تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-09-2017

عجیب لوگ

وقت آ لگاہے۔ سنائونی آ گئی ہے۔ چودھری نثار نے ٹھیک کہا‘ پانی سر سے گزرنے والا ہے۔ کاتبِ تقدیر کے قلم کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
این اے 120 میں نون لیگ جیت گئی تو اس کا مطلب ہو گا؟ حواریوں نے تاثر تخلیق کرنے کی تیاری کرلی ہے۔یہ کہ حکمران پارٹی کی مقبولیت ثابت ہوگئی۔ یہ کہ عوامی عدالت نے شریف خاندان کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔
جی نہیں‘ بالکل نہیں۔ قومی اسمبلی کے ایک خاص حلقے کا نتیجہ ان ''مقدس‘‘ ارشادات کی تصدیق نہیں کرے گا۔ 1985ء سے اب تک‘ جس آبادی سے‘ ایک گروہ کامیاب ہوتا رہا‘ ایک اور ظفرمندی تاریخ کا کوئی نیا باب نہیں لکھے گی۔
جہاں تک مالی بدعنوانیوں کا تعلق ہے‘ اس کا کوئی تعلق انتخابی نتائج سے نہیں۔ عدالت ہی میں ثابت کرنا ہوگا کہ شریف خاندان کی سمندرپار جائیدادیں‘ ان کی اپنی کمائی ہیں۔ پاکستان سے منتقل کی گئی ناجائز دولت نہیں۔ محترمہ مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی‘ جعلی دستاویزات کو نگلا نہیں جا سکتا۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنایا نہیں جا سکتا ۔
اس تاویل کو مان لیا جائے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ آئندہ سے عوامی ووٹ حاصل کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کبھی کوئی قانونی کارروائی نہ کی جا ئے گی۔ فرض کیجئے‘ ایک بلدیاتی کونسلر جیب کاٹتے پکڑا جائے۔ فرض کیجئے۔فوراً بعد‘ منعقد ہونے والے الیکشن میں‘ وہ یا اس کا تجویز کردہ امیدوار جیت جائے تو اسے رہا کرنا ہوگا؟۔ کوئی معاشرہ اور کوئی دستور‘ اس طرح کے مضحکہ خیز اور احمقانہ دلائل قبول نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ یہ ہزاروں برس کی تاریخ میں طے کردہ معیارات اور اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہوگا۔ کوئی بھی سماج جو امن‘ انصاف‘ استحکام اور فروغ کا آرزو مند ہو‘ ایسی کھلی بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو نکسن‘ صدارت سے محروم نہ ہوتا کہ فقط امریکی عوام کی تائید ہی اسے حاصل نہ تھی بلکہ چین سے‘تعلقات استوار کر کے صدر نکسن نے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا تھا۔ آئندہ امریکی نسلوں پر نئے امکانات کے در کھول دئیے تھے۔ اس دور میں جب یہ باور کیا جاتا تھا کہ عہدِ آئندہ اشتراکیت کے غلبے کا دور ہے۔ 70فیصد سے زیادہ امریکی عوام کا خیال یہ تھا کہ آئندہ برسوں میںایک کے بعد دوسرا ملک کمیونسٹ نظام قبول کرتا چلا جائے گا۔ نکسن کو نہ صرف مستعفی ہونا پڑا‘ بلکہ اپنے جرم کااعتراف بھی کیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ مزید رسوائی اور پامالی کی بجائے‘ نسبتاً ایک باوقار زندگی وہ جی سکے۔ ہنری کیسنجر ایسے مدّبر کی موجودگی میں ‘جسے اساطیری حیثیت حاصل تھی‘ خارجہ امور میں ان کی رائے کو اب بھی اہمیت دی جاتی۔ ایک سے زیادہ کتابیں انہوں نے لکھیں‘ ذوق و شوق سے جو پڑھی گئیں۔ امریکی اور یورپی معاشروں کی ذہنی تشکیل میں اپنا محدود سا کردار اداکرتے رہے۔ چند برس بعد پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں تاریخ ان کا تذکرہ کس طرح کرے گی۔ قلم اور زبان پر قدرت رکھنے والے سیاستدان کا جواب یہ تھا: واٹر گیٹ سکینڈل کو اگر فراموش کیا جا سکا تو امید ہے کہ میری خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ جی نہیں‘ مؤرخ کبھی کوئی چیز فراموش نہیں کرتا۔
معاشروں کی کامیابی یا ناکامی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بنیادی اقدار کے باب میں ذہن کتنے واضح ہیں یا کس قدر کنفیوژن کا شکار۔ بڑے سے بڑا لیڈر بھی غلطی کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ بجائے خود یہ کوئی فیصلہ کن چیز نہیں کہ حتمی طور پر اسے کامیاب یا ناکام قرار دیا جا سکے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اصول کی پامالی کا مرتکب ہوا یا نہیں۔ وہ اپنی ذات کو معیارِ حق سمجھتا ہے یا طے شدہ قوانین‘ اقدار اور قومی ترجیحات کو۔
بیسیوں صدی کے نمایاں ترین لیڈروں میں سے ایک چرچل تھے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں‘ طوفان کی طرح چڑھے چلے آتے‘ ہٹلر کی انہوں نے مزاحمت کی۔ آزمائش کے اذیت ناک مہ و سال میں‘ اپنی قوم کی‘ جس بانکپن کے ساتھ رہنمائی کی‘ تاریخ میں اس کی مثالیں کم ہوںگی۔جرمنی کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے باوجود‘ برطانوی عوام نے ان کی رائے قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ جب انہوں نے ہندوستان اور دوسرے مقبوضات کو آزاد کرنے کی مخالفت کی۔دوسری مشکلات کے علاوہ‘ نو آبادیوں سے حاصل ہونے والی آمدن کم اور اخراجات اب زیادہ تھے۔ چرچل کی راہ چلا جاتا تو نہ صرف جنگ سے تباہ حال برطانوی معیشت‘ مکمل بربادی اختیار کرتی بلکہ امریکہ سمیت‘ حلیف ممالک کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ برطانوی صنعت بحال نہ کی جا سکتی‘ قوم تقسیم سے دوچار ہوتی اورعالمی برادری میں رسوخ کم ہو جاتا۔ ناراض اقوام‘ بہرحال نجات سے ہمکنار ہوتیں مگر ''دولت مشترکہ‘‘ نام کے کسی ادارے کا وجود نہ ہوتا۔ ضد برقرار ہی رہتی تو یہ بھی ممکن تھا کہ رفتہ رفتہ سترھویں صدی کے حال کو انگریز پہنچتے۔ وہ زمانہ کہ برطانوی وفد‘ اکبر اعظم کے دربارمیں بارپاسکا تو ابوالفضل سے بادشاہ نے پوچھا تھا ''ایں جزیرہ نما چرااست؟‘‘ یہ جزیرہ نما کہاں واقع ہے؟
آئین نو سے ڈرنا ‘طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں
وقت بدل جاتا ہے اور کبھی اچھے خاصے ذہین لوگ بھی اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ماضی سے جو محبت کرتے ہیں۔ آنے والے عہد کے باب میں‘ جن کے اندیشے‘ انہیں گزرتے ہوئے کل میں زندہ رہنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ وقت اٹل نہیں ہے‘ وہ بدلتا رہتا ہے۔ خدا کی بستی میں کوئی بھی ناگزیر نہیں۔ فاتحین اور سیاسی لیڈر کیا چیز ہیں‘ آخرکار پیغمبر بھی مٹی کی گود میں جا سوتے ہیں؛ اگرچہ ان کا ورثہ برقرار رہتا ہے۔ لیڈر لوگ تو اکثر استعمال کی جانے والی مادی چیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اپنے عہد کے بعد وہ بھلا دئیے جاتے ہیں‘ ازکار رفتہ ہو جاتے اور اکثر اوقات مضحک سے کردار بن جاتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کوئی مفکّر یا معلم نہیں‘ کوئی فلسفی‘ دانشور‘ مورخ یا عظیم سائنسدان نہیں کہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہیں گے۔ اپنی غلطیاں مان لیں اور تلافی کی اپنی سی کوشش کریں تو معاف کر دئیے جائیں گے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
این اے 120 میں نون لیگ جیت سکتی ہے۔ تین عشروں کی سرمایہ کاری ہے۔ ہزاروں خاندان یہاں ایسے ہیں‘ جن کے تقریباًہربالغ آدمی کو‘ شریف خاندان نے سرکاری خزانے سے فائدہ پہنچایا۔ ایسے بھی ہیں کہ ایک بھائی کو پولیس میں نوکری ملی تو دوسرے کو ایف آئی اے یا کسٹم میں۔ ظاہر ہے کہ بہت سی دوسری عنایات بھی۔ پنجاب اور مرکز میں قائم ان کی حکومتیں اب بھی نوازشات کی بارش کر سکتی ہیں۔ ووٹ خریدے جا سکتے ہیں۔ چکمے دئیے جا سکتے ہیں۔ افراد اور گروہوں کے وقتی مفادات قومی مفادات پہ غالب آ سکتے ہیں۔دھاندلی کے ہزار طریقے ہیں۔
تحریک انصاف کی نالائقی کے باوجود ڈاکٹر یاسمین راشد جیت گئیں تو یاووٹوں کا فرق بہت کم رہ گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نون لیگ روبہ زوال ہے۔ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم ڈھنگ سے نہیں چلائی گئی۔ پارٹی میں دھڑے بندی ہے۔ کئی لیڈر سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ عمران خان لاہور میں جم کر نہ بیٹھے۔ وسائل محدود‘ تجربہ بھی نسبتاً محدود۔ کسی کو وہ نوکری دے سکتی ہیں نہ کسی طرح کا مالی مفاد پہنچانے پہ قادر۔ 29 ہزار ووٹوں کی تصدیق ہی نہیں کی گئی۔ سات ماہ میں تیس ہزار نئے ووٹ درج ہوئے اور ظاہر ہے کہ نون لیگ کے ایما پر۔ بھاڑے کے دانشور اور کرایے کے ذہنی قلی حکمران پارٹی کو میسر ہیں‘ جس طرح کہ ہمیشہ ہوتے ہیں۔
صرف ایک انتخابی حلقہ نہیں ‘حالات کے مجموعی دھارے کو دیکھا جاتا ہے۔ نواز شریف کو برقرار رہنا ہوتا توا س طرح اٹھا کر نہ پھینک دئیے جاتے۔ مسجد نبویؐ سے لے کر برطانیہ کے بازاروں تک‘ اس طرح خاندان پر آوازے نہ کسے جاتے۔ ہزاروں اور لاکھوں لوگ بپھر کر ان کے خلاف میدان میں نہ اترتے۔ کیسے عجیب لوگ ہیں کہ سلطانیٔ جمہور کے عہد میں میڈیا کو پابہ زنجیر کرنے کا سپنا دیکھ رہے ہیں۔ذہنی بیداری کے اس زمانے میں‘ طلال چودھریوں اور احسن اقبالوں کو قوم کی رہنمائی پہ مامور فرماتے ہیں۔
وقت آ لگاہے۔ سنائونی آ گئی ہے۔ چودھری نثار نے ٹھیک کہا‘ پانی سر سے گزرنے والا ہے۔ کاتبِ تقدیر کے قلم کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved