شائستہ اطوار مریم نواز کو یہی زیبا تھا‘ اخبار نویس کے سوال کے جواب میں کہا‘ ''چوہدری صاحب (نثار علی خاں) میرے بزرگ ہیں‘ میرے والد صاحب کے دیرینہ دوست ہیں۔ میں ان کی عزت کرتی ہوں اور ان کی رائے کا احترام بھی‘‘۔ چھوٹوں سے شفقت‘ دوستوں سے وفا اور بڑوں کا احترام‘ شریف فیملی کی دیرینہ روایات ہیں‘ جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں۔ جاوید ہاشمی نے نوازشریف کی رفاقت چھوڑ کر عمران خان کی ہم سفری اختیار کی‘ تو حمزہ شہباز کا کہنا تھا‘ وہ بُرے وقت کے بہت اچھے ساتھی تھے۔
چکری کے راجپوت گھرانے کا دبنگ چوہدری میڈیا کا زیادہ شوقین نہیں رہا۔ ایک بار کہا‘ مجھے ان دوستوں کی سمجھ نہیں آتی‘ جو کوٹ ٹائی کے ساتھ بن سنور کر روزانہ کسی نہ کسی ٹاک شو میں نظر آتے ہیں‘ اس (فضول) کام کے لیے وہ اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟ چوہدری صاحب خال خال ہی ٹی وی سکرین پر نظر آتے‘ البتہ جب آتے تو اپنی طول طویل گفتگو سے پچھلی کسر نکال لیتے‘ جس میں Substance کم اور Repeatition زیادہ ہوتی۔ اب کہ وہ سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے‘ ایک چینل پر گفتگو کے لیے ان کے پاس وقت کی کمی نہیں تھی۔ اس میں کچھ گفتگو مریم نواز کے متعلق بھی تھی۔ چوہدری صاحب کو اس اندیشے نے آ لیا تھا کہ مریم مسلم لیگ نون میں (جس سے وفاداری کو چوہدری صاحب اپنے سیاسی ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں) اپنے والد کی سیاسی جانشین بننے جا رہی ہیں۔ چوہدری صاحب کا کہنا تھا‘ بچے‘ بچے ہوتے ہیں...اور بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں...چنانچہ ان کی قیادت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ لیکن بچوں کے بارے میں یہ بھی تو کہا جا جاتا ہے‘ ''بچے من کے سچے‘‘ اور یہ شاندار فقرہ بھی (غالباً یوسفی صاحب نے کہا) ''بچے اچھے ہوتے ہیں‘ لیکن ایک خرابی ہوتی ہے کہ یہ بڑے ہو جاتے ہیں‘‘ احسن اقبال نے یاد دلایا‘ پاکستانی قانون کے مطابق بچے 18 سال کی عمر میں بچے نہیں رہتے‘ اس عمر میں یہ بالغ ہو جاتے ہیں...ووٹ دینے کے علاوہ یہ قانوناً شادی کرنے‘ اپنا الگ گھر بنانے کے قابل بھی۔ مریم نواز تو خیر سے 43 سال کی ہیں۔ ان کی بڑی صاحبزادی مہر النساء اپنے گھر والی ہو چکی۔ جنید کو ہم جدہ کے سرور پیلس میں نکر پہنے دیکھا کرتے‘ اب خیر سے وہ لندن سے فارغ التحصیل ہو چکا اور مسلم لیگ یوتھ ونگ کے اجلاسوں کی صدارت کرتا نظر آتا ہے۔
لیکن چوہدری صاحب کو یہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور مریم کے موازنے کی کیا سوجھی؟ جبکہ خود مریم نے اپنا موازنہ کبھی محترمہ سے نہیں کیا۔ ''رائٹر‘‘ سے تازہ انٹرویو میں اس حوالے سے ایک سوال پر مریم کا جواب تھا‘ میں اُن کا احترام کرتی ہوں لیکن مجھ میں اور اُن میں اس کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں کہ ہم دونوں خواتین ہیں۔ یہاں مریم کا کوئی سترہ سال پرانا انٹرویو بھی یاد آیا۔ تب ہم جدہ میں ایک بڑے سعودی پبلی کیشن ہائوس کے ہفت روزہ کے ایڈیٹر تھے۔ اس کے روزنامہ میں بھی منہ مارتے رہتے۔ میاں صاحب ڈکٹیٹر مشرف کے قیدی تھے۔ وہ کراچی کی خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے آتے تو والدہ صاحبہ اور بیگم صاحبہ کے علاوہ مریم اور حسین نواز کی اہلیہ سارہ بھی لاہور سے کراچی پہنچ جاتیں۔ اسلام آباد کے سینئر جرنلسٹ سعود ساحر بھی عدالت میں پہنچنے کا اہتمام کرتے۔ ہم نے ان سے بیگم صاحبہ‘ مریم اور سارہ حسین کے انٹرویو کی درخواست کی۔ مریم کے انٹرویو سے چند سطور :
12 اکتوبر کی کارروائی کے وقت آپ کہاں تھیں۔اس موقع پر آپ کے احساسات و جذبات کیا تھے؟
