تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     11-09-2017

برما میں ریاستی دہشت گردی!

برما کے صوبے رخائین میں جاری ریاستی دہشت گردی نسلِ انسانی کو گھائل کرنے والے طوفانوں،جنگوں، بربادیوں اور خونریزی میں ایک ہولناک اضافہ ہے۔ قومی اور سرکاری وبدھ دہشت گرد ملیشیا کے افراد دیہات کو گھیر کر خواتین کی سرعام بے حرمتی کررہے ہیں۔ مردوں کو مختلف عمارات میں بند کرکے ان عمارتوں کو جلا رہے ہیں ۔ بچوں کے ہاتھ پائوں کاٹ رہے ہیں اور مظالم کی ایسی خونی ہولی کھیل رہے ہیں جس کی درندگی اس خطے میں شاید پہلے نہیں دیکھی گئی۔ اگست سے اب تک تقریباً 3لاکھ عام غریب روہنگیا قبائل کے انسان اپنے گھر بار چھوڑ کر اجڑ گئے اور بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ مزید لٹے اور بربادکارواں آرہے ہیں ۔ اس ریاستی دہشت نے1000 سے زیادہ افراد کا قتل عام کیا ہے اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش اور برما کو تقسیم کرنے والا دریا سرخ ہو چکاہے اور اس میں لاشوں کے انبار ڈرون کیمروں سے واضح نظر آرہے ہیں ۔ روہنگیا قبائل کے مسلمان مذہبی اقلیت ہیںجن کو 1980ء سے فوجی اور مذہبی تعصبات کی بنیادپر ریاستی اور سماجی ظلم وجبر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کی تقریباً 11لاکھ کی کل آبادی ہے جو اس ریاستی تشدد کا شکار ہے اور مسلسل بنیادی حقوق سے محروم ہے جبکہ برما 1948 ء میں''آزاد ‘‘ ہوا ۔ برما کی فوج 50سال تک براہِ راست فوجی اقدار اور مارشل لائوں کے نفاذ کے ذریعے جبری حاکمیت کرتی رہی ہے۔ فوج کی مختلف معاشی اداروںاور اقتصادی شعبوں میں وسیع مداخلت اور سرمایہ کاری رہی ہے۔ بینکاری سے لے کر صنعتی و زرعی پیداوار اور سروسز سیکٹر پر انکی ملکیت ہے۔ اس لوٹ کھسوٹ سے برما کی پہلے سے ہی بیمار سرمایہ دارانہ معیشت شدید بحران کا شکار ہوگئی ہے ۔ اس بحران نے سماجی ہلچل اور انتشار کو جنم دیا ہے۔
جنوبی ایشیاکے دوسرے ممالک کی حاکمیتوں کی طرح سرکارکے خلاف کسی عوامی بغاوت کے پھوٹنے کے خطرے کے پیش نظراس انتشارسے مذہبی اورلسانی تضادات،منافرتوں اورتعصبات کوہوادے کرایساماحول پیداکیاگیاہے کہ اس جنون سے اقلیتیں معاشرے کے اکثریتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی آبادی خصوصاًاسکی پسماندہ پرتوں کے شاونزم کی حقارت کاشکارہوجائیں۔برصغیرمیں خصوصی طورپرایک رحجان بھی پایاجاتاہے،گویہ تمام''ترقی پذیر‘‘ممالک میں بھی بڑھتاجارہاہے،یہاں اس دورمیں قوم اورقوم پرستی کاتصورمذہب اورعقائد کے ساتھ گڈمڈہوگیاہے۔ اس حوالے سے جب عقیدوں اور بورژواقوم پرستی کاملغوبہ بنتاہے تویہ زیادہ زہریلاہوکران معاشروں میں نفاق اورتفرقوں کی آگ کوبڑھاتاہے۔اس مذہبی قومی شاونزم کے جنون میں مبتلاپسماندہ پرتیں اقلیتوں کواپنی وحشی حقارت کانشانہ بناتی ہیں اورایسی ریاست اورفوج کی بھرپورحمایت کرتی ہیں جو اس ریاستی تشدد میں ظلم وبربریت کی انتہاکردیتی ہیں۔بتایاتویہ جاتاہے کہ ہرمذہب امن کاپیغام دیتاہے۔بدھ مت کی تواس امن و آشتی کابہت پراپیگنڈاکیاجاتارہاہے۔لیکن سری لنکا میں پچھلے 20سال سے جوکچھ ہوتارہاہے اوراب جوکچھ برمامیں ہورہاہے وہ ظاہر کرتاہے کہ بدھ مت کی مذہبی وحشت دوسرے مذاہب کے جنونیوں کی درندگی سے قطعاً کم نہیں ہے۔1962ء میں برما میں بائیں بازو کے افسران کی ایک فوجی بغاوت بھی ہوئی تھی۔انہوں نے مارکسزم کے نظریات کے برعکس ''برمی بدھ سوشلزم‘‘کی اخطراع چلانے کی کوشش کی۔جنرل نے ون(Newin)کی قیادت میں ہونے والے اس''انقلاب ‘‘ میں یہ ضرورہواکہ برطانوی ،یورپی ،بھارتی اورامریکی سامراج جس شدت کے ساتھ برماکے ربڑ،لکڑی، بانس، تیل اوردوسرے معدنیاتی اورزرعی ذخائر کولوٹ رہے تھے اسکاخاتمہ ہوا۔تمام شعبوں کونیشنلائز کرکے انکو برماکے عوام کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تنہا اورایک چھوٹے غیرترقی یافتہ ملک میں محدود یہ نظام بھلاکیسے چل سکتاتھا۔1988ء میں جب سرمایہ داری‘ نجکاریوں کے ذریعے بحال ہوئی توفوجی آمریت پھربھی قائم رہی۔ فرق یہ پڑاکہ زیادہ ترمعیشت کی نجی ملکیت اب برما کے جرنیلوں کی انفرادی ملکیت بن گئی۔اس فوجی آمریت کے ذریعے انہوں نے اپنے مالی مفادات کوسامراجی اجارہ داریوں سے تحفظ دینے کی پالیسی اختیارکی۔اس سے مغربی ذرائع ابلاغ نے جس ''جمہوریت‘‘کی حمایت کرناشروع کی اس کا مقصد بنیادی طورپربرماکی معیشت کوان جرنیلوں کے جبر سے ''آزاد‘‘ کرواکے سامراجی اجارہ داریوںکی لونڈی بناناتھا۔ اس ''جمہوریت‘‘ کی جدوجہد میں مغربی سامراجیوں نے جس ہیروئین کوپروان چڑھایا وہ''آنگ سانگ سوچی ‘‘ہی تھی۔لیکن عمومی طورپرسامراجی جس ملک کے بارے میں جمہوریت کاشورمچاررہے ہوتے ہیں ان کے پیچھے مالیاتی مفادات وابسطہ ہوتے ہیں ورنہ بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں درندہ صفت آمرانہ بادشاہتیں اورفوجی آمریتیں ہیں لیکن امریکہ اوریورپ کے تعلقات ان سے بہت اچھے ہیں اورانسانی حقوق کی بیشتر مغربی تنظیمیں بھی وہاں خاموش ہوجاتی ہیں۔
برمامیں اس وقت آنگ سنگ سوچی کی حکومت ہے۔اس حکومت میں برما میں یہ قتل وغارت جاری ہے۔سوچی نہ صرف اس ریاستی دہشت گردی کی بھرپورحمایت کررہی ہے بلکہ بدھ مت کی مذہبیت اورشاونزم کوبھی ہوادے رہی ہے۔اس کو سامراجیوں نے اس حد تک ابھاراتھااورمیڈیا میں ا س کا اتناچرچاتھاکہ اس کو جرات کانوبل انعام دلوایاگیا۔ نوبل انعام کی تقریب میں آنگ سنگ سوچی نے جو تقریر کی اس میں کہا تھا ''جب بھی ذلت اور جبر سے درگزر کیا جاتا ہے تو اس سے تصادم اور تباہی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔چونکہ اذیتیں اور ذلت ، غصہ اور وحشت کو جنم دیتے ہیں‘‘۔ آج اسی مغرب کی ''جمہوری‘‘ ہیروئین کی حاکمیت میں یہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں ۔ ایک پوری اقلیت کا صفایا کرنے کی درندگی جاری ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ارسا( اراکان روہنگیا نجات فوج)نے 25اگست کو پولیس اور فوج کی چوکیوں پر حملے کیے جس میں برما کی فوج کے12افراد مارے گئے۔ لیکن اس واقعہ کو بہانہ بناکر مذہبی دہشت گردی کی آڑ میں ایک پوری کمیونٹی کو لاکھوں کی تعداد میں ظلم کا نشانہ بنانا، ارا کانی نسلوں کو مجروح کرنا، ان کو ہر حق سے محروم کردینا سوائے اندھی وحشت کے کچھ نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ رجعتی اسلامی حکمران مختلف ممالک سے اس تنظیم کی فنڈنگ کررہے جن کے اپنے ہوس اور غلبے کے مقاصد ہیں۔وہ اس درندگی کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کررہے ہیں۔ جبکہ برطانوی لیبر پارٹی اور بائیں بازو کے سرکردہ لیڈر جیرمی کوربن نے سب زیادہ کھل کر اس ریاستی دہشت گردی کی مذمت بھی کی ہے اور اس کے خلاف احتجاج کو تیز کرنے کی اپیل بھی۔ جیرمی کوربن مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت اور طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ان مظلوم روہنگیا انسانوں کی حمایت کررہا ہے۔ برما1937ء تک متحدہ ہندوستان کا حصہ اور صوبہ تھا۔ برصغیر میں ہزاروں سال سے دور دراز سے انسانی ہجرتیں ہوتی آئی ہیں۔ آج بھی جنوبی ایشیا کے ہر ملک میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔روہنگیا مسلمانوں سمیت ہر مذہبی، نسلی وقومی اقلیت،جن کو حالات یہاں لے آئے یا جن کو جنگوں اور سامراجی بٹواروں نے یہاں آنے پر مجبور کیا ،کو شہریت اور دوسرے بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہیں ۔لیکن یہ خونریزی تو انسانیت کا قتل عام ہے۔ نریندری مودی کی حمایت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنی کھوکھلی اقدارکو جاری رکھنے کے لیے کس طرح ہر جگہ مسلمان دشمنی میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ وہ بدھ مذہبی جنونیت اور ہندو مذہبی وحشت میں جڑت بنانے کی غلیظ حرکت کررہا ہے۔ مودی سرکار بھارت میں آئے ہوئے چالیس ہزار روہنگیامسلمانوں کونکالنے کے لئے آپریشن کررہی ہے۔ پہلے سے تین لاکھ پچاس ہزار روہنگیامسلمان پاکستان میں ہیںاور22000 سعودی عرب میںہیں۔چین کی برما میں بھاری سرمایہ کاری ہے اس لیے چینی اشرافیہ کوخاموش تماشائی بننے کا ناٹک کرنا پڑرہا ہے لیکن اندر سے یہ بھی سوچی کی حکومت کی حمایت کررہا ہے۔ مغربی سامراجیوں کا بھی اپنے مفادات سے واسطہ ہے۔ ان کے لیے یہ خطرہ ہے کہ یہ بحران پھٹ کر کہیں زیادہ وسیع عدم استحکام اور انتشار کا موجب نہ بن جائے۔کیونکہ اس سے ہندوستان اور خطے میںان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وہ اس حوالے سے بحران کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن بحران کی اصل وجہ اور ریاستی دہشت گردی کی بنیاد برما کا وہ سماجی اور معاشی انتشار ہے جس پر قابوپانے کی صلاحیت سرمایہ دارانہ جمہوریت میںنہیں رہی۔ یہ انسانی خونریزی اس کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے اور اسکی زوال پذیری اور تباہی کو روک نہیں سکے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved