لَت کا معاملہ بھی بہت عجیب اور عبرتناک ہوا کرتا ہے۔ انسان کسی لَت میں مبتلا ہو جائے تو پھر رفتہ رفتہ اُس میں وہ لَت اِس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ نفسی امور یعنی نفسیات کے ماہرین کی ایک پوری ٹیم مل کر بھی اُسے راہِ راست پر لانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ سیدھی سی بات ہے کہ نفسی علوم کے ماہرین بھی ہماری اور آپ کی طرح کے انسان ہی ہوتے ہیں، کوئی جادوگر تو ہوتے نہیں کہ ایک چھڑی گھماتے ہی ہر ٹیڑھے معاملے کو سیدھا کر دیں۔
نفسیات کے ماہرین ہی درست ترین تجزیہ کرکے بتا سکتے ہیں کہ اِس وقت پاکستانی قوم جن ذہنی الجھنوں سے دوچار ہے وہ کس درجہ بندی میں آتی ہیں اور اُن سے گلوخلاصی کے لیے کون کون سی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہو تو کامیابی کا ایک فیصد بھی امکان نہیں رہتا۔ جن کے ذہنوں میں کجی ہے اُنہیں طے کرنا پڑے گا کہ اُنہیں اپنے ذہن کی ہر خرابی دور کرنا ہے۔ یہ منزل اُس وقت آتی ہے جب انسان یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اُس کے ذہن میں کجی ہے، خیالات میں خرابیاں اور خامیاں ہیں۔ یہی سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ لاکھ کوشش کیجیے، لوگ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں اور کرتے ہیں اُس میں کوئی خرابی بھی پائی جاتی ہے۔ تقریباً ہر انسان اپنے آپ کو ہر معاملے میں درست ترین مقام پر پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے۔ عام آدمی کی یہی وہ روش ہے جو اُسے مزید خرابیوں کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر مکمل تباہ کرکے چھوڑتی ہے۔
ٹیکنالوجی نے عجیب گل کھلائے ہیں۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کا بنیادی مقصد معاملات کو درست کرنا ہوتا ہے مگر یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات الجھتے ہی جا رہے ہیں۔ جن چیزوں کے استعمال سے زندگی کو زیادہ آسان بنانا مقصود ہے اُنہی چیزوں کے غیر ضروری یا بے جا استعمال سے زندگی کو زیادہ پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ سمارٹ فون ہی کی مثال لیجیے۔ پہلے تو سیلفی لینے کا رجحان عام ہوا۔ جب اس معاملے نے زور پکڑا تو حالت یہ ہوئی کہ لوگ دن میں پچاس بار سیلفیاں لینے لگے اور بات بات پر سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹنگ کا بخار ایسا چڑھا کہ حواس ہی مختل ہوگئے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملے کی وڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی بیماری نے خطرناک حد تک شدت اختیار کرلی ہے۔ لوگ ہر معاملے کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ''حِظ طلبی‘‘ کا یہ ریلا کہاں رکے گا۔ عیدالاضحیٰ کو گزرے ابھی ایک ہفتہ گزرا ہے۔ ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانوروں کے حوالے سے ایسے عجیب تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا محض دنگ رہ جائیں یا بے عقلی کا باضابطہ ماتم بھی کریں! اِس بار بھی کئی ایسی وڈیوز دیکھنے کو ملے جن پر غور کرنے سے قوم کی مجموعی ذہنی حالت کا اندازہ لگانے میں غیر معمولی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ قربانی کے جانور کو گھر تک لاکر گاڑی سے اتارنا بھی اب سرکس کے آئٹم کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ایک وڈیو میں دیکھا کہ اچھا خاصا تگڑا بیل درمیانے سائز کے ٹرک میں لایا گیا۔ تنومند بیل سات من کا تو ہوگا۔ اتنا وزنی بیل ٹرک کے پچھلے حصے سے بھی بمشکل اتر پاتا ہے یا اتارا جاتا ہے۔ اب آپ ہی بیل کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ اُس نے زور لگایا، ٹرک کی چھت پر چڑھا اور سڑک پر گرگیا۔ ایسے موقع پر لوگ جمع رہتے ہیں۔ خیر گزری کہ اُس جگہ کوئی بچہ یا بڑا نہ تھا جہاں بیل گرا۔ جس پر یہ بیل گرتا اُس کی تو ہڈی پسلی ایک ہو جاتی۔ ایسے ہی لاپروائی کے معاملات میں جان بھی چلی جایا کرتی ہے۔ موت بہانے ڈھونڈتی ہے اور اُس کی آسانی کے لیے ہم
نے بھی طے کر رکھا ہے کہ نئے نئے بہانے تیار کرکے سپلائی جاری رکھیں گے!
کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ بیل یا اونٹ کو ذبح کرتے وقت لوگوں نے لاپروائی یا تساہل سے کام لیا اور جانور بدک گیا۔ یاد رکھیے، معاملہ جانور کا ہو تو بات بدکنے تک محدود نہیں رہتی۔ تگڑا بیل یا اونٹ بدک جائے تو انسان کو موت کے منہ میں بھی دھکیل دیتا ہے۔ دو سال قبل نحر کیے جانے کے وقت اونٹ نے قصاب کا سَر چبا ڈالا تھا! اب کے بھی اِس سے ملتے جلتے دو تین واقعات ہوئے ہیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جانور کو کسی کھونٹی یا کھمبے سے باندھتے وقت رسّی کی لمبائی کا اندازہ نہیں لگایا جاتا۔ پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی غلطی سے قربانی کے جانور کی رینج میں آ جائے تو جان سے جاتا ہے۔ کراچی میں دو سال قبل ایک ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔ گھر کے باہر کھمبے سے بندھے ہوئے بیل نے ایک شخص کو کونے میں دبوچنے کے بعد ٹکریں مار مار کر مار ڈالا تھا!
دو سال قبل چینلز نے ایک وڈیو ٹیلی کاسٹ کی تھی جس میں ایک بیل کو گھر کے اندر بندھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ بیل کی رسّی چھوٹی تھی یعنی وہ ایک خاص حد تک جا سکتا تھا، آگے بڑھ نہیں پا رہا تھا۔ وڈیو میں ڈھائی سال تک کا بچہ نمودار ہوتا ہے جسے اُس کا باپ (یا کوئی اور عزیز) بیل کے آگے دھکیل رہا ہے اور بیل سر کو جھکا کر ٹکر مارنے کے انداز سے بچے کے سینے تک پہنچ رہا ہے! بچہ خوفزدہ ہوکر بُری طرح رو رہا ہے مگر اُس کا کم ظرف اور بدبخت سرپرست (جو وڈیو میں دکھائی نہیں دے رہا) اُسے دوبارہ بیل کی طرف دھکیل رہا ہے! یہ تماشا کم و بیش ڈیڑھ منٹ تک جاری رہتا ہے۔ رسّی بہت چھوٹی ہونے کی بدولت بیل اُس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچا پایا۔ مگر جانور تو جانور ہوتا ہے۔ اگر کہیں رسّی کھونٹے سے اکھڑ جاتی؟ تب بچے کا کیا ہوتا؟
خاصا فربہ یعنی چھ سات من کا بیل اور ڈھائی سال کا بچہ! وڈیو دیکھ کر ہم پر بہت دیر تک سکتے کی سی کیفیت طاری رہی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہم بے حسی اور کم ظرفی کے گڑھے میں کس حد تک گرگئے ہیں!
اِس بار بھی ایسی ہی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ایک انتہائی غصیلا سانڈ (بھینسا) پرچون کی دکان کے پاس کھمبے سے بندھا ہوا ہے۔ اُس کی رسّی خاصی لمبی ہے۔ کسی کو قریب آتے ہوئے دیکھ کر وہ بپھر کر گلی کے وسط تک پہنچ جاتا ہے اور اپنا کام کر گزرتا ہے۔ وڈیو میں درجنوں افراد دور کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں یعنی انجوائے منٹ کے دریا میں غوطہ زن ہیں! ایک موٹر سائیکل پر دو نوجوان گزرتے ہیں۔ سانڈ اُنہیں دیکھ کر لپکتا ہے اور اُس کا سَر موٹر سائیکل کے پچھلے پہیّے تک پہنچ جاتا ہے اور پھر موٹر سائیکل کے گرنے سے دونوں نوجوان سڑک پر آ رہتے ہیں مگر وہاں موجود لوگ اِس منظر کو صرف انجوائے کر رہے ہیں! اگلے شاٹ میں ایک بابا جی ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر گزر رہے ہیں۔ وہ بھی نہیں جانتے کہ سانڈ کی رسّی خاصی ڈھیلی ہے۔ سانڈ لپکتا ہے اور سائیکل کی گدّی کے نیچے ٹکر مارتا ہے جس کے نتیجے میں بابا جی گر پڑتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ بابا جی سانڈ کی سائڈ ہی پر گرتے ہیں۔ خیر گزری کہ سانڈ واپس جا چکا تھا اس لیے بابا جی کو سنبھل کر کھڑے ہونے اور بچ نکلنے کا موقع مل گیا! شرمناک بات یہ ہے کہ وڈیو بنانے والے اور وڈیو میں موجود افراد کو معلوم ہے کہ سانڈ کی رسّی خاصی ڈھیلی ہے مگر کوئی بھی وہاں سے موٹر سائیکل یا سائیکل پر گزرنے والوں کو خبردار نہیں کرتا یعنی کسی کی جان جاتی ہے تو جائے، انجوائے منٹ کا دریا بہتا رہنا چاہیے! ؎
مزا ہر بات میں ہم چاہتے ہیں
خدا جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے!