تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-09-2017

سجدہ نہیں، قیام!

سفر شروع ہو چکا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ رولر کوسٹر نے اب متوازی ٹریک مکمل کرنے کے بعد اوپر کو اٹھنا شروع کیا ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ رولر کوسٹر کا ٹریک کس طور کا ہوتا ہے۔ اِس میں کئی موڑ آتے ہیں اور ہر موڑ دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ سخت خوفزدہ کر دینے والے ٹریک پر تیزی سے آگے بڑھتی، بل کھاتی رولر کوسٹر پر سوار ہونے کے شوقین بھی کم نہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نہ چاہتے ہوئے بھی رولر کوسٹر پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت ہم ایک ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ 
چین نے مدت سے جمع کی ہوئی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ٹھانتے روس کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ ترکی بھی اُن کے ساتھ چلا آیا ہے۔ ہم ایک زمانے سے تذبذب کے عالم میں تھے۔ اب کفر تھوڑا سا ٹوٹا ہے اور ہم نے مغرب کے پنجۂ استبداد سے خود کو چھڑانے کی کوشش کے طور پر چین، روس اور ترکی سے بھرپور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عظیم منصوبے کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ منصوبہ اصلاً چین اور روس کے مفاد کا ہے۔ چین کو یورپ تک آسان روٹ چاہیے‘ اور روس گرم پانیوں تک آسان اور بے رکاوٹ کی رسائی چاہتا ہے۔ ایسے میں ہم ''سینڈوچ‘‘ ہونے کے بجائے مل کر ساتھ چلنے کی پالیسی پر کاربند ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے ایک اچھا فیصلہ ہے۔ 
مگر کیا یہ سب کچھ آسانی سے ہضم کر لیا جائے گا؟ یقیناً نہیں، ہرگز نہیں۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے چین اور روس کا مل کر ابھرنا انتہائی پریشان کن ہے۔ اور امریکا و یورپ سے بڑھ کر تو بھارت پریشان ہے۔ وہ اب تک واضح طور پر مغرب کے زیرِ اثر ہے۔ کئی عشروں سے اُس کی خواہش رہی ہے کہ امریکا کی مدد سے پورے خطے پر بلا شرکتِ غیرے راج کرے۔ ایسا کرنا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ ہو بھی کیسے؟ چین اُسے شرمندہ کرنے کے لیے موجود ہے۔ اور پھر پاکستان نے بھی مغرب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنے کے بجائے اب کسی کسی معاملے میں اختلاف کی پالیسی اپنائی ہے اور چین و روس کے ساتھ جانے کی ٹھانی ہے۔ کام مشکل ہے مگر ع 
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ 
چین نے جنوبی و وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے یورپ کے قلب تک تجارتی راستہ بنانے کے حوالے سے جو منصوبہ شروع کیا ہے وہ محض قابل عمل ہی نہیں بلکہ سستا بھی ہے۔ اور یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جن ممالک سے یہ راستہ گزرے گا‘ وہ بہتر معاشی امکانات سے ہم کنار ہوں گے اور اُن کے لیے بھی ترقی و خوش حالی سے متصف ہونا ممکن ہو جائے گا۔ ہاں، یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ چین جو کچھ چاہتا ہے وہ آسانی سے نہیں ہو گا۔ امریکا اور یورپ کے لیے اپنی حاکمیت کے چھن جانے کا تصور ہی سوہانِ روح ہے۔ ایسے میں وہ ایسا بہت کچھ کریں گے جس سے معاملات خرابی کی طرف جائیں۔ اور یہ عمل شروع بھی کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں مستقل بدنامی سے دوچار رکھنے کے لیے بہت سے عالمی اداروں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ امریکا اور یورپ جو کچھ چاہتے ہیں اُسے آسانی سے ممکن بنانے کے لیے بھارت اپنی خدمات بڑھ چڑھ کر پیش کر رہا ہے۔ اِدھر چین نے بھرپور ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کیا ہے اور اُدھر میانمار کی حکومت کو چابی بھری گئی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے ذریعے خطے میں خلفشار کی فضا پیدا کرے۔ روہنگیا مسلمانوں کے حالِ زار پر مسلم دنیا میں رنج و غم کی کیفیت کا پیدا ہونا لازم ہے۔ ترکی نے اِس معاملے میں انتہائی حوصلہ افزا سٹینڈ لیا ہے۔ اب اگر چین مسلم دنیا کی طرف اپنے جھکاؤ کو برقرار رکھنے کی خاطر میانمار پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکا اور یورپ عالمی اداروں کا ڈنڈا لے کر خطے کی طرف لپکیں گے اور موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں روہنگیا مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے حوالے سے میانمار حکومت کو شدید مذمت کا سامنا ہے، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ینگون کا دورہ کرکے بظاہر وہاں کے ستم رسیدہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کو اب تک قبول نہیں کیا۔ وہ اب تک یہی سمجھ رہا ہے کہ یہ خواب جلد چکنا چور ہو جائے گا اور خطے کی حکمرانی کا تاج اُس کے سر پر سجا دیا جائے گا۔ مغرب کی ایماء پر بھارت اب بھی چین کے حوالے سے مخاصمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ڈوکلام میں جو کچھ ہوا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت نے اب تک بدلتے ہوئے علاقائی منظرنامے کو قبول نہیں کیا اور جب قبول ہی نہیں کیا تو اِس کا حصہ بننے کی منزل سے وہ بہت دور ہے۔ 
ابھرتی ہوئی معیشتوں (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا) کے فورم ''برکس‘‘ کا گیارہواں اعلیٰ سطحی اجلاس چین میں ہوا ہے جس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں پاکستان میں جڑیں رکھنے والی کالعدم تنظیموں پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حقانی نیٹ ورک اور ترکمانی نسل کے مسلمانوں کے گروپوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستان کی کالعدم تنظیموں کا ذکر اعلامیے میں شامل کیے جانے کو بھارت کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اعلامیے کو مسترد کیا ہے مگر اِس حقیقت سے انکار دانش مندی نہیں کہ ''برکس‘‘ کے فورم کو بھارت نے کسی حد تک اپنے مفاد میں استعمال کر لیا ہے۔ خیر، ضرورت سے زیادہ پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
یہ ابتدائی آزمائشیں ہیں۔ ابھی اور بھی آزمائشیں آئیں گی، بلکہ آتی رہیں گی۔ ڈرنے کی گنجائش نہیں کیونکہ جو ڈر گیا سمجھو مر گیا۔ کیفیت وہ نہیں ہونی چاہیے جس کا شِکوہ علامہ نے کیا تھا ع 
یہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا! 
یہ وقت قیام کا ہے اور ڈٹ کر، سینہ تان کر اُن تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹے رہنا ہے جو ایشیائی قوتوں کو ابھرنے سے روک رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ وقت اُن کے ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے۔ 
سپین میں مسلمانوں کو 1492 میں شکست ہو گئی تھی یعنی حکومت کا جڑ سے خاتمہ ہو گیا‘ مگر مسلمانوں کو سپین اور اُس سے متصل علاقوں سے نکالنے میں عیسائیوں کو کم و بیش ایک صدی کا وقت لگا۔ سبب؟ سیدھی سی بات ہے، مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تھے۔ کاشت کاری سے صنعت کاری تک اور تدریس سے دفاع تک ہر شعبے میں اُن کی مہارت اِس قدر تھی کہ انکار ممکن ہی نہ تھا۔ اگر حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ہانکا دے کر نکال دیا جاتا تو کئی شعبے ایسے بیٹھتے کہ پھر نہ اُٹھ پاتے! اِس وقت یہی کیفیت امریکا اور یورپ کی ہے۔ اُن کی طاقت گھٹتی جا رہی ہے مگر ہر معاملے میں اُن کا عمل دخل کم و بیش ڈیڑھ صدی سے بالعموم اور پوری بیسویں صدی کے دوران بالخصوص اس قدر رہا ہے کہ بساط راتوں رات لپیٹی نہیں جا سکتی۔ ایشیا کی قوتیں عالمی سطح پر اُبھریں گی ضرور مگر سب کچھ مرحلہ وار ہوگا۔ اور گرتی ہوئی دیواروں کی اینٹوں سے بھی بچنا ہوگا! پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ وقت تُنے ہوئے رسّے پر چلنے جیسا ہے۔ حوصلہ بھی درکار ہے اور دانش بھی۔ پسپائی کی گنجائش نہیں۔ یہ وقت سجدے کا نہیں، قیام کا ہے۔ امریکا اور یورپ جو مشکلات پیدا کر رہے ہیں اُن سے کہیں بڑی اور اُنہی کی پیدا کردہ مشکلات ہم جھیل چکے ہیں۔ تو پھر اب کوئی خاص الجھن محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved