عزیزہ مریم نواز‘ اپنی والدہ محترمہ اور پارٹی کے حق میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں زور وشور سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ان کی تقریر سننے کے لئے‘ شروع شروع میں وہ لوگ ان کی ''جلسیوں ‘‘میں روزانہ آتے‘ جو عموماً ہر جلسے میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ ان مخصوص اشخاص کی باقاعدہ حاضری لگتی ہے اور'' جلسیوں‘‘ کے اختتام پر ایک صاحب‘ باقاعدہ ایک کونے میں کھڑے ہو کر‘ ان کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ ان'' جلسیوں‘‘ کی رونق بڑھانے کے لئے ‘ کیا معاوضہ یا تحائف دئیے جاتے ہیں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ محترمہ مریم صاحبہ کے میدان میں اترنے سے‘ ان حضرات کو اپنی شامیں‘ رونق میلے میں گزارنے کا وقت مل جائے گا۔ تقریر کے دوران‘ مریم نواز حاضرین سے دریافت کرتیں ''کیا آپ کو نوازشریف کی نااہلی منظور ہے‘‘؟تو حضرات اور خواتین میں سے کچھ لوگ جواب دیتے ''منظور ہے منظور ہے‘‘۔سیاسی مہمات کے دوران‘ ایسی زندہ دلی کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔مریم صاحبہ کے والدِ محترم ضمنی الیکشن میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ ایک سے زیادہ مرتبہ اس حلقے کی نمائندگی حاصل کر کے‘ وہ بار بار وزیراعظم بنے۔
اس حلقے میںاپنی انتخابی مہم کے دوران‘ میاں صاحب نے نئی روایات قائم کی تھیں۔ پیسہ تو الیکشن لڑنے والے بیشتر امیدوار‘ اپنی اپنی بساط کے مطابق خرچ کرتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ ہر پیسہ خرچ کرنے والے کو‘معاوضہ بھی ملے۔ اکثر انتخابی ''جلسیوں‘‘ کے اختتام پر‘ دیگیں پیش کی جاتی ہیں لیکن ہر امیدوار اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ خرچ کی ہوئی بھاری رقم کے بدلے میں ہر ''سپورٹر‘‘ انہیں اپنے ووٹ سے بھی نوازتا ہو۔یہ خوش قسمتی صرف میاں صاحب کے حصے میں آئی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ جتنے انتخابی ووٹ ‘میاں صاحب کو سابقہ انتخابی معرکوں میں ملتے رہے ‘ وہ خریدے گئے ووٹوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔میاں صاحب احتیاط کر لیتے تھے کہ اگر انہوں نے ستر اسی ہزارووٹوں کا معاوضہ دیا ہو توان کے آٹھ دس ہزار پرستار‘ صرف پیسے پر قناعت کر کے‘ ووٹ ڈال دیتے۔ یہ لوگ ان کے حقیقی وفادار تھے۔نظام تقسیم ‘اتنا پرفیکٹ ہوتا کہ پیسے کھانے والوں پر بھی نظر رکھی جاتی جبکہ پیسہ اور کھانا ہضم کرنے والے امیدوار کی نگاہ میں رہتے ہیں۔کاروباری تجربہ‘ انتخابی عمل میں ان کے بہت کام آتا۔مریم بی بی کو براہ راست ووٹ حاصل کرنے کا تجربہ نہیں تھا لیکن انہوں نے انتخابی طور طریقے‘ ضرور سیکھ لئے ہوںگے۔محترمہ مریم نے عوام کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ''میں نوازشریف سے پیار کرتی ہوں۔ آپ بھی کرتے ہیں‘‘؟اس کے جواب میں خواتین کی طرف سے تو بہت کم جواب آتا لیکن مردوں کے ہجوم سے بھر پور نعرے لگتے۔شاید حاضرین یہ سمجھتے ہوں کہ مریم بی بی ‘بیٹی ہونے کی نسبت سے ‘ہر لڑکی کی طرح‘ اپنے باپ سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔
عمران خان کی تحریک انصاف نے بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو امیدوار بنا دیا۔ حلقے میں اب کی بار اصل مقابلہ‘ دونوں خواتین امیدواروں کے درمیان ہوگا۔شاید عمران کو پہلے پتہ چل گیا ہو کہ بیگم کلثوم نوازکی انتخابی مہم مریم نواز چلائیں گی۔یہ اندازہ درست نکلا۔ اب پختہ عمر خاتون کے مقابلے میں چھوٹی عمر کی خاتون میدان میں اتاری گئی ہیں۔ سچی بات ہے کہ انہوں نے جس طرح جان لڑا کے‘ انتخابی مہم چلائی ہے‘ کوئی دوسرا ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہا۔مریم بی بی کی انتخابی'' جلسیوں‘‘ میں اَن گنت کاریں شامل ہوتی ہیں۔اس کا اور کوئی فائدہ ہوا نہ ہو۔ پسماندہ علاقے کی عورتوں اور بچوں نے ‘زندگی میں اتنی زیادہ قیمتی کاریں بہت کم دیکھی ہوں گی۔ بچے اور نوجوان تو دھکے کھاتے ہوئے‘ان کاروں کی طرف جاتے اور ہاتھ لگا کر دیکھتے کہ یہ کاریں کس چیز سے بنی ہیں؟۔چند ایک نوجوانوں نے تو ان کاروں کو پرکھنے کے لئے‘ خوب مکے مار کے دیکھا لیکن کسی بھی کار میں ڈینٹ نہیں پڑا۔ البتہ مکا مارنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں پر زبردست چوٹیں آئیں۔قیمتی کار کو ہاتھ لگانا بہت پر خطر ہوتا ہے۔چوٹ صرف ہاتھ کو لگتی ہے۔ قیمتی کار کا کچھ نہیں بگڑتا۔سچی بات ہے‘ سیاست دان جب انتخابات میں حصہ لیتے ہیں‘تو انتخابی مہم میں خرچ کی گئی رقم‘ کا کئی ہزار گنا کما لیتے ہیں اور جو امیدوارلاکھوں خرچ کر ے ‘ ان کی کمائی لاکھوں اور کروڑوں میں نہیں‘ اربوں میں بنتی ہے۔ایسے سیاست دان اتنے دور اندیش ہوتے ہیں کہ اسمبلی میں جانے کے دو تین مہینوں کے بعد ہی‘ اپنا ایک بنگلہ لندن‘دبئی یا امریکہ میں بنا لیتے ہیں تاکہ کوئی قرض خواہ‘ ان سے رقم کی واپسی کا تقاضا نہ کر سکے۔
غرض کئی سر پھرے امیدوارجو شکست کھانے کے بعد‘ ووٹروں کے حلقے میں جا پہنچتے ہیں‘وہاں بڑے پیار سے اپنے نام نہاد حامیوں کو جمع کر کے‘پوچھتے ہیں ''ائوے اُلو کے پٹھو!میرا پیسہ بھی کھا گئے اور ووٹ بھی نہیں دیا۔ یہ کوئی شرافت ہے؟‘‘۔حاضرین میں سے ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کھڑے ہو کر چلاتے ہوئے کہا''ہم غریبوں سے کیا شکایت کرتے ہو؟ ہمارے گھر روشنی آتی ہے‘ نہ پانی۔ گلیوں میں گھٹنے گھٹنے کیچڑ پھیلا ہے۔ ہم بدترین زندگی گزارتے ہیں۔ کیا ہم ایسی زندگی کے لئے ‘ آپ لوگوں کو ووٹ دیں؟ہم لعنت بھیجتے ہیں ایسے ووٹ پر۔ جس کے بدلے میں چولہا بھی گرم نہ کیا جا سکے‘‘۔ حاضرین میں سے ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر کہا''ہمارے ووٹ لے کر تم محلات بنا لیتے ہو۔ قیمتی سے قیمتی کاریں خریدتے ہو اور ہم سے ووٹ لے کر بدلے میںکیا دیتے ہو۔۔۔۔۔ بے روزگاری؟بیماریاں؟ جہالت؟ ہم تو حیران ہیں کہ کیا ہم آپ لوگوں کو اس لئے ووٹ دیتے ہیں کہ ہماری زندگی بد سے بدترہوتی جائے؟ لیکن ڈاکٹر یاسمین راشدووٹ مانگنے گھر گھر جاتی ہیں اور گلیوں میں اتنا پھرتی ہیں کہ شام تک تراپڑتراپڑ چلتے ہوئے جوتے گھس جاتے ہیں۔وعدوں اور تقریروں کے جواب میں جوتے۔ غریب اور دے بھی کیا سکتے ہیں۔ہمارے انتخابات معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ زیادہ تر بچے ہی الیکشن کے ہنگامے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔''بچے سیاست نہیں کرتے‘‘۔