''میں اپنی والدہ‘ بہن اور بھابھی کے ساتھ رائے ونڈ والے گھر میں تھی‘ ہمیں شام کو فوجی کارروائی کی اطلاع مل چکی تھی۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے گھر پر بھی دھاوا بول دیا جائے گا اور سب گھر والوں کو قید کر لیا جائے گا۔ میرے دادا‘ دادی‘ میرے شوہر اور کمسن بیٹے کو بھی قید کر لیا گیا۔ میں نے دیکھا جب میرے ضعیف دادا کو وہ گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے‘ وہ اس روز گھٹنے کے درد کے باعث چل بھی نہیں پا رہے تھے۔ مسلح اہلکاروں نے ہمارے گھر کے اندر ڈیرہ ڈال لیا تھا۔ ہمیں الگ الگ کمروں میں محدود اور محصور کر دیا گیا‘ موبائل فون بھی لے لئے گئے۔ کھانا بھی اپنے اپنے کمروں میں پہنچا دیا جاتا۔ 38 روز بعد رہائی ملی اور ہم میاں صاحب (نوازشریف) سے ملنے کراچی آئے۔
''قدم بڑھائو نوازشریف‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے دعویداروں اور نعرہ بازوں کی غالب اکثریت مصلحت کی چادر اوڑھ کر گھر وںمیں بیٹھ رہی۔ تب بیگم صاحبہ (کلثوم نواز) نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور کارواں بننے لگا۔ 8 جولائی 2000ء کو دنیا بھر کے ٹی وی چینل گھنٹوں یہ منظر دکھاتے رہے کہ پولیس والے بیگم صاحبہ کی گاڑی کو کرین کے ذریعے اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ تہمینہ دولتانہ اور جاوید ہاشمی بھی بیگم صاحبہ کے ساتھ گاڑی میں تھے۔ گاڑی کو جی او آر پہنچا دیا گیا۔ یہ سب دس گھنٹے تک گاڑی کے اندر بند رہے۔ 14 اگست کو مزار قائد پر بیگم کلثوم نواز کے استقبال کے لیے آنے والے کارکنوں کو بدترین تشدد کا سامنا تھا‘ وحشیانہ لاٹھی چارج‘ اسی شام کراچی پریس کلب میں بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں‘ آئین بحال ہو جائے تو ڈکٹیٹر کی اور اس ''ریٹائرڈ جنرل ‘‘کی جگہ وہ کال کوٹھڑی ہو گی جس میں نوازشریف کو رکھا گیا (12 اکتوبر کی سہ پہر وزیراعظم اپنے آئینی اختیار کے تحت مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے برطرف کر چکے تھے‘ چنانچہ بیگم صاحبہ اپنی تقاریر میں اسے ریٹائرڈ جنرل یا برطرف جنرل کہتیں) ابتدا میں مریم بھی والدہ کے ساتھ نظر آتیں‘ پھر دادا کے کہنے پر گھر کی چاردیواری تک محدود ہو گئیں کہ بچے چھوٹے تھے اور انہیں ماں کی توجہ کی ضرورت تھی۔میاں صاحب کو طیارہ اغواء کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تو عدالت میں سناٹا تھا‘ تب مریم نے نعرہ لگایا‘ پرویز مشرف مردہ باد‘ ڈکٹیٹر شپ مردہ باد‘ پھر 10 دسمبر 2000ء کو جلاوطن ہونے والوں میں مریم بھی تھیں۔
چوہدری صاحب کا کہنا ہے‘ مریم اور بے نظیر کا کوئی موازنہ نہیں‘ یہاں وہ بے نظیر کی قیدوبند کی صعوبتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ کیا برسوں کی جلاوطنی (وہ چاہے جدہ کے محل ہی میں کیوں نہ ہو؟) کیا چوہدری صاحب کے خیال میں کوئی سزا نہیں؟
بے نظیر تعلیم کے حوالے سے بھی مریم سے آگے تھیں‘ مریم کی ساری تعلیم پاکستان میں ہوئی جبکہ بھٹو کی بیٹی ہارورڈ اور آکسفورڈ کی فارغ التحصیل تھیں‘ لیکن یہ بات تو بھٹو اور میاں صاحب کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے‘ اول الذکر امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر اور میاں صاحب پنجاب یونیورسٹی کے لاء گریجوایٹ‘ لیکن اول الذکر کے مقابلے میں ثانی الذکر اس لیے زیادہ ''کامیاب سیاست دان ‘‘کہ اس کی وزارت عظمیٰ کا مجموعی عرصہ بھٹو صاحب سے دوگنا بنتا ہے۔
اگر جیل جانا ہی بڑا لیڈر بننے کا معیار ہے تو آئین اور قانون کے پابند محمد علی جناح ایک دن بھی جیل نہ گئے اور مسلمانان برصغیر کے قائداعظم اور مملکت خداداد کے بانی ہونے کے لازوال اعزاز کے حامل ہوئے۔ بے شمار مثالوں میں ایک مثال جاوید ہاشمی کی ہے کہ جن کی گرفتاریوں کا آغاز سکول لائف سے ہوا کہ ہتھکڑی ان کے ہاتھوں سے بہت بڑی تھی‘ پھر بھٹو کے عہد ستم میں اذیتوں بھری قید اور مشرف دور میں اسی کا اعادہ ۔دسمبر کی سرد رات میں ننگے جسم پر بیدوں کی بارش‘ (سعد رفیق بھی ہاشمی کے ساتھ تھے) بغاوت کے الزام میں اڈیالہ جیل راولپنڈی اور کوٹ لکھپت لاہور کی جیلوں میں قید و بند کے ماہ و سال اور دوسری طرف چکری کے دبنگ راجپوت کا اس حوالے سے اثاثہ‘ 12 اکتوبر کی فوجی کارروائی کے بعد گھر پر نظربندی...اپنی تمام تر اصول پسندی کے باوجود فوجی گھرانے کا سپوت ڈکٹیٹر کی طرف سے رعایت اور مراعات کا مستحق ٹھہرا تھا۔