دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ملوث ہونے کو غیر معمولی عمل قرار دیا جا رہا ہے‘ لیکن امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سے دہشت گردوں کی یہ طبقاتی ہیئت عالمی سطح پر معمول ہے۔ کراچی میں حالیہ دنوں دہشت گردی کی لہر میں اکثر اسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان ملوث پائے گئے۔ پاکستان میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نامی گرامی دہشت گردوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ 'انصارالشریعہ‘ نامی دہشت گرد تنظیم کا کمانڈر سروش صدیقی فزکس کا پوسٹ گریجویٹ طالب علم تھا جو سوموار کے حملے کے بعد بھاگ گیا۔ احسان اسرار، جو واردات کے بعد بھاگتے ہوئے مبینہ طور پر پولیس کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا، پی ایچ ڈی ڈگری کا حامل اور ایک نجی انجینئرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔
سانحہ صفورا میں ملوث گینگ کو کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے 2015ء میں پکڑا۔ اس گینگ میں مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شامل تھے۔ ڈینیئل پرل کا قاتل عمر سعید شیخ، القاعدہ کا آئی ٹی ایکسپرٹ نعیم نور خان، القاعدہ کا کارکن ڈاکٹر ارشد وحید، ٹائم سکوئر کا منصوبہ ساز فیصل شہزاد، ڈنمارک کے سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار حماد عادل اور کراچی ڈاکیارڈ سے نیوی کے جہاز کا ہائی جیکر اویس جاکھرانی، یہ وہ چند نمایاں نام ہیں جو تعلیم یافتہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ مغرب میں آباد نسبتاً خوشحال مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں میں سے ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کرنے والے دہشت گرد اور حالیہ عرصے میں داعش کے ریکروٹ برآمد ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
امریکی سامراج کے ایما پر افغانستان میں اپریل 1978ء کے ثور انقلاب کے نتیجے میں بننے والی انقلابی حکومت کو کچلنے کے لئے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد انتہا پسندی کا ناسور رفتہ رفتہ پورے خطے اور پوری دنیا میں پھیل گیا‘ اور یہ مشرق وسطیٰ سے صحرائے سینائی اور شمالی افریقہ تک انسانی سماجوں کو تاراج کر رہا ہے۔ آج مغربی ممالک بھی اِس آگ کے شعلوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان تو بالعموم دہائیوں سے اس کی زد میں ہے لیکن طالبان کے عروج و زوال کے بعد سے یہ تباہ کن انداز سے ملک میں سرایت کر گیا ہے۔
بائیں بازو کی ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے ساٹھ کی دہائی کی انقلابی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا‘ اور یونیورسٹی کیمپسوں میں ان کی مضبوط بنیادیں موجود تھیں۔ اُس عہد میں انتہا پسندوں کو طلبہ یونین کے انتخابات میں شکست ہوتی تھی اور اُن کی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اِن ٹولوں کو اُس زمانے میں سی آئی اے فنڈ فراہم کرتی تھی۔ لیکن طلبہ سیاست زیادہ تر نظریاتی بنیادوں پر ہوتی تھی اور پیسے پر چلنے والی پراکسیوں کا کردار محدود تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب کی پسپائی اور پیپلز پارٹی حکومت کی اصلاحات کی ناکامی کے بعد سماج میں کسی حد تک رجعتی رجحانات کا غلبہ بڑھا۔ ریاستی طاقت ضیاالحق جیسے آمر کے ہاتھوں میں آنے کے بعد انتہا پسند طلبا تنظیمیں بائیں بازو کے طلبہ، اور تنظیموں پر جان لیوا حملے کرنے لگیں۔ اِس عمل میں ضیا آمریت کی مکمل پشت پناہی سے ایک طلبہ تنظیم پیش پیش تھی‘ لیکن بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی جدوجہد اور مزاحمت اتنی شدید تھی کہ ضیاالحق کو پہلے اکتوبر 1979ء اور پھر 1983ء میں طلبہ یونینز پر پابندی لگانا پڑی۔ تب سے لے کر اب تک متعدد جمہوری حکومتوں کے آنے اور کئی بار اعلانات کے باوجود یہ پابندی عملی طور پر برقرار ہے۔ برسرِ اقتدار آنے والی جمہوری حکومتیں بھی ضیاالحق کی طرح ہی طلبہ سیاست سے خوفزدہ رہیں۔
میرے خیال میں تعلیمی نظام کی وسیع نجکاری نے تعلیم کو طلبہ اور والدین کے لیے ایک ناقابل برداشت بوجھ بنا دیا ہے۔ سمیسٹر سسٹم، نہ ختم ہونے والے امتحانات، مقابلے کی اندھی دوڑ، نام نہاد ڈسپلن کے نام پر انتظامیہ کی بے جا دھونس اور طلبہ کی قدم قدم پر تضحیک نے آج کے نوجوانوں کی زندگیوں کو شدید دبائو، بیگانگی اور عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ طبقاتی نظام ِتعلیم، نصابوں میں فرق اور امیر زادوں کی عیاشی کی نمائش جیسے عناصر احساسِ کمتری اور طبقاتی تفریق کو مزید ہوا دیتے ہے اور ایسے میں طلبہ سیاست پر مکمل پابندی اور نظریاتی بحث مباحثہ کی مکمل عدم موجودگی کے ماحول میں طلبہ کو کوئی نظریاتی یا سیاسی راستہ اور لائحہ عمل بھی میسر نہیں آتا۔ یہ کیفیت لازمی طور پر نفسیاتی خلفشار اور ہیجان کو جنم دیتی ہے۔ یہی بیگانگی کی وہ نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جس سے اکثر مڈل کلاس طلبہ متاثر ہو کر انتہا پسندانہ رجحانات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اِن طلبہ میں ایک طرح سے فرار کی ذہنیت ہے جو تعلیمی نظام سے تنگ اور طبقاتی فرق اور اَپر مڈل کلاس نوجوانوں کی دولت کی نمائش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس دہشت پسندی کو دراصل ہیرو والے کام کئے بغیر ہیرو بننے کا شاٹ کٹ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ درمیانے طبقے کا رجحان درحقیقت مقابلے اور نابرابری پر مبنی زوال پذیر نظام کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا راستہ ہے۔
ضیا کے دور میں منشیات کی تجارت سے کالی معیشت شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ سی آئی اے نے افغان صورتحال کے تناظر میں شروع کرایا تھا۔ آج یہ دیوہیکل کالی دولت ریاست، سیاست اور سماج میں گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ پرانے وقتوں کے کچھ غریب اور مسکین افراد اب اِس کالی معیشت اور دہشت کے اَن داتا بن چکے ہیں۔ فرقہ وارانہ گروہ پُرتشدد انداز میں سینکڑوں متحارب گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی اب ایک منافع بخش کاروبار میں بدل چکی ہے۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، قبضہ گیری، کرائے کے قتل اور ڈاکہ زنی کے اِس کاروبار میں پرانے ان داتائوں کو چیلنج کرتے ہوئے روز نئے گروہ سامنے آتے رہتے ہیں۔ پیدائش سے موت تک مقابلہ بازی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کی ذلتوں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے یہ طلبہ ان مافیا تنظیموں کے لیے خام مال بن جاتے ہیں‘ جو مختلف حوالوں سے ان سے جرائم اور دہشت گردی کرواتی ہیں۔
ان میں سے کئی ایک کو اب بھی کچھ حلقوں کی پشت پناہی اور تحفظ حاصل ہے‘ لیکن ان سے برآمد ہونے والے بہت سے پراکسی گروہ سامراجیوں اور ریاست کے لیے جسیم بلائیں بھی بن چکے ہیں۔ منشیات، زمینوں پر قبضوں اور کاروباری لڑائیوں سے انہوں نے بے تحاشا دولت اکٹھی کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے کئی گروہ سب سے ٹاپ پر ہیں۔ القاعدہ اب زوال پذیر ہو چکی ہے۔ پنجابی طالبان مختلف گروہوں سے ابھرے تھے۔ جنداللہ دراصل ایک تنظیم کے طلبہ اور عسکری ونگ سے ٹوٹ کر بنی تھی، تاہم آج کل سب سے کامیاب 'برانڈ‘ داعش ہے۔ افغانستان میں حزب اسلامی داعش کی بیعت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ ایسے گروہ جن کے پاس فرنچائز کھولنے کا باضابطہ اجازت نامہ نہیں‘ وہ بھی اس برانڈ کا جعلی نام استعمال کرکے دہشت کے اس وسیع کاروبار کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں پنپنے والی انتہا پسند تنظیموں کی طرف ریاست کا ردعمل ایک المیہ ہے۔ مدرسوں کے طلبہ کا ڈیٹا لینے میں ناکام ادارے اب کراچی کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کا ڈیٹا حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس سے صرف عام اور غریب طلبہ ہی ذلیل و خوار ہوں گے۔ یہ مسئلہ انتظامی طریقوں سے حل نہیں ہونے والا۔ یہ ایک بیمار سماج کا کینسر ہے۔ یہ دہشت ایک بوسیدہ اور بحران زدہ نظام کا عرق ہے۔ یہ کینسر پورے سماجی و معاشی نظام کے جسم میں پھیل چکا ہے اور اسے نکالنے کے لیے ایک انقلابی جراحی کی ضرورت ہے۔