تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     12-09-2017

دہشت گردوں کے نئے ہتھکنڈے

سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک اہم رہنما خواجہ اظہارالحسن پر کراچی میں قاتلانہ حملے کی تفتیش کے جو نتائج سامنے آ رہے ہیں‘ وہ دل دہلا دینے والے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ گزشتہ چار برس سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو حکام اس ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ ان کے لئے بھی یہ نئی بات ہو گی۔ جن ملزموں اور مشکوک افراد کو پولیس اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوئی ہے‘ ان سے حاصل کی گئی معلومات سے دہشت گردوں کے بارے میں نئے اور حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملزمان کا تعلق کسی غریب یا محروم طبقے سے نہیں‘ بلکہ وہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی۔ ان میں سے بعض اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ریسرچ اور تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس انکشاف سے کم از کم اس رائے کی نفی ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کا تعلق زیادہ تر غریب اور ان پڑھ طبقات سے ہوتا ہے۔ یا یہ کہ تعلیمی کمی اور غربت دہشت گردی کی اصل اور سب سے اہم وجوہات ہیں۔ اگرچہ نائن الیون میں حصہ لینے والے دہشت گرد بھی تعلیم یافتہ تھے‘ بلکہ امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے‘ اور یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے‘ جس میں متعدد محرکات کارفرما ہیں‘ تاہم پاکستان میں اس انکشاف سے دہشت گردی کے مسئلے کے ایسے پہلو سامنے آئے ہیں‘ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور قوم کو اس سارے مسئلے کا نئے تناظر میں جائزہ لینا ہو گا۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر جو بحث چھڑ گئی ہے‘ وہ بجا طور پر پاکستان میں تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں کے کردار پر فوکس کر رہی ہے‘ بلکہ میرے خیال میں ملک کا پورا تعلیمی نظام اور اس نظام کے تحت بچوں اور نوجوانوں کو جو پڑھایا جا رہا ہے‘ اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پبلک سیکٹر ایجوکیشن سسٹم یعنی گورنمنٹ کے تحت قائم اور چلنے والے سکولوں اور کالجوں کا برا حال ہے۔ سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد میں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے‘ لیکن ان اداروں میں سہولتیں اور اساتذہ کی تعداد میں اس نسبت سے اضافہ نہیں ہوا۔ کالجز‘ جہاں سے فارغ التحصیل طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں‘ بدنظمی کا شکار ہیں۔ وہاں سال میں صرف چار مہینے پڑھائی ہوتی ہے۔ اساتذہ کلاس میں طلبہ کو پڑھانے اور محنت کرانے کی بجائے ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں‘ جبکہ طلبہ کو وہاں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔ جو طلبہ بھاری ٹیوشن فیسیں ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں‘ وہ امتحانات میں نمایاں نمبر اور پوزیشن حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور باقی اس سے محروم رہتے ہیں۔ جہاں تک یونیورسٹیوں کا تعلق ہے‘ گزشتہ ایک دہائی میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں ان کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور بے شمار نئے پروگرام بھی متعارف کرائے گئے ہیں‘ لیکن کوالٹی آف ایجوکیشن پر توجہ نہیں دی گئی‘ بلکہ معیار کا گراف پہلے کے مقابلے میں نیچے آیا ہے۔ اس کا ثبوت پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج ہیں۔ دوسرے‘ ان یونیورسٹیوں میں جتنے بھی نئے پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں‘ وہ ایسے ہیں‘ جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے۔ ایسے ماحول میں پڑھنے والے طلبا سے اس یکسوئی اور لگن کی امید کرنا مشکل ہے‘ جس کے ہوتے ہوئے ہماری نوجوان نسل دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے منفی رجحانات سے محفوظ رہے۔
خواجہ اظہارالحسن کیس کی تفتیش سے جو انکشافات سامنے آئے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ لوگ چھوٹے گروپوں میں آپریٹ کر رہے ہیں۔ اب تک تفتیشی عملے نے گرفتار شدگان سے جو معلومات حاصل کی ہیں‘ ان کے مطابق جس گروپ نے خواجہ اظہارالحسن پر حملے میں حصہ لیا‘ اس میں 9 سے 12 دہشت گرد شامل تھے۔ کم تعداد پر مشتمل گروپوں کی شکل میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرنا پاکستان میں دہشت گردوں کے تازہ ترین ہتھکنڈوں کی ایک مثال ہے۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ چھوٹے گروپ میں شامل دہشت گردوں کو کارروائی کے لئے موقع محل کے مطابق آزادانہ طور پر فوری کارروائی میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پکڑے جانے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ محض چند افراد تک محدود رہتے ہیں اور باقی افراد یا دہشت گردی کا بیشتر انفراسٹرکچر انسدادِ دہشت گردی فورس کی دسترس سے باہر رہتا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ بلکہ دنیا بھر میں یہ ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں اور ان کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والی فورسز کو کنفیوز کرنا اور واردات کیے بعد بچ نکلنے میں کامیاب ہونا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دہشت گرد اپنے حملوں‘ تنظیم اور حکمت عملی میں مختلف ارتقائی مراحل سے گزر رہے ہیں اور اس کا مقصد اپنے اہداف کو بآسانی حاصل کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والی فورسز نہ صرف جدید تیکنیک بلکہ ضروری سازوسامان سے بھی محروم ہیں۔ اس کیس کی تفتیش سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ کراچی یا ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف اپنے طور پر آزادانہ ہدف اور طریقہء واردات کا انتخاب کرتی ہیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر‘ دونوں سطح پر ان کا دیگر دہشت گرد تنظیموں سے رابطہ بھی ہے۔ مثلاً ''انصارالشریعہ‘‘ گروپ کے ارکان کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی اور ہتھیار چلانے کی تربیت افغانستان میں حاصل کی‘ اور پاکستان میں جو دیگر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں‘ ان سے بھی ان کے رابطے رہے ہیں۔ جہاں تک افغانستان سے تعلق کا معاملہ ہے تو یہ نہ تو نئی اور نہ ہی غیر متوقع بات ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی خصوصاً فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کے افغانستان سے رابطے اس وقت سے چلے آ رہے ہیں‘ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان حکومت نے ان عناصر کو پناہ دے رکھی تھی۔ افغانستان میں ان کے تربیتی کیمپ تھے۔ 1990ء کی دہائی میں ان عناصر نے‘ جن کا تعلق سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی سے تھا‘ پاکستان میں اپنے مخالف فرقے کے سرکردہ افراد‘ جن میں ڈاکٹر‘ دانشور‘ اساتذہ اور وکیل شامل تھے‘ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا طریقہء واردات یہ تھا کہ یہ اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کے بعد افغانستان میں اپنے اڈوں میں پہنچ جاتے تھے‘ جہاں طالبان نے انہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کر رکھی تھیں۔ نائن الیون کے واقعہ سے پہلے جب ان عناصر کو ان سرگرمیوں اور افغانستان میں ان کے ٹریننگ کیمپ کی موجودگی اور انہیں ختم کرنے کے بارے میں طالبان سے جنرل مشرف کی حکومت نے مطالبہ کیا تو طالبان نے پہلے تو اس کی تردید کی‘ مگر جب پاکستان نے ٹھوس ثبوت فراہم کئے تو طالبان نے ان سہولیات کو ختم کرنے کی ہامی بھر لی‘ تاہم مشرف حکومت میں وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کے مطابق طالبان نے اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا اور پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کا نہ صرف طالبان سے متواتر رابطہ رہا‘ بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم ہوئے سولہ برس ہونے کو ہیں‘ لیکن پاکستان سے ملحقہ مشرقی اور جنوبی افغان علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اس لئے نہ صرف پاکستانی طالبان بلکہ ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے اب بھی افغان طالبان کے ساتھ رابطے ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں نہ صرف ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں بلکہ منصوبہ بندی‘ لاجسٹکس اور افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے سے بھی ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔
کراچی میں خواجہ اظہارالحسن پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو چنانچہ صرف کراچی یا ایک دہشت گرد تنظیم کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اسے ایک وسیع تر علاقائی تناظر میں زیر غور لانے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved