جولائی2001کو نائن الیون سے دو ماہ قبلJanes Information Group نے رپورٹ دی کہ راء اور موساد برسوں سے ساتھ ملائے گئے ایسے تخریب کار پاکستان میں داخل کر رہی ہے جن کے ذمے یہ مشن ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز، مشہور مذہبی رہنمائوں ، وکلاء اور جج صاحبان سمیت بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسران کی ٹارگٹ کلنگ کریں ...اس دوران ایک سیا سی جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک اہم ترین شخصیت کو جو ایک ادارے میں کام کر رہی تھی، حراست میں لے لیا گیا ، کچھ ایسے جہادی جن کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں آئی ایس آئی کی سرپرستی حاصل ہے، بھارت کے حوالے کرنے شروع کر دیئے گئے جن کی تفتیش کیلئے موساد بھی راء کے ساتھ شامل ہو گئی۔پھر اچانک9/11 ہو گیا اور معاملات کچھ اوررنگ اختیار کر گئے لیکن اس دوران بھارت نے ایک ایک کرکے پاکستان کی انتہا پسند تنظیموں اور جہادی گروپوں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا ...اور ساتھ ہی بلوچستان میں گریٹ گیم کے ابتدائی حصے کا آغاز کر نے کیلئے ایک تیار شدہ ڈرامہ ایک دھماکے کی طرح سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا ،مقصد اس کا صرف یہ تھا کہ ایک جانب بلوچ اور دوسری جانب بلوچستان سے متصل سندھی قبائل اور آبادی کو فوج کے خلاف کھڑا کر دیا جائے۔۔!!
آج جسے دیکھیں ایک ہی راگ آلاپے جا رہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی اور علیحدگی کی جنگ سردار اکبر بگٹی کے جنرل مشرف کے ہاتھوں قتل سے شروع ہوئی کیونکہ اس سے پہلے بلوچستان میں بلوچ آرام سے رہ رہے تھے اور اکبر بگٹی پاکستان کا سب سے بڑا ''حامی‘‘ تھا...انہیں13 اگست2004 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان جام یوسف کا ایک انٹر ویو ،جو ہیرالڈ ٹربیون کے ستمبر کے شمارے میں شائع ہوا تلاش کر کے پڑھنا چاہیے، جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی RAW بلوچستان کے اندر مختلف مقامات پردہشت گردی کے 40کیمپ چلا رہی ہے...جان محمد جمالی نے جب کہا کہ ا س وقت بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹ سر گرم ہیں، میڈیا کے بعض حصوں کی جانب سے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا گیا۔ لیکن پھر حالات نے یک لخت پلٹا کھایا ، جب یکم جنوری 2006 کی ایک سرد ترین رات سوئی بلوچستان میں پی پی ایل کالونی میں ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کی ڈیفنس سروسز گارڈ کے کیپٹن حماد کے ہاتھوں بے حرمتی کا ڈرامہ کھیلتے ہوئے فوج کے ایک ایسے کیپٹن پر الزام لگا دیا گیا ، جس کی شادی کو ابھی چند روز ہی ہوئے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نواب کی معاونت سے یہ بے حرمتی بھارت کی ایجنسیوں نے راء کے دو ایجنٹوں کے ذریعے کرائی گئی تھی ،جن کے نام ریاض گل اور فیروز انی بگٹی تھا۔ ان میں سے ریاض گل کو اکبر بگٹی نے سوئٹزر لینڈ کا ویزہ دلوا دیا اور وہ آج کل براہمداغ بگٹی کے ساتھ وہاں رہ رہا ہے ۔ شازیہ خالد کے ڈرامے کو اس قدر پبلسٹی دلوائی گئی کہ جنرل مشرف کو خود اس پر وضاحت دینے کیلئے ایوان صدر میں پریس کانفرنس کرنی پڑی لیکن کام کرنے والے اپنے مشن میں مصروف رہے اور پھر ایک دن سب نے دیکھا کہ بلوچ لبریشن آرمی اور اس کے جگہ جگہ تربیتی کیمپ وجود میں آ نا شروع ہو گئے ۔ لیڈی ڈاکٹرشازیہ خالد کا ایشو اٹھا کر پاک فوج کو نشانہ بنا نا کی باقاعدہ ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا اور ان کی جرات اس حد تک بڑھ گئی کہ فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بناکر اس میں سوار میجر جنرل کو زخمی کر دیا گیا ...!!
ایف آئی اے کے سابق ڈی جی غلام اصغر اور رحمان ملک کے بارے میں پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے ہو سکتا ہے کہ کسی دن انتہائی محفوظ پڑی ہوئی فائلوں کے کچھ اوراق باہر آ جائیں ۔رحمان ملک اس ملک کی سیا ست، حکومت اور اندرون خانہ سازشوں کا اہم ترین کردار ہے۔ اتنا تو سب کو یاد ہو گا کہ الطاف حسین کو ہمیشہ یہی رام کیا
کرتے رہے اور ذوالفقار مرزا جو کبھی زرداری صاحب کے بہت ہی قریب تھے ،ملک صاحب کے بارے میں جوکہہ چکے ہیں وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے ۔رحمان ملک جن کے بارے میں کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ایم آئی سکس سے تعلق ہے اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا لیکن یہ جان لیجئے کہ 2008 میں جیسے ہی پی پی پی کی حکومت میں آصف زرداری کی خواہش پر وہ وزیر داخلہ مقرر ہوئے تو ایک رات چپکے سے انہوں نے ایک ایسا نوٹیفکیشن جاری کرا دیا جس سے پاکستان تو کیا دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ نوٹیفکیشن تھا'' آئی ایس آئی‘‘ کو وزارت داخلہ کے براہ راست ماتحت کرنے کا ،مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آئی ایس آئی کے ایجنٹ، مختلف کورز میں کام کرنے والے پرائیویٹ ادارے اور ان کا عملہ، دنیا بھر میں دشمن ممالک کے اندر انہی کے شہریوں پر مشتمل نیٹ ورک ...حساس ترین تمام قومی راز غرض یہ کہ پاکستان کی یہ سب سے بڑی خفیہ ایجنسی جس پر اس قوم کے غیرت مند لوگ فخر کرتے ہیں، اس کے اندر پڑے ہوئے قومی سلامتی کے راز اور منصوبے ا س طرح عام کر دیئے جائیں جیسے کسی چوک میں لگا ہوا نلکا ہو کہ جس کا جب جی چاہے اسے استعمال کر نے لگے ...اور اگر کوئی چاہے تو رات کو اسے چپکے سے اتار کر جہاں چاہے لے جائے لے۔۔۔ یہ سب ا س لیے کیا گیا کہ پی پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی امریکہ جانے کیلئے اس رات جہاز میں سوار ہو چکے تھے اور صدر پاکستان آصف علی زرداری ، جن کے اشارے پر رحمان ملک نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت کو '' آئی ایس آئی‘‘ کے پر کترنے کی خوشخبری دیتے ہوئے امریکہ پہنچنے سے پہلے، ان کی سب سے بڑی اور دیرینہ خواہش پوری کرنے کا تحفہ دینا چاہتے تھے...لیکن پاکستان کی تینوں مسلح افواج رحمان ملک کے ہاتھوں اپنے اور پاکستان کے کپڑے اتروانے پر قطعی رضامند نہ ہوئیں اور چند گھنٹوں بعد ہی انہیں یہ نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا ۔ ہوشیاری اورچالاکی دیکھئے کہ آصف علی زرداری اور رحمان ملک نے اس نوٹیفکیشن کیلئے ایسا وقت منتخب کیا جب یوسف رضا گیلانی نے امریکہ میں موجود ہونا تھا اور فوج ان کی اس ملک دشمن سازش کے خلاف کسی قسم کا بھی سخت قدم اٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہ تھی؟۔۔۔اس کے بعد دوسرا ڈرامہ میمو گیٹ کی شکل میں سامنے لایا گیا ،مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں یہ تاثر مضبوط کر دیا جائے کہ پاکستان کی سول حکومت دہشت گردی اور آئی ایس آئی کے پر کترنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن فوج کے جرنیل ان کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب تک امریکہ فوج کی سیا سی معاملات میں مداخلت بند نہیں کراتا سول حکومت خود کو سونپے جانے والے امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے سے قاصر رہے گی...اس کھیل کا دوسرا'' حصہ ڈان لیکس‘‘ کی شکل میں ایک بار پھر دنیا کے سامنے لاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ نواز حکومت تو دہشت گردوں کو کچلنا چاہتی ہے لیکن پاکستانی فوج نے اپنی ہی نان سٹیٹ ایکٹر زپال رکھے ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے RAW کے بجٹ میں فوری طور پر دس گنا اضافہ کر دیا۔
2001 کے وسط میں موساد کا سپیشل آپریشن ڈویژن، جو سنیپ فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ میں مہارت رکھنے والوں پر مشتمل ہے ،بھارت پہنچ کر راء کے ایجنٹوں کو تربیت دینے لگا۔ ان کے آتے ہی بھارت کی یہ بد نام زمانہ خفیہ ایجنسی کے بجٹ میں اربوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا ...جیسے ہی یہ تربیت مکمل ہوئی ، کراچی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچ گئی یہ وہ وقت تھا جب کراچی اور بلوچستان میں راہ چلتے، پولیس افسران اور مختلف بازاروں اور مارکیٹوں میں روزانہ دس دس بیس بیس لوگ قتل کئے جاتے تھے...!! (ختم)