تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-03-2013

ڈرے ہوئے لوگ

یہ ڈرے ہوئے لوگ ہیں اور ڈرے ہوئے لوگ تاریخ نہیں بنایا کرتے۔ پاکستانی عوام کے بے باک اور بہادر رہنما کو ابھی نمودار ہونا ہے۔ فیصلہ وہ کرے گا اور پاکستانی عوام۔ بیرونِ ملک سونے کے انبار جمع کرنے والے یہ خوف زدہ سائے نہیں۔ مذاکرات ہی چاہئیں۔ امریکہ اگر طالبان سے بات کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں، دہشت گردی تیس ہزار زندگیاں چاٹ چکی۔ معیشت برباد ہے۔ سرمایہ بیرون فرار ہوتا ہے اور بہترین افرادی قوت بھی۔ بات مگر سہمے ہوئے لوگوں کی فرمائش پہ نہ ہوگی۔ ہر چیز کا ایک قرینہ ہوتا ہے اور ہر چیز کا ایک وقت۔ بستیوں کی سب سے بڑی آرزو امن ہوا کرتی ہے۔ لگ بھگ اسّی کروڑ برس کے ارتقائی عمل کے بعد‘ کرّۂ خاک پر زندگی کا آغاز ہوا تو ویرانوں سے اُمنڈتے خوف نے آدمی کا سواگت کیا۔ آسمان پر دمکتے ستارے اور ان کے نیچے خشک ہو جانے والی دلدلوں میں اُگے جنگل۔ کیڑے مکوڑے‘ بھیڑیے‘ بندر‘ ہاتھی‘ شیر اور چیتے‘ دس لاکھ طرح کی مخلوق پہلے سے دھرتی پہ دندنا رہی تھی۔ راتوں کو ہوا سرسراتی تو معلوم اور نامعلوم کا خوف رگوں میں وحشت بن کے اترتا۔ بیسویں صدی کے شاعر نے کہا۔ تیرگی ہے کہ اُمنڈتی ہی چلی آتی ہے شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے اولین آدمی کا عالم بھی یہی تھا۔ کہاں خوف و حزن سے آزاد اور بے کراں نعمتوں سے آباد جنت اور کہاں اس ویران قریے میں موہوم سی امید کے سہارے زندگی کا چراغ روشن رکھنے کی تگ و تاز؟ بہشت بریں کی دائم آسودگی نہیں ‘ 3500 سی سی دماغ کے پہلے بشر اور اس کی اولاد کو آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ ’’تاکہ میں تمہیں آزمائوں‘‘۔ ان کے پروردگار نے کہا: کہ تم میں سے اچھا عمل کس کا ہے۔ فرمایا: ایک مدت کے لیے اب یہی تمہارا ٹھکانا ہے۔ تم میں سے بعض‘ بعض کے دشمن ہوں گے۔ میں تمہیں امتحان میں ڈالوں گا‘ بھوک سے، پھلوں اور جانوں کی بربادی سے۔ فرمایا: تمام زندگیوں کو میں نے نخلِ جان پر جمع کیا ہے۔ زندہ رہنے کی بے حد تمنّا۔ آدمی امتحان میں ہے اور ہمیشہ امتحان میں رہے گا۔ فرد میں اتنا ہی اضطراب اور معاشرے میں اتنا ہی فساد ہوتا ہے‘ جتنا کہ آدمی فطرت کے تقاضوں سے دور۔ فرشتوں نے کہا تھا: یارب، وہ زمیں میں خون ریزی کرے گا۔ کروڑوں برس سے وہ اسے دیکھتے آئے تھے اور خوب اسے جانتے تھے۔ جب وہ چاروں ہاتھ پائوں کے بل چلا کرتا۔ جب وہ سیدھا کھڑا ہُوا، جب اس نے کلہاڑا بنا لیا اور کُشتوں کے پُشتے لگانے لگا۔ اول روز ہی شیطان نے کہا تھا کہ آدمی کو وہ گمراہ کرے گا۔ ہر طرح اسے فریب دے گا۔ وہم اور وسوسے کے ذریعے، بھُوک کے خوف اور خواہش کے غلبے سے۔ پروردگار عالم نے ہرگز اس کی تردید نہ کی مگر یہ ارشاد کیا: لیکن میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ وہ جو مجھے یاد رکھیں گے‘ اُٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بَل لیٹے ہوئے۔ وہ جو کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کریں گے۔ وہ جو غصّہ پی جائیں گے اور تنگ دستی میں بھی ایثار کریں گے۔ اگر نہیں تو زمانہ ان پر غالب آئے گا۔ انہیں پست و پامال کرکے رکھ دے گا‘ کیڑوں مکوڑوں کی طرح خوف زدہ اور لاچار۔ گزرے ہوئے تمام زمانوں کے خوف ان کے لہو میں سرسرائیں گے‘ اضطراب پھیلاتے رہیں گے۔ ’’قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے جنہوں نے حق اور صبر کی تلقین کی‘‘ افراد ہی نہیں‘ اقوام بھی ڈر جاتی ہیں۔ اسؐ نے جسے زندگی کے سب بھید بتا دیے گئے تھے یہ کہا تھا: آخر آخر میری امّت موت کے خوف میں مبتلا ہوگی۔ دشمن اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس طرح ایک دوسرے کو اس پر دعوت دیں گے‘ جیسے دسترخوان پر مدعو کیے جاتے ہیں۔ خدا کی قسم یہی وہ وقت ہے‘ یہی وہ زمانہ ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دائم ہمیں استعمار سے خوف زدہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حالات میں نہیں‘ خوف ان کے باطنوں میں ہے۔ ان کے اعمال کی تاریکیوں میں۔ اقبالؒ جانتا تھا‘ بخدا ان میں اقبالؒ سب سے زیادہ جانتا تھا۔ سبب کچھ اور ہے جسے خود تو سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں افرادی قوت کے سوا جاپانیوں کے پاس رکھا کیا تھا؟ کیا دوسری عالمی جنگ نے یکسر انہیں برباد نہ کر دیا تھا؟ اٹلی‘ جرمنی اور کوریا کو بھی؟ پھر وہ کیونکر اٹھ کھڑے ہوئے؟ اقوام یا افراد‘ قدرت کے قوانین ہیں اور جو ان سے انحراف کرتا ہے‘ سزا پاتا ہے‘ حتیٰ کہ گروہوں کے گروہ مبتلائے عذاب بھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ خوف میں کبھی کوئی حکمتِ عملی تشکیل دی جا سکتی ہے اور نہ مصلحت و خوش فہمی میں۔ ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت امریکہ سے خوف زدہ تھی۔ نائن الیون کے بعد وگرنہ اس طرح وہ ہتھیار نہ ڈال دیتی۔ سانحہ مگر اس سے پہلے کے مہ و سال ہی رونما ہوا تھا۔ معیشت ہم نے گروی رکھ دی‘ اسلحے کے لیے انکل سام پر انحصار کیا اور ہمیشہ کے کاسہ لیس حکمران طبقات نے امریکہ کو اپنا آقا مان لیا۔ فوجی آمر مسلط رہے یا حکمرانوں کا ہم نے اس طرح انتخاب کیا کہ جو دو غنڈے ووٹ مانگنے آئے‘ ان میں سے قدرے سازگار کو اختیار کر لیا۔ وہ جوازل سے ریزہ چیں تھے۔ اگر مغلوں کے نہیں تو سکھّوں اور انگریزوں کے۔ فرد یا قوم‘ زمانے کی وحشت سے بچنے کا فقط ایک راستہ ہے کہ زندگی کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی جائے‘ وگرنہ وہ نابغہ اسد اللہ خاں غالبؔ بھی کشکول ہاتھ میں تھامے معذور کی زندگی جیا۔ رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں طالبان سے مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں مگر کس طرح؟ کمزور پوزیشن میں نہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مسلح گروہوں کے سامنے جھکنے والی ریاست مٹ جایا کرتی ہے۔ بھارت کے اڑھائی سو اضلاع میں بغاوت ہے۔ پاکستان کے پورے حجم سے زیادہ۔ بھارتی حکمران مگر کشمیریوں تک سے بات کرنے پر آمادہ نہیں‘ جہاں نوے فیصد ان سے نفرت کرتے ہیں۔ مذاکرات کی آرزو نہیں‘ ایک کے بعد دوسری کل جماعتی کانفرنس خوف کا اظہار ہے۔ بات چیت کے لیے لازم یہ ہے کہ طالبان اپنی قیادت نامزد کریں اور پاکستانی دستور کو تسلیم کرنے کا اعلان۔ کل جماعتی کانفرنسوں اور ٹیلی ویژن پر نہیں۔ مذاکرات کا آغاز خاموش رابطوں کے ذریعے ہوگا۔ فوراً ہی وہ جنگ بندی کا‘ دھماکے نہ کرنے کا اعلان کریں۔ غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد قومی اتفاق رائے ہو سکے تو جواب میں رعایت انہیں دی جا سکتی ہے۔ ہر وہ رعایت جس پر قومی نمائندے متفق ہوں۔ تمام فریق‘ سارے سٹیک ہولڈرز۔ اقتدار کا خاتمہ قریب پا کر‘سیاسی ضرورت کے تحت مذاکرات نہیں‘ یہ پنجابی محاورے کے مطابق گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش ہے۔ عالی مرتبت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اس کوشش کا انجام وہی ہوگا‘ جو بے دلی سے کی جانے والی ہر ناتمام کاوش کا ہوا کرتا ہے۔ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی آنے والے کل میں مذاکرات ضرور ہوں گے۔ جلد ہوں گے اور انشاء اللہ کامیاب بھی مگر وہ کوئی اور کرے گا۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا: گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغان ہزار بادۂِ ناخوردہ در رگ تاک است یہ نہ سمجھ کہ سب کچھ میکدے میں آ پہنچا۔ ہزار جام ابھی گلستان کی شاخوں میں جھوم رہے ہیں۔ یہ ڈرے ہوئے لوگ ہیں اور ڈرے ہوئے لوگ تاریخ نہیں بنایا کرتے۔ پاکستانی عوام کے بے باک اور بہادر رہنما کو ابھی نمودار ہونا ہے۔ فیصلہ وہ صادر کرے گا اور پاکستانی عوام۔ بیرونِ ملک سونے کے ڈھیر جمع کرنے والے یہ خوف زدہ سائے نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved