ کے ریٹائرڈ لوگوں کا بھی اس قدر اونچا مقام ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں سفید بال ہو گیا وہ بزرگی اس کے لیے قیامت کے دن نور بن جائے گی (ترمذی:1335 صحیح) میری گزارش ہے کہ ہمیں چیک پوسٹوں پر پہرے کے فضائل پر مبنی دو تین صفحات کا بروشر بھی اپنے جوانوں کو مطالعہ کروانا چاہیے تاکہ وہ دینی جذبے کے ساتھ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں۔ ساتھ ہی اللہ کے رسولؐ سے ثابت صبح و شام کے جواذ کار ہیں۔ اپنی حفاظت کے لیے نوجوانوں کو باترجمہ ازبر کروانے چاہئیں تاکہ وہ زیادہ حوصلے اور جرات سے اپنا فریضہ سرانجام دیں۔ آخر میں شہداء کے وارثوں اور غازیوں کو سلام اور شہداء کو خراج عقیدت کہ جن کی قربانیوں کی وجہ سے آج میرا گھر ،پاکستان سلامت ہے ۔ اس سلامتی پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کا شکریہ۔ پاک فوج زندہ باد۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved