تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-09-2017

جنرل راحیل شریف ترازو میں ہیں

کبھی کسی شخص پہ زندگی کو میں نے اس قدر مہربان نہیں دیکھا، جتنا جنرل راحیل شریف پر۔ پاکستانی تاریخ کے مقبول ترین سپہ سالاروں میں سے ایک ۔ جس وقت وہ آرمی چیف بنے، پاکستان اپنی عسکری تاریخ کے بدترین دور سے پہلے ہی گزر چکا تھا ۔2009ء میں عالمی میڈیا چیخ رہا تھا کہ طالبان مردان تک پہنچ چکے ہیں ۔ جلد ہی وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے ۔اس کے بعد کہوٹہ کا اور پھر جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں پاکستانی عسکری تاریخ کے کامیاب ترین آپریشن ہوئے۔ قبائلی علاقے کا بڑا حصہ کلیئر کر دیا گیا۔ شمالی وزیرستان آپریشن پر قوم بری طرح منقسم تھی اور اس کا بڑا سبب دہشت گردوں کے حامیوں کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمیاں تھیں۔دہشت گردوں سے مذاکرات کا ڈھول پوری قوت سے پیٹا جا رہا تھا۔ ان حالات میں امریکہ کو صاف بتا دیا گیا کہ ہم شمالی وزیرستان آپریشن مناسب وقت پر خود کریں گے ۔ 
2012ء میں ایک وقت ایسا آیا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بری طرح کشیدہ تھے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتا تھا۔ ہر روز آئی ایس آئی کے خلاف مضامین شائع ہوتے ۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور ہلیری کلنٹن سمیت چار امریکی بڑے پاکستانی آرمی چیف سے ہر ملاقات میں انتہائی تلخ الفاظ میں ان سے آئی ایس آئی کی سرزنش کا مطالبہ کرتے ۔ تنگ آکر ایک روز جنرل کیانی نے یہ کہا: آئی ایس آئی میں تقرر اور تبادلے میں خود کرتا ہوں ۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہا کہ آئی ایس آئی جو کرتی ہے ، میرے حکم پر کرتی ہے۔ فوج سے اسے الگ کر کے اس پر تبرہ بازی ممکن نہیں ۔ پھر وہ وقت آیا، جب سلالہ میں امریکہ نے حملہ کر کے 24پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔ یہ خطرناک ترین وقت تھا۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کر دی اور سات ماہ تک وہ بند رہی ۔ امریکی جنگی ٹیکنالوجی کا عشرِ عشیر بھی پاکستان کے پاس نہیں لیکن امریکہ بھی پاکستان پر ایک بھرپور حملہ نہ کر سکتا تھا۔بہرحال وہ ایٹمی ہتھیاروں اور ایک عمدہ میزائل پروگرام سے لیس تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو چین اور دوسری عالمی طاقتیں لازماً اپنا بھرپور ردّعمل دیتیں اور یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔ بہر حال یہ وقت بھی گزر گیا ۔ سات ماہ بعد بالآخری ہلیری کلنٹن نے پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر معذرت کر لی ۔ 
2012ء میں ٹارگٹ کلنگ کے مارے کراچی میں حالات انتہائی خراب ہو چکے تھے۔ ایم کیو ایم سمیت سیاسی جماعتیں شہر میں فوجی آپریشن کی فرمائش کر رہی تھیں ۔ ان حالات میں جنرل کیانی کراچی گئے۔ چند دن وہاں قیام کیا اور پھر یہ کہا کہ رینجرز کراچی میں آپریشن کرینگے ۔ جنرل رضوان اختر کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ۔بعد ازاں جنرل راحیل شریف نے جنرل بلال اکبر کو اس آپریشن کی قیادت سونپی ۔ جنرل بلال اکبر کے حکم پر جب نائن زیرو پر چھاپہ مار کے خطرناک قاتلوں کو گرفتار کیا گیا تو یہ ایک انتہائی دلیرانہ فیصلہ تھا ۔ ایم کیو ایم کی دہشت کا جس نے جنازہ نکال کے رکھ دیا۔ 
جنرل اشفاق پرویز کیانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ضروری فیصلے کر چکے تھے۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ، شمالی وزیرستان پر مناسب وقت میں آپریشن ، کراچی میں رینجرز کا آپریشن ان میں سرِ فہرست تھے۔ ان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے اس حال میں سپہ سالاری وصول کی تھی کہ افسروں اور جوانوں کو وردی پہن کر بازاروں میں نہ جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھ سے یہ منصب اس حال میں لیا تھا کہ فوج دوبارہ مقبول ہو چکی تھی ۔ 
اس ساری مرکزی فیصلہ سازی کے باوجود جنرل اشفاق پرویز کیانی کے نصیب میں جنرل راحیل شریف جیسی مقبولیت کا بیس فیصد بھی نہیں آیا۔ صرف ملٹری سائنس کے ماہرین جانتے تھے کہ انہوں نے تاریخ ساز عسکری کامیابیاں حاصل کیں ۔ عوام الناس میں جنرل راحیل شریف کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ جنرل راحیل شریف نے بھرپور جارحانہ بیانات جاری کرنا شروع کیے جو کہ عوام میں بے حد پسند کیے گئے۔ آغاز انہوں نے اس بیان سے کیا تھا: دوسرے اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن اپنی عزت کا بھی ہر قیمت پر تحفظ کریں گے ۔ یہ بیان انہوں نے اس پسِ منظر میں دیا تھا کہ پرویز مشرف کے سارے ساتھی نون لیگ کو پیارے ہو چکے تھے اور اکیلے جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چل رہا تھا۔ 
جنرل راحیل شریف سبکدوش ہوئے ۔ بعد ازاں انہوں نے سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کی سربراہی قبول کی ۔ ان کے اس فیصلے پر بھی کوئی زیادہ نکتہ چینی نہیں ہوئی ۔ دس میں سے سات لوگوں کے ذہن میں یہی تھا کہ مقدس مقامات کے تحفظ کی ذمہ داری میں کیا حرج ہے مگر آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ سوشل میڈیا میں کھل کر اس عسکری اتحاد پر تنقید ہو رہی ہے ۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر برما کے مسلمانوں کے بدترین قتلِ عام پر اسلامی ممالک کا یہ عسکری اتحاد ایک قدم بھی اٹھا نہیں سکتا تو اس کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ عرب حکمران اشرافیہ کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا تھا ؟ مصر میں جب اخوان کا تختہ الٹنے کے بعد بدترین قتلِ عام کرانے والے جنرل سیسی کی حکومت وجود میں آئی تو عرب ممالک کے اتحاد نے اس حکومت کو 8ارب ڈالر تحفے میں دئیے کہ اپنے معاشی مسائل سے وہ نمٹ سکے۔ مصر میں قتلِ عام کرنے والوں پر اس مہربانی کے بعد آپ کا کیا خیال ہے کہ برما میں مرنے والے بے گناہ مسلمانوں کی انکے نزدیک کیا اہمیت ہوگی ۔ یہ بات سب کو پہلے ہی اچھی طرح سے معلوم تھی اور اب اس تاثر میں پختگی آئی ہے کہ یہ تو ایران کے خلاف اور عرب حکمران اشرافیہ کے تحفظ کے لیے بننے والا ایک عسکری اتحاد ہے ۔یہ وہ مقام ہے ، جہاں زندگی میں پہلی بار جنرل راحیل شریف پر شدید تنقید شروع ہوئی ہے ۔ 
جنرل راحیل شریف کیا کریں گے ؟ ان کے پاس ایک سنہری موقع ہے ۔ عرب حکمرانوں کو وہ قائل کر سکتے ہیں کہ برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف اقدامات اٹھا کر پوری مسلمان دنیا کے دل جیتے جا سکتے ہیں ۔ خود جنرل راحیل شریف کے لیے اس میں بے پناہ عزت کمانے کا موقع ہے ۔ جو لوگ صورتِ حال کو زیادہ قریب سے دیکھ رہے ہیں ، ان کا کہنا یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عربوں کو اس بات پہ رضامند کر سکیں ۔ اس صورتِ حال میں انہیں کیا کرنا چاہیے ؟ اگر وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو ان کی مقبولیت میں کمی آتی جائے گی بلکہ وہ نامقبول ہوتے چلے جائیں گے ۔ اس صورتِ حال میں ایک راستہ یہ ہے کہ اگر عرب حکمران برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر اقدام اٹھانے کی حمایت نہیں کرتے تو اس صورت میںجنرل راحیل شریف اس اتحاد کی سربراہی سے سبکدوش ہو جائیں ۔ اس صورت میں بھی ان کی عزت میں اضافہ ہوگا ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ جنرل راحیل شریف اس وقت ترازو میں ہیں ۔وہ تولے جا رہے ہیں اور کسی وقت بھی ان کے وزن کا اعلان ہو جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved