تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-09-2017

چھ سفارت کار اور سینیٹر کی پیش گوئی

امریکہ، جرمنی ، کینیڈا، فرانس ، انڈیا اور برطانیہ کے وہ سفیر جو عراق، شام، لیبیا کی تباہی کے وقت دمشق، بغداد اور طرابلس میں تعینات تھے‘ کہا جا رہا ہے کہ ایک ایک کرکے یہ سب اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے اب اسلام آباد میں تعینات کر دیئے گئے ہیں۔اگر ایسا ہے تو بہت کچھ سمجھ میں آ رہا ہے ۔۔۔بلوچستان میں علیحدگی کے نام سے جاری دہشت گردی میں بھارت، برطانیہ ، اسرائیل اور افغانستان کی تخریبی سرگرمیوں کی کمان امریکی سی آئی اے کے ہاتھوں میں بالکل اسی طرح سے ہے جیسے افغانستان میں نیٹو اور ایساف کی فوجیں تو موجود ہیں لیکن ان کی کمان امریکی افواج کے پاس ہے۔ اگر ہمارے کچھ لوگ بلوچستان میں امریکی مداخلت کے براہ راست ثبوت بھول گئے ہیں تو انہیں سترہ فروری2013 کو امریکی کانگریس میں کیلیفورنیا، ٹیکساس اور لووا کے ارکان کانگریس کی طرف سے پیش کی جانے والی اس قرار داد کو سامنے رکھنا ہو گا جس میں امریکہ سے بلوچستان میں دہشت گردوں کے بھیس میں علیحدگی کی تحریک چلانے والوں کی بھر پور مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔بلوچستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آج کی بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر اس حکمران کو بلوچستان کے مری، مینگل اور بگٹی سرداروں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے جنرل مشرف کی طرح ان کے ناجائز مطالبات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا ۔
1948,1958,1973, 2005 میں بلوچستان میں سر اٹھانے والی پُرتشدد علیحدگی کی تحریکوں کا اگر موجودہ تحریک سے موازنہ کیا جائے تو آپ کوایک واضح فرق نظر آئے گا کیونکہ اس سے پہلے ان تحریکوں اور ان کے علیحدگی پسند لیڈران کو روس، بھارت اور افغانستان کی مشترکہ مدد حاصل تو ہوتی تھی لیکن روس کی وجہ سے امریکہ اس کی مخالفت کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اپنے اپنے وقتوں میں علیحدگی کی یہ سب تحریکیں جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئیں ۔۔۔۔لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہترین سکیورٹی کے با وجود گزشتہ بارہ برسوں سے بلوچستان میں جاری دہشت گر دی میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آ رہا اس بار ان دہشت گردوں کا نیٹ ورک وسیع اور جدید ترین آلات سے لیس ہے۔ 
جو لوگ امریکی کانگریس کے ان با اثر اراکین کی بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے والی اس قرارداد سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں ان کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی چھ سال قبل کی گئی امریکی سینیٹر کی پیش گوئی سامنے رکھنی ہو گی اور پاکستانی فوج کے کچھ افسران جن میں بریگیڈیئر ظفر عالم خان(جنرل شمیم کے بھائی) کی کتابThe Way It Was میں لکھا ہوا وہ پیرا پڑھنا ہو گا جب وہ اگست1965 میں امریکہ میں سٹاف کورس کیلئے فورٹ ناکس جارہے تھے اور فلائٹ ٹیک آف ہونے کے کوئی پندرہ منٹ بعد ایئر ہوسٹس نے پاکستان کے ان نوجوان فوجی افسران سے درخواست کی کہ ایک امریکی ریا ست سے منتخب امریکی سینیٹر آپ کو کافی کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ افسران جب اس امریکی سینیٹر کے پاس گئے تو دوران گفتگو اس نے ان فوجی افسران کو کہا '' اگلے چند سالوں میں مشرقی پاکستان آپ سے علیحدہ ہو جائے گا‘‘ اور یہ سب اس 240 صفحات پر مشتمل اس بھارتی اور امریکی منصوبے کی کڑیاں ہیںجس کا کوڈ نام KAO ہے اب بلوچستان کیلئے KBP-2 ہے اور اگلے مرحلے میں پختونخوا کیلئےKPK ہے اور یہ مت بھولئے کہ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا انہی طاقتوں کے پلان کے مطابق رکھا گیا ہے یہ تو فوج کے اصرار پر خیبر کا لفظ ساتھ لگایا گیا ورنہ آصف علی زرداری بحیثیت صدر
پاکستان اس کی منظوری سے پہلے ہی امریکہ میں پختونخوا کا اعلان کر چکے تھے۔ امریکیوں کا پروگرام تھا کہ نواب اکبر بگٹی کو گریٹر بلوچستان کا صدر بنا یا جائے گا اور اس گریٹر بلوچستان کا نقشہ انہوں نے اس طرح بنایا کہ پاکستان کے کل جغرافیائی رقبے کے46 فیصد حصے پر مشتمل بلوچستان کے ساتھ افغانستان کا جنوبی ہرات صوبہ جہاں بلوچ اکثریتی آبادی ہے اور اس کے ساتھ ایرانی بلوچستان کے علا قوں پر مشتمل ایک نیا ملک تشکیل دیا جائے اور یہاں ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے جو اس خطے میں امریکہ کو وسیع اور دور تک اثر انداز ہونے والے جیو پولیٹیکل مقاصدکو پورا کر سکے جن میں بلوچستان کی وسیع اور انتہائی قیمتی معدنیات اور گوادر بندر گاہ کا مکمل کنٹرول شامل ہے ۔
امریکی سی آئی اے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح وہ گوادر، بھارتی سمندراور سینٹرل ایشیا کے درمیان گھومنے والی تیل اور گیس کی سپلائی لائن کا مکمل کنٹرول حاصل کر لے...سی آئی اے کے افسران کی ایک رپورٹ کے مطا بق بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد ایران اور پاکستان میں کسی بھی قسم کا کوئی زمینی رابطہ نہیں رہے گا اور اس طرح ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں بھی ایک واضح فرق پید اہو جائے گا کیونکہ ان دونوں کے اس وقت جو تجارتی مقاصد ہیں اس کے ذرائع ختم ہو جائیں گے اور اپنا کام نکالنے کے بعد ایران کو ختم کرنے کیلئے گریٹر بلوچستان امریکہ او راسرائیل کیلئے ایک بیس کا کام دے گا۔۔۔ساتھ ہی روس اور پاکستان کے درمیان ''GAZPROM'' منصوبہ جڑ سے ہی اکھڑ کر رہ جائے گا اور اس کے بعد امریکہ کیلئے '' گریٹ کردستان ‘‘ بنانے میں مزید آسانیاں پیدا ہو نے کے ساتھ ساتھ پورے خلیج میں امریکہ کے سو ا کسی اور کا فوجی، تجارتی اور سیا سی کنٹرول حاصل کرنا نا ممکن ہو جائے گا کیونکہ بلوچستان سے چین کی ہر قسم کی بے دخلی تو ہو گی ہی ساتھ ہی گوادر میں امریکی نیول بیس قائم کیا جائے گا تاکہ اس کے ذریعے سعودی عرب اور اس کے سمندروں کے اردگرد تک ہر طرح کی رسائی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ رہے۔۔۔۔اور اگر اس میں امریکہ کامیاب ہو جاتا ہے تو چین کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں کیونکہ اس کی دنیا سے تجارت اور بحری طاقت سکڑ کر رہ جائے گی ۔
امریکی سی آئی اے کی اپنی رپورٹس کے مطابق اکیسویں صدی میں گریٹر بلوچستان دنیا کا سب سے اہم ترین ملک ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ماہانہ500 امریکی ڈالر تنخواہ کے عوض مقامی لوگوں کو علیحدگی پسندی کی تحریک کیلئے بھرتی کر رہی ہے، اب تو یہ راز نہیں رہا کہ امریکی فوج کے جنرل پیٹریاس جب افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے تو وہ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔۔۔بلوچستان بارے شائع ہونے والی فارن پالیسی میگزین کی ایک رپورٹ میں تو واضح اور کھل کر بتا یا گیا تھا کہ اسرائیل ، برطانیہ ، بھارت اور امریکہ بلوچستان اور کراچی میںتباہی پھیلانے والی تنظیم جند اﷲ کیلئے ریکروٹمنٹ اور فنڈز مہیا کر رہی ہے۔ ہماری سیا سی اور فوجی قیا دت کو اس بات کا لازمی ادراک ہو نا چاہئے کہ '' سی پیک‘‘ اور گوادر کے آپریٹ ہونے کے چند سالوں بعد بلوچستان اپنے جغرافیائی اور سیاسی محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن جائے گا اس کیلئے چین کی پہلی ترجیح ہو گی کہ اس کی مستقبل کی انرجی اور تجارتی ضروریات کیلئے بلوچستان امریکی ہاتھوں میں نہ جائے اور امریکہ سمیت اس کے اتحادی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ گوادر چین سے چھین لیا جائے!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved