کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کو چکرا کر رکھ دیتی ہیں۔ سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں ملتان میٹرو بس سکینڈل کے حوالے سے جو معلومات شیئر کی گئیں وہ دہلا دینے کے لیے کافی ہیں ۔چین کہتا ہے ‘ ہم نے ایک چینی چور پکڑا ہے جو کہتا ہے وہ پاکستان سے تین ارب روپے لوٹ کر لایا ہے۔ وہ چور اپنے پاکستانی ساتھیوں کے نام اور پتے سب کچھ بتارہا ہے۔ اس کا کیا کرنا ہے؟
ہمارا جواب یہ ہے جناب وہ ہمارا پیسہ نہیں۔ آپ اس شریف چور کو چھوڑ دیں ۔ اگر ہمیں اس تین ارب روپے کے ڈاکے پر اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں اسے پکڑ کر ہمارے نام پر جیل میں ڈالنے والے۔
ایک اور خبر سنیں ۔ جمعرات کے روز بھارتی ریاست گجرات میں وزیراعظم مودی اور جاپانی وزیراعظم نے آحمد آباد اور ممبئی کے درمیان پانچ سو کلومیٹر طویل بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبے کا سنگ بیناد رکھا جو پانچ برس میں مکمل ہوگا ۔ اس منصوبے پر سترہ ارب ڈالرکی لاگت آئے گی ‘جس میں سے اکیاسی فیصد قرضہ جاپان فراہم کرے گا ۔ روزانہ چونتیس ہزار لوگ احمد آباد اور ممبئی کے درمیان اس پر سفر کریں گے۔دو گھنٹے میں یہ سفر طے ہوگا ۔
آپ پوچھیں گے اس میں خبر یا سکینڈل کیا ہے۔ عام سی خبر ہے۔ دنیا بھر میں اس طرح کے کام ہوتے رہتے ہیں۔ جی بالکل درست فرمایا۔ اس میں کہانی یہ ہے جاپان نے سترہ ارب ڈالر کا قرضہ بھارت کو 0.1 فیصد سود پر دیا ہے۔ آپ ابھی بھی حیران ہیں کہ اس میں کیا غلط ہے اگر سترہ ارب ڈالرکا قرضہ تقریبا نہ ہونے کے برابر سود پر دیا گیا ہے۔ اب ذرا دل تھام کر بیٹھیں ۔
کچھ دن ہوئے میں کچھ کتابیں لینے گیا ۔ کوئی صاحب پہچان کر مجھے ایک طرف لے گئے اور بولے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر میں چین اور پاکستان کے درمیان جاری منصوبوں کے کچھ حصے پر کام کرتے ہیں ۔ کہنے لگے ‘آپ کو پتہ ہے کہ کیا ہورہا ہے؟ پاکستان جتنے قرضے سی پیک کے نام پر لے رہا ہے ‘ وہ سب کمرشل قرضے ہیں۔'' چلیں مان لیتے ہیں چین ہمیں رعایتی قرضہ نہیں دے رہا اور ہمارے ساتھ کاروبار کر رہا ہے‘‘ وہ صاحب بولے ''جناب چین پاکستان سے ہر قرضے پر اس کے علاوہ دو فیصد رسک یا خطرات کے نام پر بھی چارج کررہا ہے‘‘ میں نے کہا مطلب؟ وہ صاحب بولے'' جناب ہم چین سے جو قرضے لے رہے ہیں ان کا سود تقریباً پانچ سے چھ فیصد بنتا ہے‘ جو بہت زیادہ ہے۔ اس پر بھی وہ دو فیصد رسک چارجز لے رہا ہے۔ مطلب پاکستان کو یہ قرضہ سات سے آٹھ فیصد تک پڑ رہا ہے‘‘ ایک لمحے کے لیے میں سن ہوکر رہ گیا ۔
مجھے یاد آیا دو سال قبل اسحاق ڈار یورو بانڈز بھی نیویارک فلوٹ کر کے آئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا تھا انہوں نے دنیا کی تاریخ کے مہنگے ترین یورو بانڈز فلوٹ کیے تھے۔ پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالرز کا قرضہ لینے کے لیے سرمایہ کاروں کو 8.25 فیصد سود دینے کی ڈیل کی جس کا مطلب آسان لفظوں میںیہ ہے کہ پاکستان 500 ملین ڈالر کے بدلے میں دس برس بعد ان سرمایہ کاروں کو کل 910 ملین ڈالر ادا کرے ۔ مطلب پاکستان 500 ملین ڈالرپر 410 ملین ڈالر سود دے گا ۔ یہ قرضہ اس وقت اسحاق ڈار نے لیا جب دنیا کے دیگر ملکوں نے یورو بانڈز لینے سے انکار کردیا کہ مارکیٹ بہت مہنگی تھی لیکن اسحاق ڈار نے وہ لے لیا ۔ بھارتی کمپنی کو سات سو ملین ڈالر قرضہ ڈھائی فیصد سود پر ملا تھا لیکن اسحاق ڈار سوا آٹھ فیصد پر قرضہ لائے تھے اور کئی دن شادیانے بجاتے رہے تھے ۔ مریم نواز ٹوئیٹ کر کے اپنے انکل کو مبارکبادیں دیتی رہی تھیں۔ بعد میں سینیٹر سلیم مانڈی والا نے انکشاف کیا تھا کہ دینا کی تاریخ کے مہنگے ترین یوروبانڈز لینے کے لیے پاکستان سے کچھ لوگوں نے ساڑھے سات کروڑ ڈالر بھیجے تھے۔ ان کے نام پوچھنے کے لیے کئی دفعہ اجلاس ہوا لیکن اس وقت کے سیکریٹری فنانس مولانا وقار مسعود نے نہ صرف وہ نام بینکوں کو شیئر کرنے سے روکا بلکہ باقاعدہ اجلاس میں جا کر سینیٹر کو آنکھیں بھی دکھا دیں اور سب بے چارے دبک کر رہ گئے تھے ۔ یہ وہی وقار مسعود تھے جو زرداری کا دایاں بازو سمجھے جاتے تھے اور کچھ عرصہ کے لیے جیل بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہ اب اس ملک کی وزارت خزانہ چلا رہے تھے اور سینیٹرز کو باقاعدہ ڈرایا کرتے تھے۔
اگر چین ہمیں 6سے 8 فیصد سود پر سی پیک کا قرضہ دے رہا ہے تو ہمیں اندازہ ہے ہم کہاں پھنس رہے ہیں؟ جن لوگوں نے چین سے مذاکرات کیے تھے وہ اس طرح کے مذاکرت کیوں نہیں کرسکے جو نرنیدر مودی بھارت کے لیے جاپان سے کر کے آیا ہے؟ 17 ارب ڈالر قرضہ اور سود صرف 0.1 فیصد ۔پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کے یہ کیسے دعوے ہیں کہ چین ہمیں کمرشل قرضہ دے کر دو فیصد رسک چارجز بھی لیتا ہے۔
تو کیا پاکستان کے حکمران اور بیوروکریٹس کے بارے میں مشہور یہ بات درست ہے کہ پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارا کمیشن کدھر ہے؟ وہ دے دو اور جو جی چاہوقیمت لگا دو۔ جب کہ بھارتی پہلے سخت ڈیل کرتے ہیں۔ بہت ساری رعایت کرانے کے بعد جب معاہدے پر دستخط ہونے لگتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارا حصہ کدھر ہے؟
ویسے یہ لوگ جو بیرون ملک سے مہنگے قرض لے کر آتے ہیں کیا اپنے اپنے کاروبار یا گھر کے لیے اس طرح کا قرضہ لیں گے؟ آخر وہ کون سی گیدڑ سنگھی بھارت اور مودی کے پاس ہے کہ وہ جاپان سے سترہ ارب ڈالر کا قرضہ 0.1 ٰفیصد پر لے آیا اور ہم ہیں کہ پچاس ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ لائے اور بغلیں بجا رہے ہیں۔
اتنا مہنگا قرضہ واپس کہاں سے ہوگا؟ ایئرپورٹس، بندرگاہیں، ٹی وی، ریڈیو عمارتیں، موٹروے اسحاق ڈار پہلے ہی گروی رکھ چکے ہیں۔ اب اور کیا گروی رکھ کر مزید قرضہ لیا جارہا ہے اور وہ بھی کمرشل بشمول رسک چارجز؟ چین ہمارا دوست ہے تو پھر چین کو ہم پر اعتبار کیوں نہیں ؟ چین کیوں سمجھتا ہے اس کے قرضے ڈوبنے کے امکانات موجود ہیں لہٰذا دو فیصد سود کمرشل قرضہ کے علاوہ بھی دیا جائے ۔
ویسے چین کیوں نہ اس ملک کے ساتھ یہ رویہ رکھے ۔ جب چین نے پاکستان کو بتایا کہ اس کی کمپنی نے چین میں دعوی کیا ہے کہ اسے ملتان میٹرو میں ایک کنٹریکٹ ملا جس کی مالیت تین ارب پچھتر کروڑ روپے تھی۔ اس میں سے تین ارب روپے اس کمپنی کے بقول اسے منافع ہوا ۔ اندازہ فرمائیں تین ارب کا منافع ملا جبکہ کام صرف پچھتر کروڑ کا ہوا ۔ چین کا کہنا تھا پاکستان بتائے یہ درست ہے؟ ہم سب لٹھ لے کر پل پڑے۔ سب نے مذمتیں شروع کردیں ۔ چینی ابھی سکینڈل کی تحقیقات کررہے ہیں اور ہم نے پہلے ہی سکینڈل کلیر کر کے مبارکبادیں بھی وصول کرلیں۔
چینی یقینا حیرانی کے ساتھ ساتھ خوش ہوں گے کیسے لوگ ان کے ہتھے چڑھ گئے ہیں کہ ہمارا کنٹریکٹر کہتا ہے وہ پاکستان سے مال بنا کر لایا ہے۔ ہم اس کے خلاف تحقیقات کررہے ہیں اور جن کے گھر سے پیسہ چوری کر کے لایا ہے وہ کہتے اس بھلے مانس کو کیوں پکڑا ہوا ہے؟ہمارا پیسہ ہے، جب ہمیں اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں ۔ اگر ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے تو پھر کیوں نہ چین ہم سے معاہدوں کے نام پر مال بنائے۔کمال دیکھیں لوٹنے کے بعد بھی یہ سب چور چور کا شور مچا رہے ہیں ۔ سکول کا دور یاد آگیا جب ہر درسی کتب پیچھے لکھا ہوتا تھا۔ نقالوں سے ہوشیار ۔ چور بھی کہے چور چور۔۔!