تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-09-2017

ایک بلند پہاڑی چوٹی اور دو بلند مرتبہ افراد

سب سے پہلے میں ایک تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم کا عنوان 'پھول کی پتی اور ہیرے کا جگر‘ لکھا تو قارئین کو یہ بتایا کہ اصل میں یہ شعر سنسکرت زبان کے ایک شاعر برج نارائن چکبست کا ہے۔ چکبست اُردو زبان کے شاعر تھے‘ اور بہت اچھے شاعر۔ اقبال نے جس شعر کا ترجمہ کیا وہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے بھرتری ہری نے لکھا‘ جو سنسکرت زبان میں تھا۔ لاطینی کی طرح سنسکرت بھی ایک کلاسیکی زبان ہے اور آج بھی برطانیہ اور یورپ کی بلند معیار کی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ سنسکرت زبان کی کتابوں کا ایک بڑا عمدہ ذخیرہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کی لائبریری کا حصہ ہے۔ 70 سالوں سے اُن پر گردوغبار کی گہری تہہ جم چکی ہوگی کیونکہ کسی ایک شخص نے بھی وہاں سے ایک کتاب پڑھنے کے لئے نہیں مانگی۔ جب ایک بھی قاری نہ ہو تو کتابوں کا ماسوائے کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن جانے کے اور کیا مصرف ہو سکتا ہے؟ کیا پنجاب حکومت کی وزارتِ تعلیم سنسکرت کتابوں کے اتنے بڑے اور بے حد قیمتی ذخیرے کو محفوظ نہیں کر سکتی؟ کوئی وجہ نہیں کہ جب وزارتِ تعلیم میری فریاد سن کر حرکت میں آئے تو پتہ چل جائے کہ کتابوں کو تو دیمک کھا چکی۔ شیلفوں پر پڑے ہوئے راکھ کے ڈھیر سے آواز آئے: 
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے (غالب)
اب اصل کالم کی طرف آتے ہیں۔ 55 سال پہلے میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ملتان سے لاہور کا ٹرین میں سفر کیا۔ راستے میں ساہیوال (اُس وقت کا منٹگمری) رُکے تاکہ اپنے پیارے دوست مسعود احمد پوسوال (اب مرحوم) کو مل سکیں۔ ساہیوال آنے سے پہلے یا گزر جانے کے بعد ٹرین جس چھوٹے سے ریلوے سٹیشن سے گزری اُس کا نام ذہن پر نقش ہو گیا‘ ''میر داد مافی‘‘۔ اگر میں اس طرح پے در پے غلطیوں کا مرتکب ہوتا رہا اور معافیاں مانگتا رہا تو کچھ عجب نہیں کہ میرا نام بدل کر (یا بگڑ کر میر داد مافی ہو جائے۔ یقینا آپ نیا نام پڑھ کر از راہ تفنن مسکرائیں گے‘ مگر یاد رکھیں کہ یہی نام یوم آخرت کالم نگار کے کام آئے گا اور بخشش کا دروازہ کھولے گا۔ پھر آپ میری طرف رشک سے دیکھیں گے اور میں آپ کی طرف فاتحانہ نظروں سے۔
پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں (تاریخ یاد نہیں رہی) نیوزی لینڈ کے جس کوہ پیما نے ایک نیپالی مددگار Sherepa Tensing کی مدد سے پہلے پہل مائونٹ ایورسٹ فتح کی اور ملکہ برطانیہ سے سر کا خطاب پایا اُس کا نام تھا Sir Edmund Hilliary ۔ ہمہ وقت متجسس اخباری نمائندوں نے اُس سے پوچھا کہ آخر آپ کو گھر کا سکون چھوڑ چھاڑ کر اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اُس کا جواب یہ تھا (جو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے)۔ Because it was there ۔ (چونکہ یہ چوٹی وہاں تھی)۔ مطلب یہ تھا کہ چوٹی کا وجود ہی میرے لئے ایک چیلنج تھا کہ میں اُسے فتح کر سکتا ہوں یا نہیں۔ 
اب واپس چلتے ہیں آج کے کالم کے عنوان کی طرف۔ جس پہاڑی چوٹی کا آپ سے تعارف کرانا چاہتا ہوں اُس کا نام ہے نانگا پربت۔ وقت اور سرمایہ کی کمی اور گھر میں مزید کتابوں کے رکھنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے میں کتابوں کی دُکانوں کے اندر جانے سے پرہیز کرتا ہوں۔ وسطی لندن میں دُنیا بھر میں کتابوں کی سب سے بڑی دُکان Foyles کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نظر اتفاقاً ایک نئی کتاب کے پوسٹر پر پڑی اور وہیں جم گئی۔ پوسٹر پر نانگا پربت کی بڑی دلکش تصویر تھی اور کتاب کا نام بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا:
Nanga Parbat and its path into German Imagination۔ 282 صفحوں کی کتاب۔ ناشر Candian House اور قیمت 60 پائونڈ (یعنی7800 روپے)۔ قیمت ایک تہائی ہوتی تو میں ضرور خرید لیتا۔ زیادہ قیمت پڑھ کر میں نے سکھ کا سانس لیا کہ میں اسے خریدنا یا نہ خریدنے کے مسئلے سے بچ گیا۔ 
نانگا پربت سنسکرت زبان کے جن دو الفاظ کا ترجمہ ہے‘ وہ ہیں: Nagna Parbat ‘ یعنی برہنہ (ننگا) پہاڑ۔ یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ پہاڑ کی چوٹی اتنی عمودی ہے کہ اُس کو برف بھی پوری طرح نہیں ڈھانپ سکتی۔ بلندی 8125 میٹر ہے۔ بلندی کے اعتبار سے اُس کا دُنیا میں نواں نمبر ہے۔ یہ (K2 کی طرح) عمودی اور تقریباً ناقابل تسخیر ہے۔ یہ چوٹی (اپنی آٹھ اور بلند و بالا بہنوں کی طرح) آزاد کشمیر میں ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ 5000 کلومیٹر دُور یہ جرمن کوہ پیمائوں کے تصورات اور خوابوں کی جس طرح مرکز بن گئی ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
جرمن کوہ پیمائوں اور نانگا پربت کی دوستی 1854ء میں شروع ہوئی جبSchlagint weit نامی گھرانہ کے تین ایسے بھائیوں نے پہلے پہل اپنی کوہ پیمائی کی مشقوں کے لئے اسے چن لیا۔ وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سات سال پہلے Joseph Yilsmaier نے مذکورہ بالا پہاڑی پر کوہ پیمائی کی ولولہ انگیز داستان نانگا پربت کے نام سے فلم بنا کر بیان کی۔ 
آج کے کالم کے عنوان میں جن دو بلند مرتبہ افراد کا ذکر ہے اُن میں ایک ناول نگار ہے اور دُوسری ایک عالم فاضل خاتون۔ ناول نگار ادیب کا نام Clancy Slim تھا‘ جنہوں نے حال ہی میں 90 سال کی عمر میں وفات پائی۔ وہ ناول نگار ہی نہیں صحافی بھی تھے۔ اُن کی تصانیف کی بنیاد عوام دوستی اور محنت کشوں کے احترام پر رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1950ء کی دہائی میں امریکہ میں (جو میکارتھی کی Witch Hunt یعنی کردار کُشی کا دور تھا) اس حد تک غیر پسندیدہ سمجھا گیا اور اُن کا ناطقہ (پنجابی میں حقہ پانی) اس حد تک بند کیا گیا کہ اُنہیں امریکہ سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لینا پڑی‘ جہاں ترقی پسند حلقوں میں اُن کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ امریکہ میں تعلیمی اداروں نے Clancy پر ملازمت کے دروازے بند کر دیئے۔ ہالی وڈ نے اُن کے لکھے ہوئے سکرپٹ پر فلم بنانے سے انکار کر دیا۔ اخبارات اور ریڈیو (ابھی ٹیلی ویژن کا دور شروع نہ ہوا تھا) بھی اُن کے بائیکاٹ میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ وہ اپنے پیچھے صرف اپنی ادبی تخلیقات نہیں بلکہ مزاحمت کی ایک روشن روایت بھی چھوڑ کر گئے۔ یہ وہی روایت ہے جو آج بھی حق پرستوں اور انسان دوستوں کو نسل پرستوں کے خلاف لڑنے اور اپنی جان کی قربانی دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ ہے اُس امریکہ کا اصل رُوپ جو ساری دُنیا (خصوصاً) تیسری دنیا‘ یعنی ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو انسانی حقوق کی اہمیت اور عظمت کا سبق سکھاتا ہے۔ اب ہم چلتے ہیں مریم میرزا خانی کی طرف۔ یہ خاتون ایران میں پیدا ہوئیں‘ اور ریاضی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تہران کی شریف یونیورسٹی میں اور اس کے بعد امریکہ کی بہترین یونیورسٹی (Harvard) میں۔ وہ وسط جولائی میں 60 سال کی عمر میں سینہ کے کینسر کے موذی مرض سے وفات پا گئیں تو امریکہ اور یورپ کے تمام اچھے اخباروں میں اُن کا تعزیت نامہ شائع ہوا۔ مریم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نہ صرف ہارورڈ بلکہ Princeton یونیورسٹی میں بھی ریاضی کے پروفیسر کی کرسی پر بیٹھیں۔ ریاضی کی دُنیا میں ہر سال چوٹی کے ایک ریاضی دان کو اُس کی لکھی خدمات پر جو انعام دیا جاتاہے‘ اُسےFields Medal کہتے ہیں۔ مریم سے پہلے یہ انعام جن 52 ریاضی دانوں کو دیا گیا‘ وہ سب کے سب مرد تھے۔ اس انعام کو حاصل کرنے والوں کی تاریخ میں وہ پہلی خاتون تھیں۔ یہ کالم نگار سکول اور کالج میں حساب کے مضمون میں ہمیشہ فیل ہوتا رہا۔ وہ اپنے قارئین کو مریم کی ریاضی کے مضمون پر عبور کے بارے میں تفصیل سے بتائے اور سمجھائے تو کیونکر؟
مریم نے ہمیشہ اپنے والدین (احمد اور زہرہ میرزا خانی) اور اپنے بڑے بھائی کو خراج عقیدت پیش کیا کہ وہ اُن کی حوصلہ افزائی کی بدولت ریاضی کے مضمون میں اتنا کمال حاصل کر سکی۔ ایران کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہاں کا نظام خواتین کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیتا۔ مریم نے ثابت کر دیا کہ یہ تاثر درست نہیں۔ میرے لئے اُن کو سمجھنا اور پھر آپ کو سمجھانا ہرگز ممکن نہیں۔ اجازت دیجئے کہ میں انگریزی میں لکھی گئی سطور کو ہوبہو نقل کرکے آپ سے اجازت لوں:
"Her outstanding contributions was to the dynamics and geometry of riemann surface and their moduli spaces."

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved