تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-09-2017

دربار اور درباری

بھارتی خاتون صحافی تاولین سنگھ کی پانچ برس پہلے لکھی گئی کتاب Durbar پڑھ رہا ہوں‘ اور مجھے کئی سوالوں کا جواب مل رہا ہے۔ ہندوستان‘ جمہوریت کے ساتھ ستر سال بعد جہاں پہنچا ہے‘ وہاں ہم بغیر جمہوریت کے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ ہم کچھ بھی کر لیں‘ ہمارے روایتی اور پسماندہ معاشروں میں وہ سیاسی تبدیلیاں نہیں آئیں گی‘ جو مغربی معاشروں میں جمہوریت کی وجہ سے آئی ہیں۔ 
میں مانتا ہوں جینوئن صحافی کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ حکومتوں اور سیاستدانوں سے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کتاب پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ قصور کس کا ہوتا ہے؟ اگر میں کسی کے بارے میں اچھی رائے قائم کر لیتا ہوں‘ اور وہ کل کو توقعات کو پورا نہیں کر پاتا تو اس میں کس کا قصور ہوا؟
اگر تاولین سنگھ نوجوان، خوبصورت اور اچھے خیالات کے مالک راجیو گاندھی سے اس کے سیاست میں آنے سے پہلے مل کر متاثر ہوئی تھی‘ جب وہ پائلٹ تھا‘ اور بعد میں اس سے شدید مایوس ہوئی‘ جب وہ وزیر اعظم بنا‘ تو اس میں کس کا قصور تھا؟ انسان کتنی جلدی بدل جاتے ہیں۔ یا ان کے حالات یا نئی ذمہ داریاں ان کو بدلنے پر مجبور کر دیتی ہیں؟ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ایک اچھے انسان کو حالات بدلنے پر بدل جانا چاہیے‘ اور جن آدرشوں کے لیے وہ زندہ تھا‘ یا جن وجوہ کی بنا پر اسے کچھ لوگ پسند کرتے تھے‘ انہیں بھی بدل دینا چاہیے کہ اب حالات کا تقاضا کچھ اور ہے؟ 
راجیو گاندھی سے اپنی پہلی ملاقات میں تاولین سنگھ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ ملک کا وزیر اعظم بنے گا۔ جب وہ وزیر اعظم بنا‘ اور وہ دوست ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف کالم لکھتی تو راجیو گاندھی اس پر برہم ہوتا تھا کہ تم اچھی دوست ہو۔ شاید راجیو گاندھی کو بھی سمن ڈبیی جیسے صحافی کی ضرورت تھی‘ جو انڈیا ٹوڈے کا ایڈیٹر تھا‘ اس (راجیو) کا دوست بن گیا تھا اور پھر اس کا میڈیا ایڈوائزر لگ گیا تھا۔ تو اگر ستر سالہ جمہوریت کے بعد بھی کسی سینئر بھارتی صحافی کے نزدیک انڈیا ٹوڈے جیسے بڑے اخبار کا ایڈیٹر ہونا چھوٹی بات‘ اور وزیر اعظم کا ایڈوائزر لگنا بڑی بات ہے‘ تو پھر ہمارے پاکستانی صحافی دوستوں سے کیا شکایت‘ اگر وہ بھی وزیر اعظم کا بیگ اٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں؟ 
جب تاولین سنگھ کی راجیو گاندھی سے ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ ایئر انڈیا میں ایک پائلٹ تھے‘ اور ایک گھریلو قسم کے انسان۔ دوستوں کا حلقہ بہت محدود تھا تاہم اس حلقے میں بڑے بڑے کاروباری خاندانوں کے چشم و چراغ اور پرانے راجوں‘ مہاراجوں کے بچے شامل تھے یا پھر کچھ نچلے لیول سے بھی اس کے دوست تھے‘ جن کے ماں باپ سول سروس یا آرمی میں تھے۔ ان کی دوستی یا تعلق کی وجہ یہ تھی وہ ایک سکول، کالج میں پڑھے تھے یا انہوں نے کبھی گرمیوں کی چھٹیاں اکٹھے گزاری تھیں۔ وہ بھارت کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی تھی جو عام ہندوستانی کے ایشوز سے بہت دور تھی۔ تاولین لکھتی ہیں کہ اگر اس وقت کوئی انہیں کہتا کہ راجیو ایک دن بھارت کا وزیر اعظم ہو گا‘ اور اس کے یہ سب ذاتی کاروباری دوست حکومتوں میں اہم عہدوں پر مزے کر رہے ہوں گے‘ تو وہ کبھی یقین نہ کرتیں۔ راجیو اور اس کے دوست بھارتی معاشرے سے بہت کٹے ہوئے تھے۔ راجیو گاندھی کو بہت بڑا موقع ملا۔ اس کی ماں اندرا گاندھی ماری گئی۔ ایک شہزادے کو گھر بیٹھے تاج مل گیا۔ تاولین لکھتی ہیں: راجیو کے پاس موقع تھا کہ وہ بھارت کو مختلف سمت میں لے جائے۔ وہ اسے ایک بہتر ملک بنا سکتا تھا‘ لیکن چونکہ وہ ایک منتخب کیا گیا شہزادہ تھا‘ جس کے اردگرد وہ درباری تھے‘ جو اس کی طرح بھارتی معاشرے کی حقیقتوں اور ایشوز سے اتنے ہی دور تھے‘ جتنا راجیو گاندھی خود‘ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے پیچھے سیاسی وراثت میں ایک اٹالین بیوی اور دو بچے چھوڑ گیا۔ 
بھارت کی پرانی سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈروں نے بھی ایک منٹ نہیں لگایا اور راجیو گاندھی کو وزیر اعظم بنا دیا‘ کیونکہ نہرو‘ گاندھی خاندان ہندوستان میں شاہی خاندان سمجھا جاتا تھا۔ آج بھارت کی تمام پارٹیوں میں مورثی سیاست پھیل چکی ہے۔ بی جے پی ہو یا پھر کانگریس یا دیگر پارٹیاں‘ چند خاندانوں نے سیاست اور طاقت کے مراکز پر قبضہ کر لیا ہے۔ اسمبلیاں ان سیاستدانوں کے پرائیویٹ کلب بن چکی ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی خاندانی سیاست کے اثرات نظر آتے ہیں‘ لیکن یہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ ایک وزیر اعظم کے مرتے ہی اس کی بیوہ فوراً اس کی جگہ یہ کہہ کر سنبھال لے کہ یہ اس کا حق ہے‘ مرنے والا اس کا خاوند تھا‘ لہٰذا وہی اس عہدے کی حقدار ہے۔ یہی کچھ سونیا گاندھی نے کیا جب راجیو گاندھی قتل ہوا۔ تاولین کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ نہ ہوتا‘ اگر اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نہ لگائی ہوتی۔ وراثتی سیاست کا آغاز انہوں نے ریاست کی طاقت کا استعمال کرکے کر دیا تھا۔ 
اگر راجیو گاندھی جیسا بے ضرر پائلٹ بھی وزیر اعظم بن کر کرپشن کے گند میں لتھڑا جائے تو وہاں پھر نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، گیلانی یا بینظیر بھٹو جیسے سیاست دانوں سے کیا شکوہ۔ پاکستان میں ہم سمجھتے ہیں‘ شاید اچھی جمہوریت اس لیے نہیں آ سکی کہ سارے سیاستدان فوجی آمریت کی گود سے نکلے ہیں۔ بقول محمود اچکزئی ان سیاستدانوں کو ایجنسیوں نے کرپٹ کیا‘ کرپٹ کرکے سیاست میں ڈال دیا اور انہیں بلیک میل کرکے پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریاں ہلاتے ہیں‘ اسی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس دلیل میں جان ہے۔ لیکن کیا کریں بھارت میں تو کسی سیاستدان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آمریت کی چھتری تلے پیدا ہوا‘ لہٰذا وہ اپنے معاشرے کو وہ جمہوریت نہ دلا سکا‘ جس کی توقع تھی۔ وہاں تو ستر سال سے جمہوریت پر کسی نے شب خون نہیں مارا۔ ہاں اندرا گاندھی کے دور میں کچھ عرصہ ایمرجنسی رہی لیکن یہ سیاسی آمریت تھی فوجی نہیں۔ تو پھر بھارتی سیاستدانوں اور سیاست سے یہ بھارتی خاتون صحافی اتنی ناراض اور غیر مطمئن کیوں ہے‘ جتنے ہم پاکستانی ہیں؟ وہ بھی کیوں سمجھتی ہے کہ بھارت میں بھی موروثی سیاست نے بھارتی معاشرے کو جمہوریت کے فوائد سے مستفید نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ ان کی کتاب دو ہزار بارہ میں لکھی گئی تھی‘ جب ابھی مودی وزیر اعظم نہیں بنے تھے‘ لیکن میں پچھلے دنوں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ بی جے پی‘ جو کانگریس کی موروثی سیاست کے خلاف اور ہندوتوا کے نام پر ابھری تھی‘ کے لیڈروں نے بھی اپنے بچوں اور خاندانوں کو سیاست میں اہم عہدے دے دیے تھے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت... نتائج تقریباً ملتے جلتے اور ایک جیسے نکلتے ہیں۔ آمریت میں ایک آمر قابض ہوتا ہے‘ تو جمہوریت میں بھی ایک خاندان قابض ہو جاتا ہے‘ اور دونوں کے گرد درباری اکٹھے ہو جاتے ہیں‘ جو اپنے اپنے فوائد کے لیے ایک گروہ کی طرح حکومت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ کہیں‘ بی جے پی میں وراثتی سیاست نہیں رہی۔ لیکن اب یہ ٹرینڈ بھی بدل رہا ہے۔ ریاستوں میں بی جے پی کے سیاستدان اب اپنے خاندانوں کو پاور میں لے آئے ہیں۔ اب بی جی پی کے دور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔ میں نے پچھلے دن ایک ٹویٹ میں کہا تھا: جو نقصان جنرل ضیا کی حکمرانی نے پاکستان کو پہنچایا‘ اور جس کے اثرات سے ہم ابھی نہیں نکل پائیں گے‘ ویسا ہی نقصان مودی ہندوستان کو پہنچا رہا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ بہت گہری نفرت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ جیسے دائیں بازو کو جنرل ضیاء نے طاقت بخش کر پاکستانی معاشرے کو تباہ کیا تھا‘ وہی کام اب مودی کر رہا ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کے نام پر جتھوں کے جتھے سڑکوں پر ڈنڈے لے کر گھومتے ہیں اور اقلیتوں کو مار کر ان کی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں جمہوریت گاندھی خاندان کے چنگل سے نکلی‘ تو سیاستدانوں نے نفرت کی دلدل میں پھانس لیا۔
ہمارے ہاں اچھی جمہوریت نہیں آ سکی تو ہندوستان میں بھی نہیں آ سکی۔ اس کتاب میں بھی ہندوستانی سیاستدانوں کی کرپشن کی شرمناک کہانیاں ہیں اور تاولین سنگھ سمجھتی ہیں کہ اس کلاس نے ہندوستان کو دھوکا دیا ہے تو ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ وہی بازی گر، وہی فراڈیے، وہی شہزادے، شاہی دربار اور ان کے درباری۔ اور ان لیڈروں کے نعرے لگا لگا کر بے حال ہوتے عوام۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved