کبھی ذہن کو کھُلا چھوڑ دیتا ہوں تو یہ سرحد پار بھی نکل جاتا ہے جہاں سے نئی نئی چیزیں دیکھنے اور سُننے کو ملتی ہیں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ وہاں گفتگو اور فلمی گانوں میں لفظ ''اپنا‘‘ اور ''اپنے‘‘ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جیسے کہ ایک گانے کے بول ہیں‘ ''مرے سیاں جی سے آج میں نے بریک اپ کر لیا‘‘ دوسرا فرق یہ دیکھا کہ وہاں ہیروئوں اور ہیروئنوں کے بدن مثالی اور سُتے ہوئے ہیں جس کی ایک وجہ ڈانس بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی گانا مکمل نہیں ہوتا۔ کترینہ کیف کا پیٹ تو یوں سمجھئے کہ ہے ہی نہیں۔ اسی طرح ہیروز کے جسم قابل رشک حد تک سڈول اور قابل دید۔ کاجول اپنے فلمی کیرئیر کے 25 سال پورے کر چکی ہیں اور دو تین بچوں کی ماں بھی ہیں لیکن بے پناہ فٹ بھی۔ اکشے کمار مقبول ہیرو تو ہیں ہی لیکن کھُل کر مسُکراتے اور ہنستے ہوئے پورے مسوڑھوں کو جو جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے‘ انتہائی عبرتناک ہے۔ حیرت ہے کہ اُس کی کوئی ہیروئن بھی اُسے اس سے آگاہ کرتی نہ روکتی ہے۔
ڈانس کا رواج ہمارے ہاں بھی ہے لیکن ڈرتے ڈرتے اور نہ ہونے کے برابر‘ حالانکہ اسے اعضاء کی موسیقی کہا گیا ہے۔ کچھ حضرات اسے خلاف اسلام بھی قرار دیتے ہیں جو کہ بحث طلب ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جسم کو چاق چوبند رکھنے کے لیے مثالی ہے۔ چنانچہ یا تو اسے مکمل طور پر بند کر دیا جائے یا اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
آج انگریزی اخبار میں بنگلہ دیش کے دو کرکٹرزکا ذکر تھا‘ ایک مسفقر اور دوسرے شبیر‘ جو اصل میں مشفق الرحیم اور شبیر ہونگے لیکن وہاں شاید شین کی آواز نہیں نکالی جاتی اس لیے وہ ایسے ہو کر رہ گئے ہیں حالانکہ ان کے نام لکھے تو صحیح جانے چاہئیں‘ پھر مسفق کی حد تک ٹھیک ہے‘ یہ مسفقر کیا ہوا؟
بھارت میں جو اُردو بولی جاتی ہے اور جو ہندی کہلاتی ہے‘ اس میں مثلاً گانوں کی حد تک پنجابی اور انگریزی الفاظ بے محابا استعمال کئے جانے لگے ہیں یہ بھی اُردو ہی کو وسعت دینے کی ایک خوشگوار کوشش ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بھارتی صوبوں کے تمام شہروں میں‘ چاہے ان کی زبان کوئی بھی ہو‘ اُردو فلمیں پورے ذوق و شوق سے دیکھی جاتی ہیں‘ اور اس طرح بھارت کی بڑی فلم انڈسٹری نے وہاں اُردو کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔کہ تصورکے‘ بھارت جانے اور آنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ اس لیے ایک ہی زقند سے یہ سرحد پار کی جا سکتی ہے اور اب ہم آن کی آن میں وہاں سے واپس بھی آ گئے ہیں۔
اِدھر بارشوں نے خوب رونق لگا رکھی ہے۔ کمزور چھتوں کے گرنے کے افسوسناک واقعات بھی پیش آتے ہیں جن میں رہنے والے بالعموم کم وسیلہ لوگ ہوتے ہیں اور جو ان حادثات کا تدارک نہیں کر سکتے حالانکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ مخدوش گھروں کی دیکھ بھال اور کمزور چھتیں تبدیل کر کے اپنے ہونے کا ثبوت دے‘ مزید افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے کسی مخدوش گھر کے مکینوں سے احتیاطاً گھر خالی کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ اس لیے انکارکر دیتے ہیں کہ سامان اُٹھا کر جائیں کہاں‘ کیونکہ اُن کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں ہوتا اور ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں اور کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا رہتا ہے جبکہ حکومت کا حال تو یہ ہے کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے باوجود کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں اور فصلات اور مویشیوں کے ساتھ ساتھ جانی نقصانات بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں اس لیے برسات میں خوشی کے مقامات بھی ہوتے ہیں اور رنج و غم کے بھی۔
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
کہیں توجا کر وہ گل کھلا ہے‘ یہی بہت ہے
کہیں تو خوشبو بکھیرتا ہے‘ یہی بہت ہے
گُزرتی جاتی یہ میرے پتوں کو چھیڑتی اور چومتی سی
تری جدائی کی جو ہوا ہے‘ یہی بہت ہے
کبھی کبھار ہی بھول کر تیرا یاد کرنا
یہ ابتدا ہے کہ انتہا ہے‘ یہی بہت ہے
سوال کرنا تو مجھ کو آتا نہیں مرے دوست
سوال کیا ہے‘ تجھے پتا ہے‘ یہی بہت ہے
کہیں تو موجود ہے مری زبردست پیاس کا مداوا
گلاس خالی پڑا ہوا ہے‘ یہی بہت ہے
کہیں پہنچنا مرا مقدر نہیں تو پھر کیا
مرے لیے یہ جو راستا ہے‘ یہی بہت ہے
میں اِس میں دن رات سیر کرتا ہوں اور خوش ہوں
یہ دل کہ اِتنا بڑا خلا ہے‘ یہی بہت ہے
زمیں پہ میں خود ہوں اور اپنے لیے ہوں کافی
اور آسماں پر مرا خدا ہے‘ یہی بہت ہے
ظفرؔ مرا اور اُس کا یہ نغمۂ محبت
الگ الگ‘ اور جُدا جُدا ہے‘ یہی بہت ہے
آج کا مطلع
وہ جاگے ہوں کہ سوتے‘ کھا رہے ہیں
اِدھر ہم صرف غوطے کھا رہے ہیں