تب پنڈی میں میرا آفس اقبال روڈ پر ہوتا تھا ۔ ساتھ ہی مسلم لیگ ہائوس، سامنے فر زندِ راولپنڈی کا سیاسی ڈیرہ۔ میرے ایک کلائینٹ اور دوست باشی خان جو ممبر پنجاب اسمبلی بھی رہے، اکثر آتے ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ فلم سازی کا شوق ر کھتے تھے۔ ایک دن کالج روڈ راو لپنڈی کے معروف ٹھیکے دار نے چائے کی دعوت دی ۔ باشی خان بھی شریک تھے جنہوں نے چائے پینے سے انکار کر دیا۔ مجھے بتانے لگے ان کی فلم کالا دھندا گورے لوگ جلد ریلیز ہو رہی ہے ۔ وحید مراد کا مرکزی کردار ہے جب کے ولن وہ خود ہیں ۔ چائے نا پینے کا سبب پوچھا تو کہنے لگے جیسے ہی پہلا گھونٹ حلق سے نیچے اُترے گا ۔ ٹھیکے دار بول پڑے گاـــــــــــــــــــ ''چائے پر میرا مال لگا ہے ‘‘ـــــــ ۔
جمعہ کی صبح بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے لندن کی فلائیٹ میں سوار ہوا تو بادشاہ خان آفریدی المعروف باشی خان محروم یاد آگئے ۔فلائیٹ ہیتھرو ائیر پورٹ کیلئے تیارتھی۔ ایک ''میڈم‘‘ نے انگریزی میں اپنی دیسی ''ممی ‘‘ کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ مو صوفہ ائیر پورٹ ایمی گریشن کے دوران اپنا پاسپورٹ کسی جگہ بھول آئی۔ یوں پی آئی اے کا جہاز 48 منٹ کی تا خیر سے قومی مزاج کے عین مطابق اُڑان بھر سکا۔ ایک دوسری نشست پر دوسری ممی با آوازِ بلند بچوں کا انگریزی ٹیسٹ لے رہی تھیں ۔ بچے خاموش تھے ممی کی کا ئیں کا ئیں کوئے کو شر ما تی رہی ۔ اس سے پچھلی سیٹ پر ایک گوری ماما دو بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی ۔ مجال ہے ماں کی آواز کسی نے سنی ہو۔ انگریزن بچاری کی انگریزی یقینا کمزور ہو گی ۔اسی لیے خا موش رہی ورنہ ''جانو جرمن‘‘ ملا کھٹرا ہار جاتی۔
قومی ائیر لائن میں ہر مسافر کیلئے گھریلو بلکہ بالکل خالص گھر یلو ماحول ہے۔ ہر کوئی چہل قدمی کرتانظر آتا ہے ۔ جہاز کی دم کے ساتھ بیٹھے ہوئے کھلے دل سے بزنس کلاس میں آکر سیلفیاں بناتے ہیں ۔
ہاں ا لبتہ کھانے کے وقت ولیمے والا حال ہو جاتا ہے۔ اگر دال ختم ہو جا ئے تو ہر مسافر دال ہی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب سے ہمارے ترقی پسند خاندان نے سول ایوی ایشن کی تاریخ میں پہلی'' اوپن سکائی‘‘ پالیسی بنائی ۔ پی آئی اے نے کمال ترقی کی ہے ۔بلکہ ترقی کو جمال صاحب کے ہاتھوں سے نکال کر کمال صاحب کے حوا لے کر دیا ہے۔ کچھ کمالات تاریخ ساز ہیں جس کی وجہ سے جس ترقی پسند شخصیت نے ریکارڈ توڑ ترقی حاصل کی وہ آج کل کینیڈا میں ہے۔ ترقی کے کچھ صدری نسخے جزائے خیر کی دعا کے ساتھ مفاد عامہ کے لیے پیشِ خدمت ہیں ۔
پہلا نسخہ:ـ ترقی کا اولین نسخہ موجودہ حج سیزن میں سامنے آیا۔ جب ایک طرف وزارتِ حج اور اوقاف حاجیوں کو بے مثال کھانے لاجواب ٹرانسپورٹ اور صحت کی بے نظیر سہولیات فراہم کر رہی تھی ۔ عین اسی وقت سول ایوی ایشن اور وزاتِ حج کو ترقی کا یہ صدری نسخہ اوپر سے مو صول ہوا۔ جس کے مطابق نیلی ائیر لائین کو حاجی مسافروں کا65 فیصد کو ٹہ الاٹ ہو گیا۔ کلیجی ائیر لائن کو حاجیوں کو ٹرانسپورٹ کرنے اور واپس لانے کا 35 فیصد کوٹہ اور بچے کھچے سپیشل جہاز، سرکاری حاجی۔ آخری ہفتے میں 7 روزہ حج کرنے والے وی،وی،آئی، پی حج سمیت نیم کاروباری کام پی،آئی،اے کے حوالے ہو گئے۔ اس طرح گزشتہ 70 سال میں پہلی مرتبہ قومی فلیگ کیرئیر کو حج سیزن کا سب سے بڑا ٹیکہ لگایا گیا۔ نیلی اور شرمیلی آنکھوں نے پاکستان سے حجاز مقدس تک اور پاک سر زمین سے نیل گوں آسمانوں تک ترقی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ جسے قومی ایئر لائین کی ترقی کی ان تفصیلات پر شک ہو وہ ڈی،جی،ایف،آئی،ائے واجد ضیاء سے حج کے تازہ ہوائی کوٹے کی تقسیم کی تفتیش کرا لے۔
دوسرا نسخہ: اس قابل ہے کہ قومی احتساب کے ادارے اسے پڑھ کر خوابِ خرگوش سے جاگ جائیں۔ایوی ایشن کے اک باخبر کا کہنا ہے کہ اس ایک نسخے سے پاکستان کو تقریباََ سالانہ 800کروڑ امریکی ڈالروں کا ٹیکہ لگ رہا ہے ۔ یہ نسخہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ لائل پور سے لے کر ڈیرہ غازی خان تک ہر چھوٹا بڑا ایئر پورٹ گلف کی6 ایئر لائینز اور ترک ایئرلائین کی جھولی میں جا گرا ہے ۔ دنیا کا ہر ملک لوکل رُوٹ پر اپنی ایئر لائین چلاتا ہے جبکہ چند انٹرنیشنل ایئر پورٹس غیر ملکی ایئر لائینز کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ جس بندہِ شکم نے پاکستان کے فضائی روُٹ غیر ملکیوں کو تحفے میں دیئے۔ جواب میں اس کی کمپنی کو سیالکوٹ سمیت ساری جگہ فضائی سروسز کے ٹھیکے مل گئے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔
تیسرا نسخہ :ترقی کا اس سے بھی بڑا سلک رُوٹ ہے ۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد میں اکثر پی،آئی ،اے کے جہاز دوسر ے ایئر پورٹ پر جا کر اُترنے کے لیے بھجوا دیئے جاتے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پی،آئی،اے کی کئی فلائٹیں گھنٹوں کے حساب سے لیٹ ہو جاتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں پی،آئی،اے کو کہا جاتا ہے آپ صبر کریں فلاں فلاں ایئرلائن کے جہازوں کو پہلے اتارنا یا اُڑانا ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام مفت نہیں ہوتا۔ یہی وہ ترقی کا اصل فارمولا ہے جس نے قومی ایئر لائین کے جہاز ویر ان کر دیئے اور قوم کو پریشان کن ترقی سے ہلکان کر رکھا ہے۔ 1970 کے عشرے میں رومانیہ کے صدر نکولائی چائو شس کو ہوتے تھے۔ شہید وزیرِ اعظم بھٹو نے انہیں پاکستان دورے پر بلایا ۔ رومانیہ کے صدر نے 2000 بسوں کا تحفہ پاکستانیوں کو دیا۔ تب پنڈی صدر سے میرے کالج مارگلہ ایف۔7تک لندن والی سُرخ ڈل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ جبکہ پنجاب کے ہر روُٹ پر پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی کالی پیلی بسیں چلا کرتی تھیں۔ اب ان بسوں کے قبرِ ستان لاہور اور اسلام آباد کے آئی سیکٹر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہہ رکھا ہے ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
انٹرنیشنل قانون میں گندے ذرائع سے جمع کی گئی دولت کو کالا دھن(Black Money) کہتے ہیں۔ غریب ملکوں میں لُوٹ مار کر کے چوروں کی باراتیں چوری کے کالے دھن کو (White Money) گورا بناتی ہیں ۔ اس کام کے لیے گورے ملکوں میں منی لانڈرنگ کے اکائونٹ کھلتے ہیں ۔ ان بے نامی اکاونٹس میں چوری کا مال اور چوری کے پیسے سے بنا ہوا مال محفوظ رہتا ہے ۔ پاکستان کے چور سینہ زور بھی ہیں ۔ چوری کر کے کہتے ہیں ثابت کرو میں نے کیسے چوری کی ۔ کالا دھن سفید کرنے والے گورے دل کے کالے ہیں۔ ورنہ وہ کالا دھن چوری کر کے گورے ملکوں میں چھپا نے والوں کو دبوچ لیتے ۔
کالے دل اور کالے منہ والے دھن کو یقینا سفید کر سکتے ہیں۔ لیکن تاریخ ان کے چہرے پر مستقل کالک مل دیتی ہے ۔ ایسے ہی کالے کرتوتوں والے ایمریٹس ایئرلائن کی فلائیٹ سے لے کر ایمر یٹس ہل کے فلیٹوں تک چور چور کے نعرے سننے پر مجبور ہیں۔