تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     13-09-2017

برما کی حقیقی صورتحال

برما کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے عالم اسلام میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ گو مسلمان حکمرانوں نے اس ضمن میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا لیکن بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ اس حوالے سے بے چینی اور بے قراری کاشکار ہے۔ عین ان ایام میں جب برما میں ظلم اپنے پورے عروج پر ہے سوشل میڈیا پر بعض ایسی پوسٹس بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے یہ تاثر ملتاہے کہ برما میں خانہ جنگی جاری ہے اور حکومت مجبوراً مسلح دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ 
برما کی آنگ سان سوچی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا کو یہ تاثر دیتی ہیں کہ برما میں ظلم نہیں ہو رہا بلکہ دو طرفہ خوف کی وجہ سے خانہ جنگی کی ایک کیفیت ہے۔ حقیقی صورتحال کیا ہے اس کے حوالے سے بی بی سی اردو کے نمائندے نے آنکھوں دیکھا حال قلمبند کیا ہے جسے حقیقت کی نقاب کشائی کے لیے قارئین کی نذرکیاجا رہا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار برائے جنوب ایشیا میانمار حکومت کی اجازت سے روہنگیا مسلمانوں کے علاقے میں گئے ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں جانے کے باوجود انہوں نے کیا دیکھا انہی کی لکھی تحریر پڑھیں:
'' جب ہم رخائن صوبے کے دارالحکومت ستوے پہنچے تو ہمیں ہدایت دی گئی کہ کوئی گروپ سے الگ نہیں ہوگا اور آزادانہ طور پر کام نہیں کرے گا۔شام کے چھ بجے سے کرفیو نافذ ہو گیا تھا اس لیے اندھیرے میں کسی کو نکلنے کی اجازت نہیں تھی ہم کسی خاص جگہ جانے کے لیے اجازت طلب کر سکتے تھے لیکن ہر بار سکیورٹی کے نام پر اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ انھیں ہماری سکیورٹی کی واقعی فکر تھی۔
میانمار کے اس نچلے علاقے میں سفر زیادہ تر پیچیدہ اور ناہموار راستوں اور دریاؤں سے تھا جس میں کشتی اپنی استعداد سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ ستوے سے بوتھیڈونگ پہنچنے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ وہاں سے ہم ایک گھنٹے تک مایو پہاڑیوں کے درمیان خراب سڑک پر مونگڈا تک سفر کرتے رہے۔ جیسے ہی ہم شہر میں داخل ہوئے ہمیں پہلا جلا ہوا گاؤں مایوتھو گیئی نظر آیا جہاں ناریل کے درخت تک جلے ہوئے تھے۔یہاں ہمیں لانے کا حکومت کا مقصد یہ تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے جو منفی بیان آ رہے تھے اس وہ اپنی پوزیشن واضح کریں۔ بنگلہ دیش آنے والے پناہ گزینوں نے میانمار حکومت اور رخائن والوں کے ہاتھوں دانستہ بربادی کی داستان بیان کی تھی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی بات کہی تھی۔ پہلی ہی نظر میں ہمیں یہاں لانے کی حکومت کی کوشش ناکام نظر آنے لگی۔سب سے پہلے ہمیں مونگڈوا میں ایک پرائمری سکول لے جایا گیا جو بے گھر ہندو خاندانوں سے بھرا تھا۔ ان سب کے پاس کہنے کے لیے ایک ہی کہانی تھی کہ کس طرح مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا اور وہ ڈر کر اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ لیکن جو ہندو پناہ گزین میانمار سے بنگلہ دیش فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے ان سب کا کہنا تھا کہ رخائن کے مقامی بدھ مذہب کے ماننے والوں نے ان پر حملہ کیا تھا کیونکہ وہ روہنگیا کی طرح نظر آتے ہیں۔سکول میں ہمارے ساتھ مسلح پولیس اور حکام تھے تو کیا ایسے میں وہ بے خوف ہو کر ہم سے بات کر سکتے تھے؟ ایک شخص نے مجھے بتانا شروع کیا کہ فوجیوں نے ان کے گاؤں پر فائرنگ کی تھی کہ بیچ ہی میں پاس میں بیٹھے شخص نے اسے ٹوکا۔ بھوری لنگی میں ملبوس ایک خاتون نے بطور خاص مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے مظالم کو ڈرامائی انداز میں بتایا۔
پھر ہمیں ایک بدھ مندر میں لے جایا گیا جہاں ایک بدھ راہب نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں نے وہاں اپنے گھروں کو خود ہی جلا دیا۔ ہمیں ثبوت کے طور پر تصاویر دی گئیں جس میں وہ اپنا گھر جلا رہے تھے۔ یہ عجیب تھا۔سفید حاجی ٹوپی والے مرد گھروں کو نذر آتش کررہے تھے اور خواتین جنھوں نے لیس والی میز پوش اپنے سرپر ڈال رکھی تھی وہ عجیب ڈرامائی انداز میں تلواریں چلا رہی تھیں۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان میں سے ایک عورت وہی تھی جو سکول میں ڈرامائی انداز میں مسلمانوں کے مظالم گنا رہی تھی اور تصویر میں موجود ایک بے گھر ہندو مرد بھی سکول میں موجود تھا۔ ان لوگوں نے جعلی تصویریں بنائی تھیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ مسلمان آگ لگا رہے ہیں۔ ہم سرحد کی سکیورٹی کے ذمہ دار مقامی وزیر کرنل فون ٹینٹ سے ملے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح بنگالی دہشت گردوں نے روہنگیا کے دیہات پر قبضہ کر لیا۔وہ اراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس اے) کو بنگالی دہشت گرد کہتے ہیں۔کرنل فون ٹینٹ نے دعوی کیا کہ اے آر ایس اے والوں نے گاؤں میں لوگوں کو مجبور کیا کہ ہر گھر سے ایک شخص کو لڑنے کے لیے دیا جائے۔ جس نے انکار کیا ان کے گھر جلا دیے گئے۔ انھوں نے جنگجوؤں پر بارودی سرنگ بچھانے اور تین پلوں کو اڑا دینے کا بھی الزام لگایا۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تمام جلے ہوئے گاؤں کو جنگجوؤں نے برباد کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ حکومت کا یہی موقف ہے۔ جب فوج کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہا: 'کیا ثبوت ہے؟' انھوں نے روہنگیا خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان خواتین کو دیکھو جو استحصال کا دعویٰ کر رہی ہیں، کیا کوئی ان کا ریپ کرنا چاہے گا؟جن گنے چنے مسلمانوں سے مونگڈوا میں ہماری ملاقات ہوئی وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ کیمرے کے سامنے کچھ بھی کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ہم نے اپنے پہرے داروں سے نظر بچا کر چند مسلمانوں سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں بہت تکلیف ہے۔ سکیورٹی فورس انھیں یہاں سے کہیں جانے نہیں دیتی انھیں کھانے کی قلت ہے اور وہ شدید خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بھاگ کر بنگلہ دیش جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیڈروں نے حکام کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ وہ یہیں رہیں گے۔ اس لیے وہ مجبور ہیں۔ایک بنگالی بازار میں جہاں اب خاموشی چھائی ہے میں نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ اسے کس کا ڈر ہے تو اس نے بتایا حکومت کا۔مونگڈوا کے باہر جہاں ہمیں واقعتاً جانا تھا وہ سمندری شہر الیل تھان کیاو تھا۔جو ان مقامات میں سے ایک تھا جہاں اے آر ایس اے کے جنگجوؤں نے 25 اگست کو حملہ کیا تھا۔ جب ہم وہاں جا رہے تھے راستے میں ہمیں بہت سے گاؤں ملے جو مکمل طور پر ویران تھے۔ ہم نے خالی چھوڑ دی جانے والی کشتیاں، بکریاں اور مویشی دیکھے، بس وہاں انسان نہیں تھے۔الیل تھان کیاو پوری طرح سے زمیں بوس ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ میڈیسن ود آؤٹ بارڈر کے بورڈ والا کلینک بھی جل چکا تھا۔ شمال کی سمت ہمیں چار جگہوں سے دھوئیں اٹھتے نظر آئے اور ہم نے خودکار بندوقوں سے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ ہم نے اندازہ لگایا مزید کچھ گاؤں نذر آتش کئے جا رہے ہیں۔
جب ہم الیل تھان کیاو سے واپس آ رہے تھے تو ایک غیر متوقع واقعہ پیش آیا۔ہم نے دیکھا کہ دھان کے کھیت میں پیڑوں کے پیچھے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ سڑک سے دور ایک اور گاؤں تھا جو جل رہا تھا۔ اور آگ ابھی شروع ہوئی تھی۔ ہم سب ایک ساتھ گاڑی روکنے کے لیے اونچی آواز میں چلا پڑے۔ اور جب گاڑی رکی تو ہم سب حکومت کے اپنے محافظوں کو حیرت زدہ چھوڑ کر اس طرف دوڑنے لگے۔ پولیس پیچھے پیچھے ہمارے ساتھ آئی اور اس نے کہا کہ گاؤں میں جانا محفوظ نہیں اس لیے وہ رک گئے اور ہم ان سے پہلے گاؤں میں داخل ہو گئے۔ہر طرف سے جلنے اور چٹخنے کی آواز آ رہی تھی۔ کیچڑ زدہ راستے پر عورتوں کے کپڑے لتھڑے پڑے تھے اور وہ واضح طور پر مسلم خواتین کے کپڑے تھے۔ راستے میں گٹھیلے نوجوان تلواروں اور برچھیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ 18 صحافیوں کو اپنی جانب دوڑتے آتے دیکھ کر حیران تھے۔ انھوں نے کیمرے سے بچنے کی پوری کوشش کی۔ جبکہ دو گاؤں کے اندر بھاگے اور اپنے گروپ کے آدمیوں کو لے کر جلد بازی میں وہاں سے نکل گئے۔انھوں نے بتایا کہ رخائن کے لوگ بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان میں سے ایک سے جلدی جلدی بات کی جس نے یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے پولیس کی مدد سے گھروں کو آگ لگائی ہے۔یہ مسلمانوں کا گاؤں گائو دوخاریا تھا‘‘۔
رپورٹ کو پڑھنے کے بعد اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو کس قدر ظلم اور بربریت کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ امت مسلمہ اور مسلمان حکمرانوں کو اس ضمن میں موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر برما کے مسئلے کے حوالے سے اپنی تین تجاویز کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں:
1۔ اسلامی ممالک ظلم کے موقوف ہونے تک برما کا تجارتی بائیکاٹ کریں2۔ برما کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں3۔ روہنگیا مسلمانوں کو اپنے اپنے ملکوں پناہ دی جائے۔ 
اگر تمام اسلامی ممالک اپنی سرحدوں کو روہنگیا مہاجرین کے لیے کھول دیتے ہیں تو ہر ملک میں چند ہزار مہاجرین آبادہوں گے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان ملک کے اوپر زیادہ دباؤ نہیں پڑے گا۔ اگر امت مسلمہ کے سیاسی قائدین امت کے درد کو محسوس کر کے ان قابل عمل تجاویز پر عمل کریں تو یقینا روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا کسی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved