تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-09-2017

ناکامی

ناکامی ایک ایسی چیز ہے ، زندگی میں ہر کسی کو جس سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ابراہام لنکن اور ظہیر الدین بابر جیسے لوگوں کو ناکامی برداشت کرنا پڑی ۔ اپنی خود نوشت میں ظہیر الدین بابر اپنی نوجوانی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اس قدر مایوس ہو چکا تھا کہ کئی دفعہ دل چاہتا کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے ۔ بہرحال اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بالآخر اپنا رخ موڑ کر وسطی ایشیا سے نکل کر برصغیر کی طرف آیا۔ فتح پہ فتح حاصل کی ؛حتیٰ کہ ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ خود قائدِ اعظمؒ ایک دفعہ برصغیر سے مایوس ہو کر لندن واپس چلے گئے تھے ۔ اس کے بعد جس طرح وہ واپس آئے اور جس طرح آزادی کی جنگ جیتی ، وہ سب کے سامنے ہے ۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہم سب اس وقت متحدہ ہندوستان میں تیسرے درجے کی ایک اقلیت ہوتے ، کسی بھی وقت فسادات میں جسے تباہ و برباد کیا جا سکتاہے ۔ حوالے کے طور پر ملاحظہ ہو 2002ء میں نریندر مودی کے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات،جن کے نتیجے میں مودی کے امریکہ داخلے پر دس سال پابندی عائد رہی۔ اس کے بعد پاکستان اور مسلم مخالف مہم چلا کر وہ بھارت کا وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہوا اور امریکہ کو یہ پابندی ہٹانا پڑی۔ 
مجھے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں ایک نوجوان اپنی زندگی کی ناکامیوں پر سخت آزردہ ہے ۔یہ ای میل اور اپنا جواب اس امید پر لکھ رہا ہوں کہ شاید بہت سے لوگوں کے لیے مشکل حالات میں جدوجہد کی ہمت پیدا ہو ۔ نوجوان لکھتا ہے '' میرا نام.....ہے ۔ بغیر کسی تمہید کے ، میں اپنے مسئلے پر بات کرنا چاہوں گا۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتاہے کہ بدقسمتی ، ناکامی اور مسترد کیا جانا میری زندگی میں لازم و ملزوم ہے ۔ میں جتنی بھی کوشش کروں ، کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تودوسروں سے بہت کم ۔ میری زندگی میں ہر چیز اور ہر بڑا واقعہ دو بار پیش آتا ہے ۔ سکول 2، کالج دو اور یونیورسٹیاں بھی دو (فیل ہونے کی وجہ سے )۔ 
.....یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو باوجود کوشش کے میں وہاں سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل نہ کر سکا ۔ اس میں میری اپنی بے شمار غلطیاں اور نالائقی بھی تھی بلکہ حماقتیں لیکن جب بھی میں نے محنت کی ، کسی مضمون کو زیادہ وقت دیا ، تب بھی میں ناکام ہی ہوا ۔ پھر ایک دوسری یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پاس ہوا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سال بیروزگار رہا ۔ پھر نوکری ملی اور یہ کافی محنت طلب تھی ۔ میں نے دل لگا کر کام کیا لیکن پھر نکال دیا گیا ۔ میرے سب دوست اچھے عہدوں پر ہیں اور وہ سب شادی شدہ ہیں ۔ جب کہ میں 29سال کی عمر میں بے روزگار اور کنوارا بیٹھا ہوں ۔ 
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میرا قصور کیا ہے ۔ دوسروں کو دیکھتا ہوں تو ان کی قسمت دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیسے ہر چیز انہیں favourکرتی ہے ۔ میرے ساتھ بالکل الٹ معاملہ ہے ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ شادی کے معاملے میں بھی کہیں ایسا نہ ہو ۔ کیوں کہ اب میری ہمت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ اگر میری شادی بھی ناکام ہوئی تو یہ میرے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ۔ 
میں بڑے گناہوں سے اب تک بچا ہوا ہوں ۔ کوئی بری عادت نہیں ، ہاں نماز نہیں پڑھتا ، جو کہ پڑھنی چاہیے ۔ آپ کے کالم پڑھتا ہوں ، آپ کے والد کے بھی ۔ ان میں پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا ذکر ہوتا ہے ۔ آپ کی ان تک رسائی ہے ۔ آپ کچھ میرے بارے میں مہربانی کر کے بات کریں کہ کیا میری ساری زندگی یوں ہی گزر جائے گی؟ اللہ سے بھی گلے کرتا ہوں لیکن پھر توبہ بھی کرتا ہوں اور شکر بھی کرتا ہوں ۔ بس زندگی اور خیالات کچھ عجیب سے ہی ہو گئے ہیں ۔ ‘‘
اب جس شخص کو یعنی مجھے یہ نوجوان کامیاب سمجھ کے رابطہ کر رہا ہے ، اس کی اپنی زندگی ملاحظہ ہو ۔ میرا جواب یہ ہے : 
''وعلیکم السلام۔ جو کچھ آپ بتا رہے ہیں ، اس سے دو گنا زیادہ برے حالات سے میں گزر چکا ہوں ۔ میں نے میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں ایک سال ضائع کیا۔ پھرآئی کام، بی کام کیا۔اس دوران قرآن کے 18سیپارے حفظ کیے۔ پھر سی اے میں دو سال ضائع کیے ۔ پھر ایم بی اے کیا۔ پھر بے روزگار رہا۔ پھر 16ہزار روپے میں ایک بینک میں نوکری کی۔ پھر دوبارہ بیروزگار ہوا۔ پھر کالم لکھنے شروع کیے ۔ اس کے بعد میرا نکاح ہوااور ساتھ ہی ایک نیوز چینل میں ایک اچھی نوکری ملی۔ اس کے بعد رخصتی سے پہلے ہی طلاق ہو گئی ۔ اس کے بعد ٹی وی کی نوکری ختم ہو گئی ۔ پھر کالم لکھنا چھوڑ دئیے ۔ پھر پانچ ماہ کے بعد دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ اس وقت میں کنسٹرکشن اور ساتھ ہی ساتھ ایک اورپراجیکٹ میں سخت محنت کر رہا ہوں۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ میں کامیابی کے بہت قریب پہنچ چکا ہوں اور یہ ہوائی بات نہیں بلکہ ساری صورتِ حال اور حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے کہہ رہا ہوں ۔ مجھے معدے کی ایک بیماری (Acid reflux disease)ہے ، جس سے میری کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔اس کے باوجود حال ہی میں اللہ کے فضل سے پانچ کلو اضافی وزن کم کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ناکامیاں بہت ضروری تھیں اور یہی مستقبل میں کامیابی تک لے جائیں گی ، انشاء اللہ۔ رہی یہ بات کہ سب اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ گئے اور آپ پیچھے رہ گئے تو یہ بات غلط ہے ۔ کسی کی آزمائش شادی اور اولاد کے بعد شروع ہوتی ہے ، کسی کی صحت کے ہاتھوں بچپن سے شروع ہو جاتی ہے اور کسی کی بڑھاپے میں ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ موت سے قبل ہر کوئی اپنی آزمائش سے بہرحال گزرتا ہے ۔ میں انتہائی امیر لوگوں سے بھی مل چکا ہوں اور انتہائی غریب لوگوں سے بھی۔ کئی لوگ بھرپور دولت کے باوجود صحت کی وجہ سے کچھ کھا نہیں سکتے اور کئی غریب غربت کے باوجود تنور کی گرم روٹیاں مزے لے لے کر کھاتے ہیں ۔ میرے والد کالم نگار تھے، میرا بھائی کنسٹرکشن کا کام کر رہا تھا، یہاں سے میرے لیے راستے بننے شروع ہوئے ۔کوئی نہ کوئی راستہ اللہ نے رکھا ہوتا ہے ۔ کوئی نہ کوئی کام انسان شروع کر سکتا ہے ۔ آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں کہ آپ کے جسم کے سب اعضا صحیح کام کر رہے ہیںاور سب سے بڑھ کر دماغ صحیح کام کر رہا ہے ۔ مایوسی سے نکلیں ، کوشش شروع کریں ۔ دماغ کو مختلف تجربات سے گزاریں ۔ان تجربات سے دماغ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے کیونکہ اس میں سیکھنے کی زبردست صلاحیت ہے ۔شرط یہ ہے کہ اسے تجربات سے گزارا جائے۔ 
پائلو کوئلہو نے کہا تھا "Be brave, take risks. nothing can substitute experience"۔ زیادہ کامیاب لوگوں سے اپنا موازنہ مت کریں کیونکہ کسی بہت بڑے دانشور نے یہ کہا تھا "Life is the most difficult exam. Many people fail because they try to copy others, not realizing that everyone is given a different question paper"۔ پروفیسر صاحب سے میں تسبیح ضرور لے دوں گا ۔ پروفیسر صاحب ایک عظیم استاد ہیں لیکن اپنی امیدیں اللہ سے وابستہ کیجیے ، کسی انسان سے نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved